میدانِ قتال اور تربیت کا اہتمام

فتح مکہ کے بعد حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کی مہم سے واپسی پر وادیٔ الجعرانہ میں قیام فرمایا۔ یہاں آپؐ سے کئی اہم شخصیات نے ملاقاتیں کیں۔ سراقہ بن مالک بن جعشم المدلجی‘ جو عرب کا مشہور جنگ جو سردار تھا‘ بھی یہاں حاضر ہوا۔ اس نے نبی اکرمؐ کے سفرِ ہجرت میں سو اونٹوں کے لالچ میں آنحضورؐ کا تعاقب کیا تھا۔ اس مہم میں سراقہ آنحضورؐ کے قریب بھی پہنچ گیا تھا‘ مگر بہت بری طرح ناکام ہوا۔ جب سراقہ نے خود کو بے بس پایا تو آنحضورؐ سے بآواز بلند درخواست کی کہ اے ابن عبد المطلب مجھے معاف کر دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا میں نے تجھے معاف کر دیا‘ تم امان میں ہو۔ اس نے کہا کہ مجھے اپنی امان لکھ دیجیے تاکہ میرے پاس سند رہے۔ آپؐ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے فرمایا: ''اُکْتُبْ لَہٗ یَا اَبَابَکْر‘‘ (ابو بکر اس کو لکھ دو)۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے چمڑے کے ٹکڑے پر اسے امان لکھ دی اور اس نے اسے اپنی کمان میں محفوظ کرلیا۔ 
جب آپؐ ‘الجعرانہ پہنچ گئے تو نبی اکرمؐ کے صحابہ نے نظر رکھی کہ کوئی اجنبی اور غیر آدمی ان کی صفوں میں نہ گھس جائے‘ اسی دوران سراقہ آنحضورؐ سے ملاقات کرنے کے لیے وہاں پہنچ گیا۔ وہ کہتا ہے کہ جب میں وہاں پہنچا تو آپؐ کے انصار نے مجھے روکا۔ بہت سے نوجوان انصار آپؐ کے آگے اور پیچھے چل رہے تھے۔ انہوں نے اپنے نیزوں سے ڈرا کر پوچھا کہ تو کون ہے؟ میں نے اپنا نام بلند آواز سے لیا تو آپؐ نے میری آواز سے مجھے پہچان لیا اور فرمایا: اسے میری طرف آنے دو۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ‘ میں سراقہ بن جعشم ہوں‘ میرے پاس آپؐ کا پروانہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا آج نیکی اور وفا کا دن ہے‘ اسے میرے قریب لے آئو۔ میں آپؐ کے قریب گیا تو میرے اوپر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ میں نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔ 
سراقہؓ کا بیان ہے کہ میں نے آنحضورؐ کو اونٹنی پر سوار دیکھا اور آپؐ کے قریب ہوا تو سب سے پہلے میری نظر آپؐ کی پنڈلی پر پڑی۔ خدا کی قسم‘ وہ یوں چمک رہی تھی جیسے روشن ستارہ ہو۔ آپؐ نے میرے ساتھ احسان کیااور مجھے خوب نوازا۔ میں نے آپؐ سے عرض کیا: ''یا رسول اللہ‘ اگر کسی شخص کا گم شدہ اونٹ میرے پانی کے حوض پر آجائے‘ جسے میں نے اپنے اونٹوں کو سیراب کرنے کے لیے بھرا ہے اور وہ اس میں سے پانی پی لے تو کیا اس میں بھی مجھے اجر ملے گا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ''کیوں نہیں‘ ہر جان دار کے ساتھ احسان اور نیکی پر اجر ملتا ہے۔‘‘ سراقہؓ کہتے ہیں کہ میں آنحضورؐ کی خدمت میں اپنے صدقات بھیجا کرتا تھا۔ (مغازی للواقدی ج۳‘ ص ۹۴۱‘ سیرۃ ابن ہشام مجموعہ ج۱-۲‘ ص ۴۸۹- ۴۹۰)۔ 
ایک اور بہت ایمان افروز واقعہ بھی مورخین نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرمؐ اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ آپؐ نے دو موٹے جوتے پہن رکھے تھے۔ حضرت ابورہم غفاریؓ کی اونٹنی آنحضورؐ کی اونٹنی کے قریب ہوئی۔ وہ اونٹنی بڑی تیز طرار تھی‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی سے ٹکرا گئی اور صحابیٔ رسول کی جوتی کا کنارہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلی پر لگا۔ وہ کہتے ہیں‘ آنحضورؐ نے مجھ سے فرمایا: ''اپنا پائوں پیچھے کر۔‘‘ پھر آپؐ نے میرے پائوں پر کوڑا مارا۔ میں بہت ڈرا کہ اس گناہِ عظیم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ میرے بارے میں نہ جانے کیا حکم نازل فرمائے گا۔ خوف سے میرا برا حال تھا۔ الجعرانہ پہنچ کر میں صحابہ کے اونٹ چرانے کے لیے جنگل میں لے گیا۔ آنحضورؐ نے کسی کو میری تلاش میں بھیجا۔ جب مجھے تلاش کرتا کرتا وہ شخص وہاں پہنچا تو مجھے خیال ہوا کہ وہی بات ہوئی‘ آنحضورؐ مجھے اللہ کی طرف سے آنے والے کسی عتاب کے بارے میں خبر دینا چاہتے ہیں۔ میں ڈرتا ڈرتا آنحضورؐ کے پاس پہنچا اور عرض کیا کہ آپؐ نے مجھے طلب فرمایا ہے تو آپؐ نے فرمایا ہاں‘ تو نے مجھے پائوں سے تکلیف پہنچائی تھی اور میں نے تجھے کوڑا مارا تھا۔ لو یہ بکریوں کا ریوڑ لے لو اور مجھ سے راضی ہوجائو۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیایا رسول اللہ آپؐ میرے ساتھ راضی ہیں تو آپؐ کی رضا مجھے دنیا و مافیہا کی ہر چیز اور مال سے زیادہ عزیز ہے۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے ‘مگر یہ بکریاں اب تمھاری ہیں۔ نبی اکرمؐ نے مجھے جو بکریاں دی تھیں‘ ان کی تعداد اسی تھی اور وہ اون والی بکریاں تھیں۔ حضرت ابورُہم کا نام کلثوم بن الحصین تھا۔ وہ سابقون میں سے تھے اور ہر غزوہ کے علاوہ بیعتِ رضوان میں بھی شرکت کا اعزاز ان کو حاصل تھا۔ (مغازی للواقدی ج۳‘ ص ۱۰۰۱-۱۰۰۲) 
حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص آپؐ کے پاس اس وقت آیا‘ جب آپؐ اپنی ناقہ پر سوار طائف سے واپس آرہے تھے۔ یہ شخص کوئی بڑا سردار اور مال دار آدمی تھا۔ اس کے پاس کئی بکریاں تھیں۔ اس نے آکر کہا: ''یا رسول اللہ یہ بکریاں میں آپؐ کی خدمت میں ہدیہ کرنے کے لیے لایا ہوں۔‘‘ آپؐ نے پوچھا: ''تیرا تعارف کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ''میں بنو اسلم کا آدمی ہوں۔‘‘ آپؐ نے کہا: ''میں مشرکین کے ہدیے قبول نہیں کرتا۔‘‘ اس شخص نے کہا: ''اے اللہ کے رسول میں اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھتا ہوں۔ میں اس سے پہلے صدقے کا مال بریدہ بن الحصیبؓ کے پاس لے کر گیا تھا اور انہیں غربا کے لیے دیا تھا۔‘‘ اس دوران حضرت بریدہ بن الحصیبؓ اسلمی بھی آگئے اور انہوں نے عرض کیا: ''یا رسول اللہ یہ میری قوم کا سردار ہے۔ اس کی رہائش گاہ صفاح میں ہے اور اس نے جو کچھ کہا وہ درست ہے۔‘‘ 
آپؐ نے اس شخص سے فرمایا: ''تو صفاح میں رہتا ہے تو نخلہ کی طرف سے کیوں آیا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ آج کل نخلہ میں زیادہ سبزہ ہے‘ جو ہمارے جانوروں کے لیے مفید غذا ہے‘ اس لیے ہم نخلہ میں مقیم ہیں۔ اس شخص نے آنحضورؐ کی خدمت میں بکریاں ہدیۃً پیش کرنے کے بعد کہا: ''یا رسول اللہ ‘میں اپنی سواری پر سوار ہو کر آیا ہوں۔ میں آپؐ کے ساتھ الجعرانہ تک جائوں گا اور یہ بکریاں آپؐ کی جائے قیام پر آپؐ کو پیش کروں گا۔‘‘ آپؐ نے کہا: ''بہت اچھا‘ وہاں ہمیں ملنا ہم تمہیں اس سے بھی زیادہ بکریاں عطا کریں گے۔‘‘ 
جب یہ شخص الجعرانہ پہنچا تو آنحضورؐ وہاں پہلے ہی رونق افروز تھے۔ آپؐ نے خود اس کے بارے میں دریافت کیا‘ وہ حاضر ہو اتو آپؐ نے اسے سو بکریاں عطا فرمائیں۔اس نے آپؐ سے کچھ سوالات بھی پوچھے۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا: '' یا رسول اللہ‘ میں مویشیوں والا آدمی ہوں۔ کئی مرتبہ نماز کا وقت ہوجاتا ہے اور میں اونٹوں کے باڑے میں کام میں مصروف ہوتا ہوں۔ کیا ایسی حالت میں باڑے کے اندر نماز پڑھ لیا کروں؟‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: '' ہاں پڑھ لیا کرو۔‘‘ اس نے دوسرا سوال کیا: '' یا رسول اللہ‘ بعض اوقات ہم ایسے علاقے میں ہوتے ہیں ‘جہاںپانی نہیں ہوتا اور ہماری بیویاں ہمارے ساتھ ہوتی ہیں۔ اگر کوئی آدمی ایسے میں اپنی بیوی سے قربت کرلے تو کیا اس کا جواز ہے اور پانی نہ ہو تو غسل کا کیا حکم ہے؟‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ''ہاں‘ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرلیا کرو۔‘‘ اس نے ایک اور سوال پوچھا: ''ایسے علاقے میں حائضہ عورت جب حیض سے نکل آئے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟‘‘ فرمایا: ''وہ بھی تیمم کرلیا کرے۔‘‘ 
بنو ہوازن کے وفد کی آمد
جب آپؐ الجعرانہ میں مقیم تھے تو بنو ہوازن کے سرداروں نے اپنا ایک وفد آنحضورؐ کے پاس بھیجا ‘تاکہ آنحضورؐ سے درخواست کرکے اپنے قیدیوں کو آزاد کرالیں۔ اس وفد کے پہنچنے سے قبل آپؐ ان کا انتظار فرماتے رہے‘ مگر ان کی تاخیر اور اعراب کے بار بار سوال کرنے کی وجہ سے آنحضورؐ قیدی لوگوں کے درمیان تقسیم کر چکے تھے۔ اس وفد کا سردار ابوحُرد زہیر بن حُرد تھا اور وفد میں آنحضورؐ کے رضاعی چچا اور ماموں بھی تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ سعد بن بکر میں حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے ہاں اپنا بچپن گزارا تھا۔ ان لوگوں کی آمد پر آپؐ نے صحابہؓ کو بتایا کہ یہ میرے رضاعی خاندان کے افراد ہیں۔ تمام قیدی جو تقسیم ہوچکے تھے‘ صحابہؓ نے حضورؐ کے احترام میں رہا کردئیے۔ جن نومسلم لوگوں نے رہا نہ کیے وہ آنحضورؐ نے ہر قیدی کے بدلے چھ جوان اونٹ دے کر رہا کرائے۔ آنحضورؐ نے حضرت عمر بن خطابؓ‘ زید بن ثابتؓاور ابورھم غفاری کو حکم دیا کہ وہ معلوم کریں کوئی قیدی آزاد ہونے سے رہ تو نہیں گیا۔ انہوں نے پوری فوج کے اندر چکر لگایا اور اطلاع دی کہ بنوہوازن کا ہر قیدی رہا کردیا گیا ہے۔ (رسول رحمتؐ تلواروں کے سائے میں‘ چہارم) اس قبیلے سے آپؐ کو ذاتی طور پر بھی محبت تھی ‘کیونکہ آپؐ کا رضاعی خاندان اس قبیلے میں سے تھا۔ وفد کے لوگوں نے آپؐ کی خدمت میں جواشعار پیش کیے‘ وہ طبقات ابن سعد‘ سیرۃ ابن ہشام‘ سیرۃ الحلبیہ‘ مغازی للواقدی اور دیگر تواریخ میں تفصیلاً مذکور ہیں۔ (مغازی للواقدی ج۳‘ ص ۹۴۱-۹۴۲) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں