16دسمبر1971ء کو پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کے بنگالی ارکان وکارکنان کے لیے حالات بہت کٹھن اور مشکل ہوگئے۔ اس سانحہ کے وقت جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے رہنما اور امیر جناب پروفیسرغلام اعظم مرحوم بیرون ملک تھے۔ انہوں نے بنگلہ دیش جانا چاہا‘ مگر کافی عرصے تک وہ نہ جا سکے۔ اس دوران وہ بیرونِ ملک مختلف ممالک میں پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کرتے رہے اور بنگلہ دیش میں اپنے ساتھیوں سے مسلسل رابطے میں رہے۔
مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کے اہم اور مرکزی رہنما مولانا عبدالرحیم مرحوم نے بدلے ہوئے حالات میں ایک نئے نام سے پارٹی قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے اپنی پارٹی کا نام اسلامک ڈیموکریٹک لیگ (IDL) رکھا۔ جماعت اسلامی کے حلقوں سے بہت کم لوگوں نے اس نوساختہ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور جو شامل ہوئے بھی انہیں پوری طرح سے یکسوئی حاصل نہیں تھی۔ آخر مشورے سے جماعت کے ساتھیوں نے پروفیسرغلام اعظم صاحب کو اپنا امیر تسلیم کرتے ہوئے ان کی غیرحاضری میں مولانا عباس علی خاں مرحوم کو قائم مقام امیر جماعت بنگلہ دیش کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے آمادہ کیا۔ مولانا عباس علی صاحب جماعت کے سینئر رہنماؤں میں سے تھے۔ وہ متحدہ پاکستان میں جماعت کی مرکزی شوریٰ کے ساتھ قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوتے رہے۔ بہت حلیم الطبع بہادر اور ذہین انسان تھے۔
پروفیسر غلام اعظم صاحب نے بیرونِ ملک ہوتے ہوئے اعلان کیا کہ اب‘ چونکہ بنگلہ دیش ایک الگ اور آزاد ملک بن گیا ہے‘ اس لیے ہم اسے تسلیم کرتے ہیں اور بنگلہ دیش میں کسی اور نام سے کام کرنے کی بجائے جماعت اسلامی کے نام ہی سے اپنی دعوتی اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔ یہ فیصلہ بلاشبہ بہت جرأت مندانہ اور دانش مندانہ تھا۔ بنگلہ دیش کے نئے حکمرانوں نے پروفیسرغلام اعظم صاحب کی بنگلہ دیشی شہریت ختم کردی اور ان کے خلاف بہت سے جھوٹے کیس بھی بنادئیے۔ پروفیسر غلام اعظم ڈرنے والے انسان نہیں تھے۔ وہ 1990ء میں بنگلہ دیش چلے گئے اور ڈھاکہ ائیرپورٹ پر اترے۔ انہیں بنگلہ دیشی شہری تسلیم نہ کیا گیا‘ ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا‘ اس پر ان کو وزٹ ویزا دے دیا گیا۔
پروفیسر صاحب نے کسی گھبراہٹ کے بغیر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ پرامن اور منظم انداز میں اپنا کام جاری رکھیں۔ اس دوران انہوں نے عدالتی جنگ لڑی جو خاصی طویل اور صبرآزما تھی۔ بہرحال اس کے نتیجے میں ان کی شہریت 1990ء ہی میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے بحال ہوگئی۔ شہریت بحال ہونے پر انھوں نے باقاعدہ جماعت کے امیر کے طور پر کام شروع کیا۔ وہ انتخابات میں دوبارہ امیر منتخب ہوگئے۔ انہوں نے مولانا مطیع الرحمن نظامی شہید کو شوریٰ کے مشورے سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا۔
پروفیسر غلام اعظم کی شخصیت بڑی پرکشش تھی۔ لوگ ان سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔ انہوں نے حکمت کے تحت یہ فیصلہ کیا کہ وہ جماعت کا تربیتی اور علمی وتصنیفی محاذ سنبھال کر زیادہ بہتر خدمت کرسکتے ہیں؛ چنانچہ انہوں نے 2000ء میں انتخابات کے موقع پر ارکان سے درخواست کی کہ ان کو رائے نہ دیں۔ ان کی معذرت قبول کرتے ہوئے ارکان نے مولانا مطیع الرحمن نظامی صاحب کو امیر جماعت منتخب کیا۔ وہ اپنی شہادت تک تقریباً 16سال امیر جماعت رہے۔ اس دوران وہ پارلیمان کے رکن بھی منتخب ہوئے اور مرکزی وزارت کی ذمہ داریاں بھی نہایت کامیابی کے ساتھ نبھائیں۔ جب حسینہ واجد حکومت نے ان کے خلاف جھوٹے کیسوں کی بنیاد پر انہیں مئی 2008ء میں جیل میں ڈالاتو انہوں نے جماعت کے نہایت سنجیدہ اور دانش مند رہنما جناب مقبول احمد صاحب کو قائم مقام امیر مقرر کردیا۔ مطیع الرحمن نظامی صاحب کی قید کے دوران مقبول صاحب نے مشکل حالات میں قیادت کا حق ادا کیا۔ جماعت اور بیرون جماعت کے تمام حلقے ان کی استقامت اور دانش وحکمت کے قائل ہیں۔
2016ء میں نظامی صاحب کی شہادت کے بعد امارت کا انتخاب ہوا‘ تو اس میں مقبول احمد صاحب کو امیر منتخب کیا گیا۔ آپ تین سال کے لیے اس ذمہ داری پر منتخب ہوئے۔ نئے انتخابات میں اپنی صحت اور کبرسنی کی وجہ سے انہوں نے امارت سے معذرت کی اور ارکان سے درخواست کی کہ ان کے حق میں رائے نہ دیں۔ 2008ء سے 2016ء تک مقبول صاحب نے آٹھ سال قائم مقام امیر اور پھر 2016ء سے 2019ء تک مستقل امیر کے فرائض ادا کیے۔ یوں یہ دور تقریباً 11 سال بنتا ہے۔ مقبول صاحب کے خلاف بھی حکومت نے جھوٹے مقدمات بنا رکھے ہیں۔ اللہ ان کی حفاظت فرمائے۔
مجلس شوریٰ نے دستور کے مطابق تین ارکان پروفیسرمجیب الرحمن (نائب امیر)‘ میاں غلام پرور(نائب امیر وسابق ممبرپارلیمان) اور ڈاکٹر شفیق الرحمن (قیم جماعت) کے نام تجویز کیے۔ جماعت کے الیکشن کمیشن نے 17اکتوبر تا 10 نومبر2019ء کی مدت میں انتخابات کروائے جن میں جماعت کے تمام ممبران نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ ان انتخابات کے نتائج کا اعلان الیکشن کمیشن نے 13نومبر 2019ء کو کیا۔ ان نتائج کے مطابق ارکان جماعت نے ڈاکٹر شفیق الرحمن کو امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش منتخب کیا۔ اس لحاظ سے وہ بنگلہ دیش جماعت کے چوتھے امیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بڑی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بطور امیر ان کو اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن تحصیل کلاؤرہ ضلع مولوی بازار کے ایک معزز گھرانے میں 31اکتوبر1958ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ابرو میاں علاقے کے معززین میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کی والدہ خطیب النساء بھی تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی اور ہر امتحان میں شاندار کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ کالج کے زمانے میں اسلامی چھاترو شبر میں شامل ہوئے۔ ایم بی بی ایس کا امتحان سلہٹ میڈیکل کالج سے 1983ء میں پاس کیا۔ دورِ طالب علمی میں سلہٹ شہر کے ناظم جمعیت (چھاتروشبر) رہے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد 1983ء ہی میں فی الفور جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ یہ دور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے لیے آسان نہیں تھا‘ مگر صاحب ِ عزم وہمت لوگ قافلے میں شامل ہوتے جارہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب 1984ء میں جماعت کے رکن بنے۔
رکن جماعت بننے کے فوری بعد اپنی بے پناہ صلاحیتوں کی وجہ سے 1985ء میں وہ مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ 1986ء تا1988ء موصوف نے ضلع سلہٹ میں بطور قیم ضلع ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس کے بعد ترتیب وار 1989ء تا1991ء نائب امیر ضلع سلہٹ اور پھر اسی ضلع میں 1991ء تا1998ء امارت کے منصب پر فائز رہے۔ ڈاکٹر صاحب کو 1998ء میں مجلس عاملہ کا رکن مقرر کیا گیا۔ 2007ء تک وہ سلہٹ ہی میں تحریکی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ 2010ء میں انہیں مرکز میں اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔ 2011ء سے انہیں مرکز میں قائم مقام سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری سونپی گئی۔ علی احسن محمد مجاہد جو مطیع الرحمن نظامی صاحب کے ساتھ سیکرٹری جنرل تھے‘ وہ جھوٹے مقدمات میں جیل میں ڈال دیے گئے اور پھر انہیں 2015ء میں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔ شفیق الرحمن صاحب نے 2017ء تک قائم مقام سیکرٹری جنرل اور 2017ء سے تاحال مستقل سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کیا۔ اب‘ انہیں 3سال کے لیے امیر جماعت منتخب کرلیا گیا ہے۔ وہ 2022ء تک اس ذمہ داری پر فائز رہیں گے۔
شفیق الرحمن صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبیوں سے نوازا ہے۔ انہیں حسینہ واجد نے ان ذمہ داریوں کے دوران مختلف اوقات میں دو مرتبہ گرفتار کرکے جیل میں ڈالا۔ جھوٹے الزامات کو انھوں نے عدالتوں میں چیلنج کیا اور ہر بار پہلے ضمانت پر رہا ہوئے اور پھر مستقل فیصلہ ان کے حق میں آیا۔ ان کی گرفتاری کے دوران مولانا رفیق الاسلام خاں قائم مقام سیکرٹری جنرل رہے۔ ڈاکٹر صاحب جماعتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ایک غیرسرکاری میڈیکل کالج اور ہسپتال کے چیئرمین بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بہت معروف ہائی سکول کی مجلس انتظامیہ کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے ملک میں بہت بڑی تعداد میں مساجد اور خیراتی اداروں کی تعمیر کا کام بھی کیا ہے۔ نوجوانوں کے لیے کھیل او ردیگر تعمیری سرگرمیوں کی خاطر کئی یوتھ کلب بھی بنائے ہیں۔ ملک کی بہت مشہور درس گاہ کامل مدرسہ کی کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے مشرق ومغرب میں ایک درجن سے زیادہ ممالک میں مختلف کانفرنسوں میں بطور مہمان مقرر شرکت کی ہے۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن کی اہلیہ ڈاکٹر امینہ شفیق بھی میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ وہ خواتین کی مخصوص نشست پر پارلیمنٹ کی رکن بھی رہیں۔ جماعت اسلامی حلقہ خواتین میں ان کی خدمات کا اعتراف تمام تحریکی حلقوں میں کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اللہ نے دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا ہے۔ بڑی بیٹی نے ایم بی بی ایس کے بعد امراض قلب میں ایف سی پی ایس کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ ایک میڈیکل کالج میں بطور رجسٹرا ذمہ داریاں ادا کررہی ہیں۔ دوسری بیٹی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ بیٹا ایم بی بی ایس کے فائنل سال میں ہے۔ گویا سارا گھرانا میڈیکل ڈاکٹرز پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ شفیق الرحمن صاحب کو بطور امیر جماعت اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بنگلہ دیش میں تحریک اسلامی انتہائی مشکل حالات کے باوجود اپنا کام پوری دلجمعی کے ساتھ کررہی ہے۔