بابری مسجد: ہم شرمندہ ہیں !

ان دنوں بہت سے دوست احباب بار بار ٹیلی فون کرتے اور ایس ایم ایس بھیجتے ہیں کہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی حکمت کیا ہے؟ ظاہر ہے یہ حکمت ہم درویشوں کو کیا معلوم ؟ حکومت کے کارپرداز اور ان سے بھی زیادہ ان کے گرد جمع آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مضبوط ٹیمیں ہی جانتی ہیں کہ کیا کام کرنا ہے اور کیوں کرنا ہے؟ ہمیں تو یہ بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی ایک مبینہ کاوش نظر آتی ہے۔ خدا کے بندو خطے کے معروضی حالات دیکھو اور اپنے اعمال پر غور کرو۔ بقول شاعر:؎ 
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی تاریخ اسلام کی مدینہ کے بعد پہلی اسلامی ریاست ہے۔ اسلام میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کی پوری ضمانت دی گئی ہے۔ ان کی جان مال‘ عزت آبرو کی حفاظت حکومت اور اس کے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ عام مسلم آبادی بھی ان لوگوں کی حفاظت کرنے کی پابند ہے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ‘ بلکہ بعد کے ادوار میں بھی مسلمان حکومتوں میں اقلیتوں کے حقوق پر کبھی ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سرزمین پاکستان پر آزادی اور تقسیم ہند سے قبل غیر مسلم خصوصاً ہندو آبادی کی خاصی تعداد تھی۔ اس دور میں تمام اقلیتوں کے جو عبادت خانے قائم تھے‘ ان میں سے کسی پر بھی کسی کو قبضے کی اجازت نہیں ۔
اگرچہ وطن ِعزیز میں اب ہندو آبادی کا نام و نشان بھی سوائے سندھ کے کہیں نہیں‘ اس کے باوجود ان کے مندر جہاں جہاں تھے‘ وہ اب بھی موجود ہیں۔ ابھی کورونا کے زمانے میں ہم نے جہاں مساجد اور مدارس میں سپرے کا اہتمام کیا‘ وہیں غیرمسلم آبادیوں کے عبادت خانوں‘ گرجا گھروں‘ مندروں اور گوردواروں میں بھی اسی طرح سپرے کرایا گیا۔ ساری قوم اس کی شاہد ہے۔ ہم کسی تنگ نظری اور تعصب کا شکار نہیں ۔جہاں تک پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہندوئوں کا نیا مندر تعمیر کرنے کا معاملہ ہے ‘اس پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنا چاہیے۔ ذرا سوچئے کہ جب ہندوئوں کی آبادی ہی یہاں پر موجود نہیں تو مندر کی تعمیر کی منطق کیا ہے؟
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے لیے آج سے چار سال قبل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے چار کنال زمین الاٹ کی تھی۔ اب‘ موجودہ حکومت اور '' ریاست مدینہ‘‘ میں اس کی تعمیر کا پروگرام بنا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویز الٰہی صاحب نے بھی اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ پاکستان جواسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا‘ اس کے دارالحکومت اسلام آبادمیں نئے مندر کی تعمیر نا صرف اسلام کی روح کے خلاف ہے‘ بلکہ یہ ''ریاست مدینہ ‘‘کی بھی توہین ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کا یہ کہنا بجا ہے کہ ہم اقلیتوں کے حقوق کے ساتھ ہیں‘ لیکن پہلے سے موجود مندروں کی مرمت کی جانی چاہیے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اسلام میں اقلیتوں کو جتنے حقوق دئیے گئے ہیں دنیا کے کسی مذہب نے نہیں دئیے ہیں۔ اب‘ جبکہ یہ پہلو بھی سامنے آ چکا کہ وفاقی دارالحکومت میں ہندو مت سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد محض چند سینکڑے ہے تو ایسی صورت ِ حال میں نئے مندر کی تعمیر بادی النظر میں بلا جواز ہی ٹھہرتی ہے۔ اس وقت ملک میں بہت سے مندر ایسے ہی ہیں‘ جن کی مرمت ہونی چاہیے‘ لہٰذا جو رقم نئے مندروں کی تعمیر پر لگائی جا رہی ہے‘ اسے قابل مرمت مندروں پر خرچ کیا جائے‘ تاکہ ہندو برادری اپنے مذہب کے مطابق اپنی پوجا پاٹ بہتر طریقے سے کر سکے۔سپیکر پنجاب اسمبلی کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں کٹاس کے راج مندر کی مرمت کرائی تھی‘ لہٰذا اس قسم کی مثالوں کو پیش نظر رکھ کر وفاقی دارالحکومت اور دیگر شہروں میں نئے مندر تعمیر کرانے کی بجائے پہلے سے موجود مندروں کی مرمت کرکے ان میں زیادہ سہولتیں فراہم کی جانا مناسب ہوگا۔واضح رہے کہ بھارتی میڈیا نے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا ایجنڈا قرار دے رکھا ہے۔ اس لیے ان سازشوں کا بھی توڑ نا گزیر ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ خطے کے معروضی حالات کے پیش نظر دارالحکومت اسلام آباد میں اس مندر کی تعمیر سے ہم کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کیا ہم بابری مسجد کی شہادت اور اس کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی خوشی میں ہندوستان کے اسلام دشمن اور مسلم کش ہندوئوں کو مندر کاتحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں؟ 
کیا ہم اس بات کو بھول گئے ہیں کہ گزشتہ سال سے ہندستان میں ہر مسلمان مرد و عورت‘ بچہ و بوڑھا ہندو درندوں کی زد میں ہے؟ ان قاتلوں اور عزت کے لٹیروں کو خیرسگالی کا تحفہ بصورت مندر پیش کر کے ہم کیا بات ثابت کرنا چاہتے ہیں‘ گزشتہ ایک سال کے دوران ہندو غنڈوں نے بیسیوں مساجد کو نذرِ آتش کیا ہے۔ یہ ساری تصاویر اور مناظر اب بھی میڈیا ریکارڈ میں موجود ہیں۔ کون سے زخم کا ذکر کریں اور کون سا زخم چھپائیں؟ ؎
تن ہمہ داغ داغ شُد
پنبہ کجا کجا نہم 
کیا کشمیر کی بیٹیاں جس عذاب میں مبتلا ہیں‘ اسے بھول جانا ‘ ممکن ہے؟ کیا ہم وادی ٔکشمیر جنت نظیر پر ڈھائے جانے والے ناقابل بیان مظالم پر بھیڑیا صفت نریندر مودی اور اس کے آر ایس ایس کے غنڈہ جتھوں کو مندر کی صورت میں خراج ِتحسین پیش کرنا چاہتے ہیں؟ ہر روز کشمیر میں درجنوں شہدا کے معصوم چہرے کیسے بھلائے جا سکتے ہیں؟ کیا وہ تازہ تصویر جس میں ساٹھ سالہ کشمیری مسلمان بشیر احمد کو گولیوں کی بوچھاڑ سے موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا‘ کبھی ہمیں بھول سکے گی؟ 
کیا بشیر احمد کی شہادت کے بعد اس کا تین سالہ معصوم نواسہ اس کے سینے پر بیٹا ہوا سانحہ سے بے خبر یہ کہتا ہوا سنائی نہیں دیتا کہ نانا ابو! جاگو گھر چلیں! ہم ان سارے حقائق سے آنکھیں بند کر کے خیرسگالی کا تحفہ بھارت کے ہندوئوں کو پیش کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ کیا اس ہدیے کے بعد ہندو بنیے کی ذہنیت بدل جائے گی؟ ذرا سوچو! ہم کسی تعصب میں مبتلا نہیں۔ ہم کسی مذہب کے عبادت گھروں کے مخالف نہیں۔ ہم پورے حقائق آپ کے سامنے عرض کر رہے ہیں۔ یہ حقائق اہل ایمان اور غیرت مند پاکستانیوں سے جواب چاہتے ہیں۔
کوئی ہم پر تعصب کی پھبتی کسے تو اسے اجازت ہے‘ مگر آنکھیں کھول کر حقائق تو دیکھ لے۔ ہمارا یہ طریق نہیں کہ کوئی کارِخیر کر کے اس کی داد مخلوق سے وصول کریں۔ اللہ ریا کاری سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ ہم صرف حقائق کی طرف اہلِ پاکستان کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بصد ادب عرض ہے کہ جس طرح ہم نے کورونا وبا کے موسم میں مندروں میں سپرے کیا‘ اسی طرح ہم اپنے ملک میں بسنے والی ہندو اقلیت کے ساتھ پوری طرح تعاون کو اپنا ملی و دینی فرض سمجھتے ہیں۔ سندھ کے قحط زدہ علاقہ تھر میں راقم کے ربع صدی قبل قائم کردہ خیراتی تعلیمی ادارے کی خدمات سے وہاں کی مقامی آبادی واقف ہے۔ اس تعلیمی ادارے کے تحت ان تمام ہندو بچوں اور بچیوں کو تعلیم‘ کتب اور یونیفارم مفت فراہم کی جاتی ہیں ‘جو غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ انسانی ضرورت اور ہمارا اسلامی فرض ہے‘ کسی پر کوئی احسان نہیں؛ البتہ اسلام آباد میں بطور ِآرائش (ڈیکوریشن) ایک مندر کی تعمیر کارلاحاصل اور وقت کے تقاضوں کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔
مندر کی تعمیر کا وقت بھی خوب متعین ہوا ہے۔ اس موقع پر یہ مذہبی ہدیہ نریندر مودی کی خدمت میں پیش کرنا کتنا عجیب ہے‘ جبکہ گلوان میں پاکستان کے دوست چین اور ہمارے ابدی دشمن بھارت کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ چین کے مقابلے پر شکست خوردہ بھارتی فوجی زخم چاٹ رہے ہیں اور ہم ان کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے۔ ہماری حکومتوں کے کارپرداز ہمیشہ ایک ہی پالیسی پر چلتے رہے ہیں۔ محض چہرے بدلتے ہیں سوچ اور نظام وہی چل رہا ہے‘ جو آزادی کے بعد سے رائج ہے۔ ہندو کی چالاکی و عیاری اور مسلمان کی سادگی پر اقبالؔ بھی روتا رہا۔ دردِ دل کے ساتھ شاعر مشرق نے کہا ہے: ؎
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیح شیخ
بتکدے میں برہمن کی پختہ زنّاری بھی دیکھ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں