محافظ ِ انسانیتﷺ

نبی مہربانﷺ پوری مخلوق کے لیے سراپا رحمت ہیں۔ آپؐ نے ہر ذی روح کے حقوق بیان فرمائے اور ان کی حفاظت کے لیے ایک جامع نظام روشناس کروایا۔ آپؐ کی سیرت ظلم کے خاتمے اور عدل و احسان کے قیام کا بہترین نمونہ ہے۔ آپؐ کی صفات کا تذکرہ خود اللہ رب العالمین نے قرآن میں جگہ جگہ فرمایا ہے۔ سورہ توبہ کے آخر میں ارشاد باری ہے: ''دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے‘ تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے‘ تمہاری فلاح کا وہ داعی ہے‘ ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔‘‘ آپؐ انسانوں کے لیے رحیم و شفیق تھے۔ انسانی جان‘ مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کو آپؐ نے یقینی بنایا۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ''جس کسی نے انسانی جان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا‘ اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک متنفس کو زندگی بخشی‘ اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘۔ ( المائدہ ۵: ۳۲) 
رسولِ رحمت ﷺ جب دنیا میں مبعوث ہوئے تو نوعِ انسانی بحیثیت ِمجموعی تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی۔ کسی انسان کو ناحق قتل کر دینا‘ نا صرف روزمرہ کا معمول تھا‘ بلکہ کئی منچلوں کے نزدیک یہ ایک مشغلہ بن گیا تھا۔ بسا اوقات اس انتہائی قبیح جرم کو گناہ سمجھنے کی بجائے اسے بہادری اور قوتِ بازو کا مصداق سمجھا جاتا تھا۔ دین ِ اسلام‘ اللہ کے سامنے سر جھکا دینے اور پوری انسانیت کے لیے سلامتی کا پیغام دینے کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے۔ اسلام کے اندر تسلیم بھی ہے اور سلامتی بھی۔ نبی اکرم ﷺنے انسانی جان کو اس کی حقیقی حرمت عطا کی۔ آپؐ عین میدانِ جنگ میں بھی اپنے ساتھیوں کو اخلاق سے گری ہوئی کسی حرکت کی اجازت نہ دیتے تھے۔ انسانی جان کی حرمت کا حکم عام ہے۔ اس میں مسلمان اور کافر کی تخصیص نہیں کی گئی۔ جس دین میں کافروں کی جان بھی محرم و محترم قرار دی گئی ہے‘ اس میں ایک بندۂ مومن کی جان کے درپے ہونا اور اسے ناحق موت کے گھاٹ اتارنا کتنا بڑا جرم ہے‘ ہر شخص بخوبی اس کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ''رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے‘ جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اُس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔‘‘( النساء ۴:۹۳) 
نبی مہربانﷺ ایک مرتبہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے تو آپؐ نے خانہ کعبہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''اے حرمِ پاک! تو کس قدر پاکیزہ اور خوب صورت ہے اور تیرے ماحول میں کیسی پاکیزگی اور خوش بو رچی بسی ہے‘ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے‘ اللہ کے نزدیک ایک بندۂ مومن کے خون کی حرمت تیری حرمت سے بھی زیادہ ہے‘‘۔ (ترمذی) 
بندۂ مومن کون ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا حقیقی علم تو اللہ ہی کے پاس ہے جو انسان کے ظاہر و باطن کو پوری طرح سے جانتا ہے۔ اسلام نے ہمیں جو تعلیمات دی ہیں‘ ان کے مطابق جو شخص لَاالہ الّا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پڑھتا ہے‘ وہ دائرۂ اسلام کے اندر ہے۔ اعمال میں کوتاہی یا گناہوں میں مبتلا ہوجانے سے وہ فاسق و فاجر اور گناہ گار ضرور ہوجاتا ہے‘ مگر کوئی کلمہ گو‘ جب تک وہ کسی رکنِ اسلام اور بنیادی تعلیمات کا اعتقادی انکار نہ کردے‘ اسے مسلمان ہی شمار کیا جائے گا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے کسی بھی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ کسی دوسرے شخص کو اس کے کسی گناہ یا بد عملی کی بنیاد پر قتل کرڈالے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اسلام میں بد عملیوں اور گناہوں پر کوئی سزا ہے ہی نہیں۔ یقینا اسلام میں ایک جامع نظامِ قانون اور حدود و تعزیرات کے ضوابط موجود ہیں۔ جرائم پر سزا ضرور ملتی ہے ‘لیکن اس کے لیے بھی ایک منضبط عدالتی و قانونی طریقِ کار اور اس کی تنفیذ کے لیے بھی پورا ایک سسٹم مطلوب ہے۔ 
کوئی فرد یا چند افراد اپنے طور پر لوگوں کو اس بنیاد پر قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں رکھتے کہ ان کے نزدیک وہ اسلامی شریعت و حدود کی پابندی نہیں کر رہے‘ اگر اس بات کی اجازت دے دی جائے تو ایک طرف افرا تفری اور طوائف الملوکی پھیل جائے گی اور دوسری جانب اس سے اصلاح کی بجائے بگاڑ پیدا ہوگا اور انصاف کے بجائے لاتعداد بے گناہ لوگ بھی ظلم کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ نبی مہربانؐ نے اپنے گردونواح کے منافقین کے بارے میں بھی اس اصول کو ہمیشہ ملحوظ رکھا کہ چونکہ وہ اسلام کا دم بھرتے ہیں‘ اس لیے ظاہری صورتِ حال کے مطابق ‘ان کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ ان کے باطن کا حال خود اللہ قیامت کو کھول کر رکھ دے گا۔ اگر محض اپنے علم کی بنیاد پر کسی شخص کا خون گرانا جائز ہوتا تو سب سے زیادہ اس کا حق اللہ کے نبی کو ہوتا‘ جن کا علم اللہ کا عطا کردہ اور باقی تمام مخلوق سے زیادہ تھا ‘مگر آپؐ نے تو ہمیشہ ایسے مطالبات پر کہ منافقین کی گردنیں کاٹ دی جائیں‘ اپنے صحابہ کو سختی سے منع فرمادیا۔ 
لوگ سمجھتے ہیں کہ میدانِ جنگ میں ہر طرح کی آزادی مل جاتی ہے ‘مگر اسلام نے تو میدانِ جنگ میں بھی انسانی جان کی حرمت کے بارے میں اپنی حدود و قیود کے باب میں کوئی نرمی نہیں کی۔ قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے کہ جب مجاہدین جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوں تو جو شخص بھی انہیں سلام کہے اور خود کو مسلمان ظاہر کرے‘ اسے یہ نہ کہیں کہ تم مسلمان نہیں ہو (حالانکہ حالت ِ جنگ میں تو لوگ دھوکے کے لیے بھی اسلام کا لبادہ اوڑھ سکتے ہیں)۔ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت میں اس مضمون کو اللہ نے پوری شرح و بسط کے ساتھ یوں بیان فرمایاہے: ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تو دوست دشمن میں تمیز کرو اور جو تمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے اُسے فوراً نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں ہے‘ اگر تم دنیوی فائدہ چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سے اموالِ غنیمت ہیں۔ آخر اسی حالت میں تم خود بھی تو اس سے پہلے مبتلا رہ چکے ہو‘ پھر اللہ نے تم پر احسان کیا‘ لہٰذا تحقیق سے کام لو‘ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ ‘‘ (النساء ۴:۹۴) 
نبی اکرم ﷺکے محبوب صحابی حضرت اسامہ بن زیدؓ ایک جنگ میں بنو عوال اور بنو ثعلبہ کے مقابلے پر لڑ رہے تھے۔ انہوں نے دشمن کے ایک شخص کو قتل کرنے کے لیے تلوار اٹھائی تو بے ساختہ اس نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا۔ حضرت اسامہؓ نے دل میں سوچا کہ یہ محض جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا ہے‘ اس لیے اپنا ہاتھ روکنے کے بجائے اس شخص کا سر قلم کر دیا۔ جب صحابہ اس جنگ سے واپس پلٹے تو انہوں نے آنحضورﷺ کی خدمت میں اس واقعہ کا تذکرہ کیا۔ آپؐ نے حضرت اسامہؓ کو بلا بھیجا اور ان سے بازپرس کی۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ ! اس شخص نے محض جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ لیا تھا۔ آپؐ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور حضرت اسامہؓ سے ساری محبت کے باوجود آپؐ نے غصے سے فرمایا: الَا ھَلْ شَقَّقْتَ قَلْبَہٗ فَتَعْلَمُ صَادِقٌ ھُوَ اَمْ کَاذِبٌ۔ یعنی کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا اور معلوم کر لیا کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا۔‘‘ حضرت اسامہؓ خود بیان کرتے تھے کہ مجھے اس واقعہ کے بعد اس قدر رنج ہوا کہ میں نے سوچا: ''اے کاش! میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا اور آج ہی اسلام میں داخل ہوتا اور وہ جرم مجھ سے سرزد نہ ہوا ہوتا۔‘‘ اس واقعہ کو ابنِ سعد نے اپنی طبقات میں بیان کیا ہے۔ 
جس طرح حالتِ جنگ میں غلط فہمی کی بنیاد پر اس طرح کے کچھ واقعات ہوئے‘ اسی طرح صحابہ کرام نے عین میدانِ جنگ میں بعض اتنی ارفع و بلند مثالیں قائم کیں کہ جن کی نظیر پوری تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ حضرت علی بن ابی طالبؓ کے متعلق سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ میدانِ جنگ میں انہوں نے ایک کافر کو بمشکل قابو کیا اور جب اس کا گلا کاٹنے کے لیے اس کی چھاتی پر بیٹھے تو اس نے بے بس ہونے کے باوجود اظہارِ نفرت کے لیے آپؓ کے چہرے پر تھوک دیا۔ اس پر انہوں نے قتل کرنے کے بجائے اسے چھوڑ دیا۔ اس نے تعجب سے پوچھا کہ اسے کیوں چھوڑا گیا ہے تو فرمایا: ''میں اللہ کی راہ میں جنگ لڑ رہا تھا۔ جب تو نے میرے چہرے پر تھوکا تو مجھے ذاتی طور پر غصہ آیا۔ غصے کی اس حالت میں اگر میں تجھے قتل کر دیتا تو یہ اللہ کی راہ میں قتال نہ ہوتا‘‘۔ نبی اکرمؐ کے لائے ہوئے دین کی تعلیمات‘ آپؐ کا اپنا طرزِ عمل اور اس کی روشنی میں اپنے ساتھیوں کی تربیت انسانی جان کی حرمت کو یقینی بنانے کا ذریعہ بن گئی۔ ہر امتی کے لیے اتباعِ سنت لازمی ہے اور اسی پر نجاتِ اخروی منحصر ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں