مظلومین ِکشمیر… ہم تمہارے ساتھ ہیں !

5فروری کا دن عالمی سطح پر یوم یکجہتی کشمیر کی پہچان بن چکا۔ پاکستان میں قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور اور مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی ‘ دو ایسی عظیم شخصیتیں تھیں‘ جن کے درمیان بے پناہ محبت و احترام کے تعلقات تھے۔ دونوں ان تھک‘ مجاہد صفت‘ نرم دم گفتگو‘ گرم دم جستجو کی بہترین مثال! آپس میں ٹیلی فون پر رابطہ رکھتے اور مسئلہ کشمیر پر مشاورت جاری رہتی۔ دونوں رہنما کشمیر و فلسطین کے مسائل کے حل کے لیے ہمہ دم سرگرمِ عمل رہتے۔ بہت سی یادیں آج تڑپا رہی ہیں کہ ایک مردِ مجاہد اپنا سفر پورا کر کے کئی سال قبل منزل سے ہم کنار ہو گئے ‘جبکہ دوسرے شیر صفت بزرگ آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں‘ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ خطۂ کشمیر‘ ارض فلسطین کی طرح دھرتی کا مظلوم ترین گوشہ ہے۔ پون صدی سے زائد عرصہ کشمیری مظلومین نے بھارتی فوج اور مسلح فورسز کی سنگینوں کے سائے میں گزارا ہے ۔اگست 2019سے درندہ صفت نریندر مودی نے دستور ہند کی دفعہ 370اور 35اے کو ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا ۔اس دن سے آج تک کم و بیش دوسو دن بیت چکے ہیں کہ کشمیر میں بدترین کرفیو ہے ۔ذرئع ابلاغ پر پابندی ہے ۔کشمیری پوری دنیا سے ابلاغی طور پر کٹ چکے ہیں ۔
بھارتی فوج کے کم و بیش دس لاکھ کارندوں کے ساتھ اب ہندوانتہا پسند اور دنیا کی بدترین دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے ہزاروں مسلح غنڈے بھی کشمیر میں مسلم کشی میں شریک ہیں ۔مظلوم کشمیریوں کا قتل عام سے قبل مثلہ کیا جاتا ہے ۔اس بدترین ظلم پر پوری دنیا خاموش ہے‘ حتیٰ کہ حکومت پاکستان بھی عملاً کچھ کرنے کی بجائے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے ۔انگریزی استعمار کے خاتمے کے وقت سے ہی اس سرزمین ِ جنت نظیر پر بھارت کی درندہ صفت فوجیں اتنی بڑی تعداد میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی پر مامور ہیں کہ اس کی کوئی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ چھوٹی سی آبادی کو لاکھوں درندوں نے گھیر رکھا ہے۔ ان کی آبادیاں ویران‘ کھیت کھلیان اور باغات تباہ حال‘ عفت مآب بیٹیوں کی عصمتیں پامال اورپوری وادی جنت نظیر آج مقتل کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
ایک لاکھ سے زائد بے گناہ کشمیری جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ زخمی اور معذور ہوچکے ہیں۔ ہزاروں مرد و خواتین لاپتہ ہیں اور ہزاروں بھارتی عقوبت خانوں میں ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ ہزاروں دخترانِ کشمیر کی عفت پامال کی جا چکی ہے اور یہ اندوہ ناک سلسلہ آر ایس ایس کے درندوں کی آمد کے بعد بہت زیادہ بڑھ گیا ہے ۔پاکستان اس مسئلے کا اہم فریق ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ تحریکِ حریت کشمیر‘ پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کا برملا اظہار کرتی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ساتھ ہی ساری حریت پسند قیادت اور کشمیر ی سیاست دان نظر بند کردیئے گئے ہیں ۔ان قائدین پر مظالم کی حد کردی گئی ہے ۔جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے راہنما غلام محمد بھٹ بھارتی جیل میں نظر بندی کے دوران گزشتہ ماہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوچکے ہیں۔باقی قائدین کو بھی تشدد کے علاوہ ان کی غذا میں زہر ملا کرہلاک کرنے کی مذموم کوششیں ہورہی ہیں۔ 
افسوس صد افسوس کہ پاکستانی حکومتیں یکے بعد دیگرے مسلسل قوم و ملت کے اس اہم ترین مسئلے کو نا صرف پس پشت ڈالنے کی مرتکب ہوئی ہیں‘ بلکہ حریت پسند کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی مجرم بھی ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم بھی نواز شریف کی طرح بھارت کی محبت میں دیوانے ہوکر فرمایا کرتے تھے کہ بھارتی انتخابات میں مودی کی کامیابی سے مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا‘ جو شخص باشعور ہو اور کشمیر سے محبت رکھتا ہو‘ وہ بھارت بالخصوص مودی سے کیسے خیر کی امیدیں وابستہ کرسکتا ہے؟ افسوس کہ یہ لوگ خونِ شہدا کی قدر و قیمت سے تو نابلد ہیں ہی‘ اس بنیادی انسانی غیرت سے بھی محروم ہوچکے ہیں کہ مظلومین کشمیر پر ظلم کرنے والوں سے خیر کی توقع رکھتے ہیں؟
کشمیری حریت پسند روزِ اول سے بھارتی تسلط کے خلاف سرپا احتجاج رہے ہیں۔ پہلے بھارتی فوجیں یک طرفہ خون کی ہولی کھیلتی تھیں۔ ربع صدی قبل کشمیریوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے۔ اس کے نتیجے میں بھارتی درندوں کی لاشیں انڈیا کے مختلف شہروں میں جانے لگیں تو بھارتی بنئے کو احساس ہوا کہ کشمیر کو غلام رکھنا اب‘ ان کے بس میں نہیں۔ کشمیری حریت پسند مختلف تنظیموں کے جھنڈے تلے مصروفِ جہاد تھے۔ پھر انہوں نے تحریک حریت کشمیر کو متحدہ پلیٹ فارم کی شکل دی اور سید علی گیلانی کی صورت میں ایک ایسی قیادت خطے کو نصیب ہوئی ‘جو ہر لحاظ سے مثالی ہے۔ جسمانی لحاظ سے بظاہر کمزور‘ عمر رسیدہ‘ مختلف امراض سے نڈھال‘ علی گیلانی عقابی نگاہ اور چیتے کا جگر رکھتے ہیں۔ وہ واقعتاً حیدرکرار ؓ کی تلوار ‘ خالدؓ کی للکار اور طارقؒ کی یلغار کا نمونہ ہیں۔ تحریک حریت کی کاوشوں سے مسئلہ کشمیر پھر زندہ ہوا۔ پاکستان اور آزاد کشمیر جہاد کشمیر کا بیس کیمپ ہیں۔ پاکستان اس مسئلے میں مداخلت کار نہیں ‘بلکہ عالمی اداروں کے فیصلوں نے اسے باقاعدہ ایک فریق کا درجہ دیا ہے۔ پاکستانی حکمران معلوم نہیں کیوں بزدلی کی چادر اوڑھے اس مسئلے سے دور بھاگتے ہیں۔
5فروری یوم یکجہتی کشمیر کی عوامی اورسرکاری حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس کا آغاز 1990ء میں ہوا۔ اس وقت نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب اور بے نظیر بھٹو مرحومہ وزیراعظم پاکستان تھیں۔ جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر جناب قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کی ایک مشاورتی نشست میں یکجہتی کشمیر کے لیے دن منانے کا تصور پیش کیا‘جسے جملہ شرکاء کی طرف سے سراہا گیا۔ مشاورت میں طے پایا کہ ملک کے تمام عناصر و مسالک‘ حکومتی اور غیر حکومتی ادارے غرض پوری قوم اور تما م افراد یک زبان ہوکر مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھائیں۔اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی گئی‘ جس نے اس پروگرام کا پورا لائحۂ عمل طے کیا۔مشاورت میں طے پایا کہ قاضی صاحب حکمرانوں سے ملاقات کرکے انہیں بھی اس مسئلے کی اہمیت سے آگاہی دیں اور اپنا فرض ادا کرنے پر آمادہ کریں۔ قاضی صاحب نے اس سلسلے میں میاں محمد نواز شریف صاحب سے ملاقات کی اور 9 جنوری 1990ء کو پریس کانفرنس کے ذریعے جماعتی فیصلوں کے مطابق 5 فروری 1990ء کا دن ''یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کے طورپر منانے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر پاکستانی ذرائع ابلاغ نے بھی بھر پور کردار ادا کیا اورالیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس مطالبے کو خوب اجاگر کیاگیا۔ 
