علی احسن محمد مجاہد جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری جنرل اور ملک کے سابق مرکزی وزیر سوشل ویلفیئرتھے۔بنگلہ دیش میں فوجی حکومتیں بھی آتی رہیں اور سول دور بھی آئے۔ بدترین زمانہ حسینہ واجد کا دوسرا دورِ حکومت ہے ‘جس میں اس نے بے شمار بے گناہ قائدین کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ بنگلہ دیش میں انتخابات برسر اقتدار پارٹی کی حکومت میں ہوتے تھے‘ جس پر پورے ملک میں احتجاج کیا گیا کہ یہ انتخاب غیر جانبدار حکومت کے تحت ہونے چاہییں۔ اس عرصے میں پروفیسر غلام اعظم صاحب نے ایک فارمولا پوری قوم کے سامنے پیش کیا کہ دستور میں ترمیم کرکے نگران حکومت کے تحت انتخابات کرانے کا مستقل نظام بنایا جائے۔ ساری پارٹیوں نے اسے تسلیم کیا‘ مگر اس دور کی حکمران بی این پی نے اس سے اختلاف کیا۔ بالآخر احتجاج کے نتیجے میں حکومت کو یہ فارمولا تسلیم کرنا پڑا اور مجوزہ ترمیم منظور ہوئی۔
کس قدر ستم ظریفی ہے کہ اس احتجاجی تحریک میں تمام اپوزیشن پارٹیوں بشمول جماعت اسلامی نے مشترکہ جدوجہد کی۔ اگر یہ لوگ واقعی غدار تھے تو حسینہ واجد اس زمانے میں ان کے ساتھ اتحاد کرکے غداری کے الزام سے کیسے بچ سکتی ہے؟ اے ظالم قاتلہ! ''شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘۔ اس ترمیم کے تحت جتنے بھی انتخابات ہوئے ان پر پوری قوم کو یکسوئی اور اطمینان ہوا۔ عوامی لیگ نے بعد میں اپنے اقتدار کے دوران اس ترمیم کو منسوخ کرکے اپنی من مانی کے ذریعے انتخابات کروانے کی جو رسم ڈالی اس کے خلاف آج تک پوری قوم سراپا احتجاج ہے۔
2001ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی 18نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ‘جبکہ خواتین کی دو نشستوں پر بھی انہیں کامیابی ملی۔ اس مرتبہ جماعت اسلامی نے بی این پی کی درخواست پر مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ امیر جماعت مولانا مطیع الرحمن نظامی اور قیم جماعت علی احسن محمدمجاہد مرکزی کابینہ کے رکن بنائے گئے۔ نظامی صاحب کے پاس پہلے زراعت اوراس کے بعد صنعت کی وزارتیں رہیں ‘جبکہ علی احسن محمد مجاہد کے پاس سوشل ویلفیئر کی وزارت کا قلم دان تھا۔ دونوں وزرا کی کارکردگی عالمی اداروں نے بہترین قرار دی۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے ان دونوں وزرا کو شفاف ترین وزرا کا سرٹیفکیٹ دیا۔ ملک کے اندر ہر شہری نے دیکھا کہ ان دونوں وزرا نے عوامی مسائل حل کیے اور عام آدمی کو عزت بخشی۔ علی احسن محمد مجاہد اپنی وزارت میں تمام اہم مناصب پر فائز افسران پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ جہاں کہیں کوئی غیرقانونی حرکت دیکھتے فوراً اس پر ایکشن لیتے۔ اس کے نتیجے میں اگرچہ ایک طبقہ ان سے نالاں تھا‘ مگر عوام الناس اور دیانت دار کارندے ان کے مداح اور قدردان تھے۔
علی احسن محمد مجاہد کے کیس کی سماعت کے دوران 2012ء کے آخر میں نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے بارے میں پوری دنیا میں ایک شور بپا ہوا‘ جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ سب ڈھونگ‘ انصاف کا قتل اور قانون وعدالت کی موت کا اعلان ہے۔ اکانومسٹ (Economist)نے لکھا کہ ہیڈ جج نظام الحق اور برسلز میں مقیم ایک بنگالی وکیل ضیاء الدین کے درمیان سکائپ پر جو تبادلۂ خیال ہوتا رہا اس میں کسی شک وشبے کے بغیر یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ گورنمنٹ اس نام نہاد ٹریبونل کو دباؤ کے ذریعے اپنی مرضی کے فیصلے لاگو کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ نظام الحق کی غیرجانب داری اور آزادی کا بھانڈا مکمل طور پر پھوٹ گیا جب اس نے ضیاء الدین سے یہ کہا کہ میرے پاس اس کیس میں ملزم کو سزا دینے کے لیے کوئی ثبوت‘ شواہد اور جواز نہیں ہے۔ تم کسی طرح میری مدد کرو تاکہ میں حکومت کی من مرضی کا فیصلہ سنا سکوں۔ جب یہ سارا راز کھلا تو نظام الحق نے اپنے منصب سے استعفا دے دیا‘ لیکن اس کے باوجود حسینہ واجد اپنے قائم کردہ ٹریبونل سے اپنی مرضی کا فیصلہ لینے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کی تفصیلات روزنامہ ڈیلی سٹار (Daily Star)نے 12دسمبر2012ء میں اپنی خبر"Tribunal chief quits over skype scandal" میں پوری طرح بیان کردی تھیں۔ اکانومسٹ (Economist)کا یہ حقائق نامہ ''جادو وہ جو سرچڑھ کے بولے‘‘ کے مصداق بنگلہ دیش میں قائم ان نام نہاد جنگی جرائم کی عدالتوں کا بدنما چہرہ ننگا کرنے کے لیے کافی ہے۔ ان سب حقائق کے باوجود ساری دنیا تماشا دیکھتی رہی اور انصاف کو بیچ چوراہے ذبح کرکے علی احسن محمد مجاہد کو 22نومبر2015ء کو آدھی رات کے وقت ڈھاکہ سنٹرل جیل میں پھانسی لگا دیا گیا۔
علی احسن محمد مجاہد دیگر شہدا کی طرح زندہ ہے۔ اس کی یادیں اس کے دوستوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ مجھے بیرون ملک ایک اور بنگالی بھائی نے بتایا کہ وہ علی احسن محمد مجاہد کے ساتھ کافی عرصہ اتنے قریب رہے کہ ان کی ہر خوبی سے واقف ہیں۔ ان کے بقول وزیر بننے کے باوجود شہید کی زندگی اتنی سادہ تھی کہ کوئی آدمی اس وقت بھی محسوس نہیں کرسکتا تھا کہ یہ مرکزی وزیر ہیں۔ وہ پہلے کی طرح ٹھیلے والے سے خود سبزی خرید کر گھر لے جاتے۔ بڑے بڑے سٹوروں پر جانے کی بجائے وہ چھوٹی چھوٹی دکانوں سے اپنی ضروریات زندگی خریدتے۔ انہوں نے بڑا محل تعمیر کرنے کی بجائے معمولی مکان کو اپنی رہائش گاہ بنائے رکھا۔ وہ صحیح معنوں میں اللہ سے محبت کرنے والے بندۂ مومن تھے‘ آخرت کے طلب گار تھے‘ زندگی مانند ِ مسافر گزار کر اللہ کے ہاں حاضر ہوگئے۔ وہ اپنے ذاتی کاموں پر ہمیشہ جماعت کے کاموں کو ترجیح دیتے۔ وہ کارکنان سے ٹوٹ کر محبت کرتے اور کارکنان بھی ان پر اپنی جان نچھاور کرتے تھے۔
علی احسن مجاہد کے خاندان کا ہر فرد تحریک کا عظیم سرمایہ ہے۔ ان کے والد مرحوم کا تذکرہ اس سے قبل ہوچکا ہے۔ وہ اپنے علاقے کی ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ ان کو اللہ نے خیر کثیر سے نوازا تھا۔ وہ عالمِ باعمل تھے‘ زندگی بھر اللہ کے دین کی تعلیم اور خدمتِ خلق میں مصروف رہے۔ اللہ نے ان کو سات بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا تھا۔ بیٹوں میں علی اعظم محمد رضوان (مرحوم) سب سے بڑے تھے۔ دوسرے نمبر پر علی اقبال محمد توفیق (مرحوم) تھے۔ یہ دونوں دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ تیسرے بیٹے علی افضل محمد خالص ہیں اور شہید علی احسن محمد مجاہد کا چوتھا نمبر تھا۔ ان سے چھوٹے بھائیوں کے نام علی الترتیب علی اصغر‘ محمد اسلم‘ علی اشرف محمد شعیب (مرحوم) اور سب سے چھوٹے علی اکرم محمد عزیز ہیں۔یوں چار بھائی جنت مکین ہیں اور تین میدانِ عمل میں سرگرم اور تحریکِ اسلامی کا سرمایہ ہیں۔ اللہ ان سب کو سلامت رکھے۔ علی احسن محمد مجاہد کی بہن طہورہ کوثر تمام بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں اور الحمد للہ بقیدِ حیات ہیں۔ دوسری بہن کا نام طیبہ زلفی ہے۔ اللہ ان سب کی حفاظت فرمائے۔
مرحوم کے سبھی بچے بھی تحریک اسلامی کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی اہلیہ نے زندگی بھر ان کے ساتھ ہرطرح کی مشکلات میں انتہائی صبرواستقامت کے ساتھ وقت گزارا۔ یہ پورا خاندان کندن سونے کی مانند ہے۔ ان کی شہادت کے بعد تمام ارکانِ خاندان شہید کے عقیدت مندوں کے لیے انتہائی احترام کے مقام پر ہیں۔ شہید نے اپنے پیچھے اپنی بیوہ تمنائے جہاں‘ جو رکن جماعت ہیں کے علاوہ تین بیٹے‘ علی احمد تشدید‘ علی احمد تحقیق اور علی احمد مبرور‘ ایک بیٹی تمرینہ اور کئی نواسے پوتے چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شہید کے اس باغ کو پھلتا پھولتا رکھے اور بنگلہ دیش میں جاری مظالم کی اس سیاہ رات کو اسلام کے نور سے سپیدۂ سحر میں ڈھال دے۔
علی احسن محمد مجاہد جب بھی ذہن میں تمہارا خیال آتا ہے تو زبان پہ بے ساختہ علامہ اقبالؔ کے شعر آجاتے ہیں۔؎
رخصت اے بزمِ جہاں! سوئے وطن جاتا ہوں میں
آہ اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں میں
چھوڑ کر مانندِ بُو‘ تیرا چمن جاتا ہوں میں
رخصت اے بزمِ جہاں سوئے وطن جاتا ہوں میں
اس دنیا کو اللہ کے نبیٔ مکرمؐ نے مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن اس عارضی زندگی میں ہر قدم پر اپنے لیے قائم کی گئی حدود کے اندر خود کو مقید رکھتا ہے۔ نفسِ امارہ حدود پامال کرنے کی دعوت دے تو اسے جھٹک دیتا ہے۔ بندۂ مومن کی نظر اس دائمی زندگی پر مرتکز ہوتی ہے‘ جس میں سرخرو ہوجانا ہی حقیقی کامیابی ہے۔ اس کے برعکس کافر اور اللہ کا باغی دنیا میں بے نتھے بیل کی طرح جس طرف چاہے منہ اٹھا کر چل پڑتا ہے‘ نہ حلال و حرام کی تمیز ‘ نہ حدود اللہ کا کوئی پاس۔ اس کے نزدیک یہی دنیا سب کچھ ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا فلسفہ ''بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ہے۔
علی احسن محمد مجاہد ہمیشہ اہلِ حق کے دلوں میں زندہ رہے گا۔ اس کی زندگی عزیمت و استقامت کی مکمل روداد ہے۔ ایسے ہیرے جس تحریک کے دامن میں ہوں‘ وہ اخلاق و کردار کے میدان میں کبھی کنگال نہیں ہوسکتی۔ وہ میری اور آپ کی طرح اسی خاک سے پیدا کیا گیا تھا ‘مگر وہ اقبالؔ کے شعر کا مصداق تھا۔؎
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کرلیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا