نبی اکرمؐ جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں پر مسجد قبا موجود تھی‘ جو صحابہ کرام نے ہجرت سے پہلے تعمیر کی تھی۔ آپؐ نے مدینہ آمد کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے جگہ حاصل کی اور پھر صحابہ کرام کے ساتھ مل کر اس کی تعمیر کا اہتمام فرمایا۔ یہ دونوں مساجد مدینہ کی ابتدائی مساجد میں سے ہیں۔ ان کے بعد بھی کئی اور جگہوں پر مساجد تعمیر کی گئیں‘ جو مساجد مخلص صحابہ کرام نے اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کیں‘ وہ تقویٰ اور نیکی کے مراکز تھے۔ مدینہ کے منافقین نے مدینہ منورہ کے اندر اسلام کو زک پہنچانے کے لیے کئی تخریبی اڈے قائم کر رکھے تھے۔ ان میں سے بعض مراکز نفاق تو ان منافقین کے گھروں میں تھے‘ جن کو نبی اکرمؐ نے مختلف اوقات میں منہدم کروایا اور ایک خطرناک اڈہ مسجد ضرار کے نام سے معروف ہوا۔
سیرۃ ابن ہشام میں ایک یہودی سُوَیْلَم کے گھر کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہاں پر منافقین جمع ہوتے اور اسلام کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بنتے۔ آنحضورؐ کو اطلاع ملی کہ غزوۂ تبوک سے لوگوں کو بددل کرنے کے لیے سویلم یہودی کے گھر منافقین نے ڈیرہ جما رکھا ہے۔ اس یہودی کو مدینہ کے تینوں یہودی قبائل کی جلاوطنی اور قتل کے بعد اسلامی ریاست کی طرف سے امان دی گئی تھی۔ جب آنحضورؐ کو پوری معلومات مل گئیں تو آپؐ نے حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ کو اس گھر کے جلا ڈالنے کا حکم دیا۔ ان کے ساتھ حضرت ضحاک بن خلفیہؓ اور حضرت ابن اُبَیرِقؓ کو بھی بھیجا گیا۔ حضرت ضحاکؓ اس مکان کی چھت پر چڑھ گئے اور دیگر صحابہ نے نیچے سے اس گھر کو آگ لگا دی۔ حضرت ضحاکؓ کی ایک ٹانگ بھی اس مہم کے دوران زخمی ہو گئی تھی۔ تمام اسلام دشمن اس موقع پر مکان سے بھاگ گئے۔ آنحضورؐ نے ان میں سے کسی کو گرفتار کرنے کا حکم نہیں دیا تھا ‘بلکہ محض اس گھر کو جلا ڈالنے کی ہدایت فرمائی تھی۔
اب ان لوگوں نے ایک اور پینترا بدلا اور مسجد بنا کر اسے اپنی سازشوں کا اڈہ بنانا چاہا۔ اس مسجد کی تعمیر میں عبد اللہ بن ابیّ اور اس کے ساتھیوں کے علاوہ مدینہ کا ایک اسلام دشمن ابو عامر راہب ‘جو عیسائی ہوچکا تھا اور جس کی آنحضورؐ کی آمد سے قبل مدینہ میں بڑی عزت تھی‘ بھی شریک تھا۔ اسلام میں اسے ابو عامر راہب کی بجائے ابو عامر فاسق کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کے دوران کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ عمارت مسجد ہے یا منافقین کا مورچہ۔ بڑی ہوشیاری سے ان لوگوں نے آنحضورؐ کو دعوت دی کہ وہ برکت کے لیے اس مسجد کا افتتاح بھی فرمائیں اور پہلی نماز بھی پڑھائیں۔ اس مسجد کا محل وقوع مرکز ِمدینہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر مسجد قبا کے قریب بنو سالم کے علاقے میں تھا۔ اس مسجد کو بنانے والے تمام لوگ بد طینت و بد نیت تھے۔ جب یہ لوگ آنحضورؐ کے پاس آئے تو آپؐ نے فرمایا کہ میں تبوک سے واپسی پر اس مسجد میں آئوں گا۔ آنحضورؐ جب تبوک سے واپس پلٹے تو اللہ رب العالمین کی طرف سے حکم آگیا کہ یہ مسجد نہیں‘ بلکہ کفر کا اڈہ اور منافقین کا مورچہ ہے۔ اس لیے اس میں نماز پڑھنے کی بجائے اسے جلا دیا جائے۔ اللہ کا حکم آجانے کے بعد آنحضورؐ نے اس مسجد کو جلا ڈالنے کا حکم دیا۔
ابو عامر راہب‘ آنحضورؐ کی آمد کے بعد محسوس کر رہا تھا کہ اب مدینہ میں اس کی‘ بلکہ کسی بھی اسلام دشمن کی دال گلنے کاکوئی امکان نہیں تو اس نے اسلام دشمنی میں جل بھن کر ہر وہ کام کیا‘ جس کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس اسلام دشمن نے کئی روپ دھارے۔ عیسائیت‘ بت پرستی‘ پھر جھوٹ موٹ اسلام کا دعویٰ اور منافقت۔ یہ انتہائی بد کردار دشمن ِ اسلام تھا‘ سراپا شر اور گناہ! آغاز میں بدر و احد کے معرکوں کے دوران یہ قریش مکہ کے ساتھ عملاً شریک ہوتا تھا۔ احد کے میدان میں اسی بدبخت نے وہ گڑھے کھد وائے تھے‘ جن میں سے ایک گڑھے میں آنحضورؐ گرے اور زخمی ہوئے۔ کافروں کی طرف سے جب یہ مسلمانوں کے مقابلے پر مبارزت کے لیے نکلا تو انصار کی زبان پر بے ساختہ یہ الفاظ آگئے ''اے فاسق‘ دشمن ِخدا! تیرے اوپر اللہ کبھی اپنے انعامات کا دروازہ نہ کھولے۔
نبی اکرمؐ نے اس فاسق کو اسلام کی دعوت دی اور اس کے سامنے قرآن پڑھا ‘مگر اس نے تکبر سے اپنا سر انکار میں ہلایا۔ آنحضورؐ نے اللہ سے دعا کی کہ اللہ اسے بہت بری موت سے دوچار کرے۔ اس کا بہت برا انجام ہوا تھا۔ اس فاسق کی عبد اللہ بن ابیّ کے ساتھ بھی ساز باز تھی۔ یہ مکے جاکر قریش کو بھی آنحضورؐ اور مدینہ کی اسلامی ریاست کیخلاف اشتعال دلاتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ منافقین نے اس سے کہا کہ وہ مسجد قبا میں آئے اور اسلام میں داخل ہونے والے نو مسلموں کو کسی نہ کسی طرح اسلام سے برگشتہ کر دے۔ یہ بڑا شاطر انسان تھا اور جانتا تھا کہ اخلاص کے ساتھ کلمہ پڑھ لینے والے لوگوں کو اس دین سے برگشتہ کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ اس کا اپنا نو عمر بیٹا شہیدِ غزوۂ احد حضرت حنظلہؓ (غسیل الملائکہ) آنحضورؐ کے سچے جانثاروں میں سے تھا۔
اس کے بعد اسی نے ان کو پٹی پڑھائی کہ تم اپنا اڈہ تعمیر کرو‘ جسے مسجد کا نام دوتو میں اس میں تمہارے ساتھ ہر طرح کا تعاون کروں گا؛ چنانچہ ان لوگوں نے اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک جگہ منتخب کی‘ جن دنوں نبی اکرمؐ تبوک کے سفر پر تھے‘ انہی دنوں منافقین نے آنحضورؐ کے پیچھے اس مسجد کی تعمیر کی‘ جسے بہت مضبوط بنیادوں اور دیواروں پر اٹھایا گیا تھا۔ ظاہری مضبوطی اور شان و شوکت کے باوجود عملاً یہ ایک نہایت بودی اور کھوکھلی عمارت تھی۔ جب آنحضورؐ سے گزارش کی گئی کہ وہ اس مسجد میں تشریف لائیں تو قریب تھا کہ آپؐ ان کی درخواست پر مسجد ِضرار میں تشریف لے جاتے کہ اسی دوران اللہ رب العالمین کی طرف سے قرآن مجید میں کفر کے اس اڈے کا بھانڈا پھوڑ دیا گیا ۔ مسجد ضرار کے متعلق اللہ نے سورۂ التوبہ آیات نمبر108 میں ارشاد فرمایا: ''(اے نبیؐ) تم ہر گز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا۔ جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی‘ وہی اس کیلئے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عبادت کیلئے) کھڑے ہو‘ اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنیوالے ہی پسند ہیں۔‘‘