پنجاب حکومت نے سرکاری سطح پریومِ یکجہتی کشمیر کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ملک میں ایسی فضا بن گئی کہ وزیراعظم پاکستان‘ بینظیر بھٹو مرحومہ نے بھی اس مطالبے کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہوئے 5 فروری کو سرکاری تعطیل قرار دے دیا۔ انہوں نے مظفرآباد میں آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کیا‘ جس میں بھارتی مظالم کی مکمل تصویر پیش کرتے ہوئے پرجوش انداز میں تحریک آزادی کشمیر کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ بینظیر بھٹو مرحومہ کی تقاریر میں سے ان کا وہ خطاب بہت جامع اور موثر ہے۔ اس وقت سے لے کر آج کے دن تک پاکستان میں بر سر اقتدارآنے والی ہر حکومت ؛اگرچہ عملاً مسئلہ کشمیر پر اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر اور گریزاں رہی ہے‘ تاہم یہ دن ایک قومی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور اس سے انحراف کسی کے بس میں نہیں۔اس مرتبہ 2020ئ میں پہلی بار کشمیریوں کے حبس بے جا کے دوران یہ دن منایا جارہا ہے ۔اس دن کی اہمیت موجودہ حالات میں کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔اس سال اِن شاء اللہ بھارت کے کئی شہروں کے اندر بھی یہ دن جوش و خروش سے منایا جائے گا۔
1990ء سے5 فروری تاریخی حیثیت اختیار کر چکا اور اس روز پوری دنیا یہ منظر دیکھتی ہے کہ پاکستانی قوم بڑے شہروں سے لے کر چھوٹی چھوٹی بستیوں تک اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہی ہوتی ہے۔ یہ یوم یکجہتی قاضی حسین احمد صاحب اور سید علی گیلانی کا ایک صدقہ جاریہ ہے۔ اللہ ان کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ اس یوم کے تعین کے لیے جن لوگوں نے سوچ بچار کی اور جنہوں نے اس کے لیے دستِ تعاون بڑھایا ان سب کا یہ عمل باعث اجر ہے۔ جو جتنے اخلاص کے ساتھ مظلوم کشمیری بھائیوں کے لیے کام کرے گا‘ اتنا ہی اللہ کے ہاں اجر کا مستحق ہوگا۔آج پوری دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے ۔عالم ِ اسلام میں ہر جانب بیداری کی لہریں موجزن ہیں۔ ہمیں جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار مجاہدین ِکشمیرو فلسطین اور افغانی و عراقی حریت پسندوں کا ساتھ دینا چاہیے ۔غلامی کی زنجیریں اِن شاء اللہ ٹوٹ گریں گی اور جبر کا دور ختم ہو جائے گا ۔
5فروری کا یہ دن تجدیدِ عہداور عزمِ نو کی نوید ہے۔ آئیے اپنے اللہ سے عہد باندھیں کہ ہم کشمیر کی آزادی تک جدوجہد جاری رکھیں گے ۔اللہ تعالیٰ جہاد کرنے والوں کا ساتھی ہے اور ہم قائد المجاہدینؐ کے امتی ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر زندہ باد‘ یوم یکجہتی کشمیر پائندہ باد‘ بھارتی درندگی مردہ باد۔ لعنت برامریکہ‘ بھارت‘اسرائیل گٹھ جوڑ!لعنت بر تثلیث ظالمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں