فتح مکہ کے بعد نبی اکرم ﷺ نے ایک تو عام معافی کا اعلان فرمایا‘ دوسرے اپنے دست مبارک سے بیت اللہ شریف سے اصنام کا صفایا کیا۔ خانہ کعبہ کو پاک صاف کر دینے کے بعد آنحضورؐ نے موذنِ اسلام حضرت بلالؓ بن رباح کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ آج کے دن شرک‘ کفر‘ جہالت اور جاہلی عصبیت کے تمام آثار اس سرزمین سے مٹا دیے گئے ہیں۔ یہ محض اللہ کی توحید کا اعلان نہ تھا‘ بلکہ اس بات کی دلیل بھی تھی کہ خاندانی اور نسبی تفاخر کی اسلام میں کہیں کوئی گنجائش نہیں۔ مٹی‘ پتھر اور لکڑی کے بنے ہوئے بتوں کو خانہ کعبہ سے نکال باہر پھینکا گیا تھا ‘مگر ان سب سے بڑا بت جو انسانوں کے سینوں میں سجایا جاتا ہے اور جس کی پوجا تمام دیگر بتوں سے زیادہ کی جاتی ہے وہ اپنی ذاتی بڑائی اور اور فخر و مباہات کا بت ہے۔ سردارانِ مکہ سب نیچے کھڑے تھے اور ایک حبشی غلام خانہ کعبہ کی چھت پہ کھڑا کمال وارفتگی اور سوز و گداز سے اذان پڑھ رہا تھا۔ آج بلال کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور اسلام دشمنوں کے دلوں پر آرے چل رہے تھے۔ (سیرت ابن ہشام‘مجموعہ ‘ج۳-۴‘ص ۴۱۳)
ہجرت سے قبل قریش نے کئی مرتبہ آنحضورؐ پر اعتراض کیے کہ آپ کے گردونواح غلام اور گرے پڑے لوگ جمع رہتے ہیں‘ ہم آپ کی مجلس میں ان کے ساتھ ہر گز نہیں بیٹھ سکتے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر ان معاندین ِ اسلام کے اس خیال باطل کو مسترد کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ''اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں ‘ ان سے ہر گز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو‘ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔ (الکھف۱۸:۲۸)‘‘ سورۃ الانعام میں اس مضمون کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ (آیات:۵۲-۵۳)
بلالؓ و عمارؓ اور خبابؓ وصہیبؓ سرداران قریش کی نظروں میں حقیر تھے ‘مگر ربِّ کعبہ کی نظر میں معزز و محترم تھے۔ اسلام میں شرف و تکریم اور اعزاز و اکرام کا مقام و مرتبہ مادی دولت‘ ظاہری حسن اور نسبی حوالوں سے نہیں ‘بلکہ ایمان‘ اخلاق‘ کردار اور تقویٰ سے متعین ہوتا ہے۔ قریش نے بلالؓ کو خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑے دیکھا تو کئی لوگوں کے دلوں میں نفرت کا لاوا ابلنے لگا مگر آج وہ بے بس تھے۔ حافظ ابن قیم‘ حافظ ابن کثیر اور ابن ہشام جیسے عظیم مورخین نے اس عظیم الشان واقعے کی جو منظر کشی کی ہے‘ وہ بڑی ایمان افروز ہے۔ حضرت بلال نے اذان کی صورت میں اللہ کی کبریائی کا اعلان‘ آنحضورؐ کی قیادت و رہنمائی کا اقرار اور کامیابی و فلاح کے راستوں کی ترجمانی کرتے ہوئے چاروں طرف منہ کرکے جب کعبہ کی چھت سے اذان کے الفاظ پڑھے تو مکہ کی فضا میں ایک گونج پیدا ہوئی۔ گردونواح کی پہاڑیاں بھی اس کلمۂ حق سے جھوم اٹھیں۔ اہل ایمان کے دلوں میں سکینت نازل ہوئی اور جن دلوں میں ابھی تک کھوٹ اور میل کچیل تھا وہ پژ مردہ ہوگئے۔ شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگا اور روتے ہوئے اپنی ناکامیوں کا ماتم کرنے لگا۔ جاء الحق وزھق الباطل کی عملی تفسیر چشمِ فلک نے دیکھی اور خلقِ خدا نے بھی اس کا مشاہدہ کیا۔
اس اذان کے الفاظ و معانی سے اہلِ اسلام تو پہلے ہی بخوبی واقف تھے‘ کافر بھی ایک ایک لفظ کو سن رہے تھے اور اس کا پورا مفہوم سمجھ رہے تھے۔ کوئی ابہام تھا‘ نہ شک و شبہ۔ اسلام کا انقلابی منشور پوری انسانیت کے سامنے پیش کر دیا گیا تھا۔ قریش کے ایک سردار عتاب بن اُسَید نے اپنے قریب کھڑے ہوئے قریشیوں کو سناتے ہوئے کہا ؛اللہ نے میرے باپ اُسَید کو یہ منظر دیکھنے سے پہلے ہی اٹھا لیا۔ یہ میرے والد کی خوش نصیبی ہے۔ قریب کھڑے ہوئے سعید بن عاص کے بیٹوں نے بھی کہا کہ اللہ نے ہمارے والد سعید کو اس سیاہ فام حبشی غلام کے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھنے اور یہ الفاظ ادا کرنے سے پہلے اٹھا لیا‘ ورنہ وہ یہ اذیت کیسے برداشت کرتا۔ اس موقع پر ابو جہل کا بھائی حارث بن ہشام اور قریش کا سردار ابو سفیان بن حرب بھی یہ باتیں سن رہے تھے ‘مگر خاموش تھے۔
لوگوں نے حارث بن ہشام کو خاموش دیکھ کر اسے عار دلائی اور کہا کہ کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ یہ حبشی غلام کہاں چڑھ گیا ہے‘ تو اس نے بہت اچھا جواب دیا کہ ''اگر اللہ یہ نہ چاہتا تو وہ کبھی اس مقام پر نہ چڑھتا ‘یہ اللہ کی مرضی ہے‘ اسے کون روک سکتا ہے۔‘‘ لوگوں نے ابوسفیان کی طرف تجسس کے ساتھ دیکھا تو اس نے کہا؛ بخدا میں کوئی بات نہیں کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میں نے کوئی بات کی تو یہ کنکریاں اور پتھر بھی محمدؐ کو خبر دے دیں گے۔ یہ لوگ اپنے تئیں یہی سمجھ رہے تھے کہ ان کی باتوں کا کسی کو علم نہیں۔ ادھر آنحضورؐ کچھ ہی دیر کے بعد ان کے پاس آئے۔ بلالؓ اس وقت تک اذان دے چکے تھے۔ آپؐ نے ان سب سے فرمایا ابھی جو باتیں تم لوگوں نے کی ہیں مجھے ان کا علم ہے‘پھر آپؐ نے ہر ایک کے الفاظ دُہراتے ہوئے بتایا کہ تم نے یہ اور یہ باتیں کی ہیں۔
اس موقع پر ان لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں‘ کیونکہ وہ ابھی ابھی یہ باتیں کر رہے تھے اور ان میں سے کوئی بھی اپنی جگہ سے ہلا نہیں تھا کہ آنحضورؐ نے آکر ان کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔ ان سب نے کہا کہ اللہ کی قسم آپ اللہ کے برحق رسول ہیں ہم سچے دل سے آپ پر ایمان لائے۔ اس کے بعد یہ لوگ واقعی جماعت صحابہ میں اپنے اعمال اور کردار کی بدولت اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ (زاد المعاد ج۳‘ ص۴۰۹-۴۱۰‘ البدایۃ والنہایۃ ج۱‘ ص ۸۵۵-۸۵۶) رسولِ برحق کو ربِ کائنات کی تائید قدم قدم پر حاصل رہی۔ وہ علیم و خبیر آپؐ کو ہر اہم بات خواہ وہ کتنی ہی خفیہ رکھی گئی ہو۔ یوں بتا دیتا جیسے روزِ روشن میں ہر چیز نظروں کے سامنے عیاں ہوتی ہے۔
الواقدی نے المغازی میں شیطان کی بری حرکتوں کا تذکرہ کیا ہے اور ساتھ یہ دلچسپ بات لکھی ہے کہ ابلیس اپنی طویل زندگی میں صرف تین بار رویا ہے۔ پہلی مرتبہ اس وقت جب اس نے اللہ کے حکم پر سجدہ کرنے سے انکار کیا اور پھر اس کی شکل تبدیل کر دی گئی اور اسے ملعون قرار دیا گیا۔ پہلے اس کی شکل اللہ نے فرشتوں جیسی بنا دی تھی۔ اپنے انکار پر تو اسے افسوس نہ ہوا‘ مگر شکل تبدیل ہونے پر پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ دوسری مرتبہ وہ اس وقت رویا جب حضورؐ کو ان کی بعثت کے بعد پہلی مرتبہ حرم مکہ میں نماز پڑھتے دیکھا۔ تیسری مرتبہ وہ اس رو ززارو قطار رویا جب فتح مکہ کے بعد خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا گیا اور پھر بلالؓ نے خانہ کعبہ کی چھت سے کلمہ توحید بلند کیا۔ یہ تیسرا موقع اس کے لیے اتنی ذلت و رسوائی کا باعث تھا کہ اس نے اپنی تمام ذریت کو روتے ہوئے خطاب کیا اور کہا خدا کی قسم اب اس بات کی کبھی امید نہ رکھنا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت کو شرک جلی میں مبتلا کر سکو۔ اب‘ تمہارے لیے طریقہ واردات یہ ہوگا کہ ان کے اندر [بے ہودہ اور لغو] شعر و شاعری اور [دیگر جاہلی رسوم] بالخصوص نوحہ گری کو رائج کرو۔ (مغازی للواقدی ج۲‘ ص ۸۴۱-۸۴۲)
ابلیس کے لیے ان دنوں میں مسلسل رونے دھونے کے سوا اور کوئی کام نہیں رہ گیا تھا۔ آنحضورؐ کا خطبہ اور اس میں آپؐ کا بڑا پن اور عظمت شیطان کو گھلا رہی تھی۔ جب آنحضورؐ کا خطبہ سننے کے لیے ہر جانب سے لوگ دوڑ پڑے جن میں مرد اور عورتیں‘ بچے اور بوڑھے اہل ایمان اور مشرکین‘ متربصین اور منافقین سبھی شامل تھے تو شیطان اہلِ ایمان کی قوت ایمانی پر مسلسل کڑھ رہا تھا۔ خطیب بھی عظیم تھا اور خطبہ بھی بے مثال‘ مگر یہ تو مقدر کی بات ہے کہ مخاطبین میں سے کس نے اپنا دامن کس قدر بھرا! رحمان کی رحمتیں اور شیطان کے خدشات و وساوس! سچی بات یہ ہے کہ اس کے خدشات درست تھے۔ ایک دن میں اتنے لوگ اسلام میں داخل ہوئے کہ کئی سالوں میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ لوگ مکہ فتح ہوجانے کے بعد‘ اسلام میں داخل ہوئے‘ اس لیے سابقون الاولون کے مقام کو تو نہیں پہنچ سکتے ‘مگر ان میں بہت سے قیمتی ہیرے اور لعل و جواہر تھے جن پر آنحضورؐ کو فخر تھا اور وہ تاج نبوت میں آج بھی جگمگا رہے ہیں۔ انہی میں صفوان بن امیہ‘ سہیل بن عمرو‘ عتاب بن اُسید‘ عِکرمہ بن عمرو (ابو جہل) ‘ حکیم بن حزام‘ جبیر ابن مطعم‘ حارث بن ہشام اور ان جیسے کئی فرزندان توحید شامل ہیں۔ انہی میں ام حکیم‘ ہند بنتِ عتبہ‘ فاختہ ام ہانی‘ فاطمہ بنت الولید [حضرت خالد کی بہن] بغوم الکنانیہ [ صفوان بن امیہ کی زوجہ]‘ ہند بنتِ مُنَبِّہ بن الحجاج [ عمرو ابن العاص کی والدہ] اور ان جیسی دیگر عظیم بناتِ اسلام کے اسمائے گرامی جگمگا رہے ہیں۔ (تفصیلات طبقات ابن سعد میں ان صحابہ و صحابیات کے حالات میں دیکھی جاسکتی ہیں)