نبی اکرمؐ نے ان آیات کے نزول کے بعد اپنے معتمد علیہ صحابہ‘ حضرت عاصم بن عدیؓ اور حضرت مالک بن دخشمؓ کو حکم دیا کہ ظالموں کے اس اڈے کو جا کر گرادو‘ پھر اسے جلا دو۔ حضرت مالکؓ کا تعلق بنو سالم سے تھا‘ انہی کے محلے میں یہ مسجد بنائی گئی تھی۔ انہوں نے حضرت عاصم سے کہا کہ آپ ذرا رکیں‘ میں اپنے گھر جا کر آگ کا انتظام کرکے آتا ہوں۔ حضرت مالکؓ اپنے گھر گئے اور کھجور کی ایک خشک شاخ کو آگ لگا کر لے آئے۔ اس کے بعد دونوں صحابہ جلدی سے اس مورچے پر پہنچے۔ یہ مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت تھا۔
منافقین نے مجمّع بن جاریہ کو اپنا امام بنا رکھا تھا‘ جو ایک صالح نوجوان تھا۔ اسے منافقین کے خفیہ ارادوں کا علم نہیں تھا۔ دراصل اس کا باپ جاریہ بن عامر منافقین کے سرغنوں میں سے تھا۔ اُسد الغابہ کے مطابق‘ یہ نوجوان بعد کے ادوار میں بہت اہم ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ خلافتِ فاروقی میں حضرت عمرؓ نے بھی انہیں اپنی قوم کی امامت کی ذمہ داری سونپی تھی۔ جب دونوں صحابہ مسجد میں پہنچے تو منافقین کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ وہ سب ان صحابہ کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے بھاگ گئے‘ جبکہ حضرت مجمعؓ کو حقیقتِ حال کا پتا چلا تو حیرانی بھی ہوئی اور انہوں نے ان دونوں صحابہ کے ساتھ تعاون بھی کیا۔
منافقین میں سے ایک شخص زید بن جاریہ‘ مسجد ضرار کے اندر بیٹھا رہا۔ جب اس عمارت کو ڈھا دینے کے بعد آگ لگائی گئی تو اس کے سرین جل گئے اور اس موقع پر وہ چیختا ہوا‘ وہاں سے باہر بھاگا۔ جب نبی اکرمؐ کو اطلاع دی گئی کہ کفر کا مورچہ مکمل طور پر منہدم کر دیا گیا ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ اس کے پہلو میں جو دو گھر ہیں‘ وہ بھی اسلام دشمنی کے گھر ہیں۔ ان میں سے ایک گھر تو ودیعہ بن ثابت (منافق) کا گھر تھا اور دوسرا ابو عامر فاسق کا؛ چنانچہ یہ گھر بھی جلا دیے گئے۔ آنحضورؐ نے حضرت عاصمؓ کو کہا کہ اس جگہ پر تم اپنا گھر بنا لو‘ مگر انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ اللہ تعالیٰ نے اس مقام کے بارے میں جو حکم دیا ہے‘ اس کے بعد ہمت نہیں پڑتی کہ میں اس جگہ کو مسکن بنائوں اور پھر مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں ۔ اگر آپؐ مناسب سمجھیں تو اسے ثابت بن اقرمؓ کو دے دیں کہ ان کا کوئی گھر نہیں ہے۔‘‘
چنانچہ وہ جگہ حضرت ثابتؓ کو عطا کر دی گئی‘ جنہوں نے دیگر صحابہ کی مدد سے وہاں گھر تعمیر کر لیا۔ بالآخر حضرت ثابتؓ نے بھی اس گھر کو چھوڑ دیا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ اس گھر میں میرے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا؛ حتیٰ کہ میری مرغیاں بھی یہاں انڈے نہیں دیتی تھیں۔ یہ جگہ اتنی منحوس اور برکت سے عاری تھی کہ بعد میں بھی اس ویران جگہ پر کسی کبوتر اور پرندے نے بھی اپنا مسکن نہیں بنایا۔ (البدایۃ والنھایۃ‘ ج۱‘ ص ۹۱۴-۹۱۵۔سیرۃ ابن ہشام‘ ج ۳-۴‘ ص ۵۲۹-۵۳۱۔)