یہ ایک حقیقت ہے کہ پرانی یادیں کبھی کبھی بے ساختہ لوحِ حافظہ پر نمودار ہوجاتی ہیں۔آج کل ایسی ہی یادوں نے گرفت میں لیا ہوا ہے۔ ہفتہ رفتہ کو ''وطن ِ عزیز سے دیارِ غیر تک‘‘ کے عنوان سے جولائی2012ء کی ایک صبح قومی ایئر لائن کی پرواز پر لاہور سے مانچسٹر روانگی کی بابت اپنے کچھ تجربات کا تذکرہ کیا تھا‘ اسی سلسلے کی مزید یادیں اور زندگی کا ایک تلخ تجربہ آج پیش ِ خدمت ہے:
لاہور سے پی آئی اے کا طیارہ بخریت ساڑھے چھ گھنٹے کی پرواز کے بعد مانچسٹر ائیرپورٹ پر اترا۔ جہاز مطلوبہ مقام پر رکا تو دروازے کھلے اور مسافروں کو اترنے کا اذن ملا۔جہاز سے اتر کر پاکستانی نژاد برطانوی شہری تو بغیر کسی انتظار کے اپنی راہ لیتے رہے‘ جبکہ پاکستانی شہری غیر ملکی ہونے کی حیثیت سے کافی دیر تک اپنی باری کے انتظار میں کھڑے رہے۔ تین کائونٹر کام کر رہے تھے‘ مگر مہر لگنے میں خاصا وقت صرف ہو رہا تھا۔ ہر پاسپورٹ کو بار بار الٹ پلٹ کر دیکھا جاتا اور بعض مسافروں سے سکیورٹی کے لوگ بھی آکے سوال و جواب کرنے لگتے۔ میں ذہناً ہر صورتِ حال کے لیے تیار تھا‘ کیونکہ چند سال قبل پچھلے ایک سفر میں اسی مانچسٹر ایئرپورٹ پر مجھے ایک بڑا تلخ تجربہ ہوا تھا۔ جس روز میں پاکستان سے مانچسٹر گیا‘ اس روز تو بغیر کسی حیل و حجت کے پاسپورٹ پر مہر لگی اور میں سامان لینے کے لیے متعلقہ بیلٹ (Belt)پر چلا گیا‘ نہ سوال ‘نہ جواب‘ نہ تفتیش!
دو ہفتے بعد جب میں ناروے اور یورپ کے دیگر ممالک کے سفر پر کچھ دنوں کے لیے گیا تو واپسی پر اسی ایئرپورٹ پہ ایک امیگریشن کائونٹر پر ایک انڈین خاتون بیٹھی تھی۔ میں اس کے کائونٹر کے سامنے والی قطار میں تو نہیں تھا‘ مگر مجھے قطار میں کھڑے دیکھ کر ہی وہ ذرا سی دیر کے لیے اپنی سیٹ سے اٹھ کر گئی اور تھوڑی دیر بعد سکیورٹی کا ایک کارندہ اس کے پاس آکھڑا ہوا۔ میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ یہ میرے بارے میں کچھ مشورے ہو رہے ہیں۔ نہ ہی کبھی ایسا کوئی تجربہ زندگی بھر ہوا تھا۔ بہرحال جب اپنی باری پہ کائونٹر پر پہنچا تو خلافِ توقع انگریز امیگریشن آفیسر نے میرا پاسپورٹ ایک جانب رکھ دیا اور سکیورٹی کے نوجوان کو اشارہ کیا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر ایک کمرے میں چلا گیا۔ مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میرے سامنے میز کے دوسری طرف بیٹھ کر عجیب و غریب قسم کے بے تکے سوال کرنے لگا۔
یہ سوالات کیا تھے؟ کیا آپ پاکستان کی سکیورٹی فورسز میں ملازم رہے ہیں؟ میں نے کہا: کبھی نہیں۔ آپ کسی ایسی تنظیم سے وابستہ رہے ہیں کہ جو عسکریت پسند ہو؟ میں نے جواب دیا :ہرگز نہیں۔ آپ کا کوئی مرکز پشاور میں ہے‘ جس کو آپ چلا رہے ہیں؟ میں نے پھرجواب نفی میں دیا۔ کیا آپ پاکستان کے شمالی علاقوں میں سفر کرتے رہتے ہیں؟ میں نے کہا: میں دنیا بھر میں سفر کرتا ہوں‘ آپ میرے پاسپورٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کا معزز شہری ہوں‘ پھر بھلا پاکستان میں سفر کیوں نہ کرتا ہوں گا۔ آپ افغانستان بھی جاتے ہیں؟ میں نے کہا: نیٹو فورسز وہاں کسی کو سیر و سیاحت کے لیے جانے دیتی ہیں؟ نہیں۔ وہاں کے عسکریت پسندوں سے آپ کے راہ و رسم ہیں؟ میں نے کہا: قطعاً نہیں۔ آپ کسی سرکاری شعبے میں ملازم ہیں یا رہے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں۔ آپ کیا کام کرتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں ایک علمی تحقیقی ادارے میں خدمات انجام دے رہا ہوں‘ جو اسلامی لٹریچر تیار کرتا ہے۔ فیملی‘ بچے‘ ہر بچے کے بارے میں سوال پہ سوال‘ غرض بہت ہی عجیب و غریب قسم کے سوالات کرنے کے بعد وہ اٹھ گیا اور مجھے کہا کہ آپ یہیں بیٹھیے۔
تھوڑی دیر کے بعد موصوف واپس آیا تو میرا پاسپورٹ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس کا ایک ایک صفحہ الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔‘پھر کہنے لگا کہ آپ نے انگریزی کہاں سے سیکھی ہے؟ میں نے کہا ؛انگریزی پاکستان میں سیکھی ہے ‘جہاں سے میں نے پوسٹ گریجوایشن کی ہے۔ آپ کا برطانیہ آنے کا مقصد کیا ہے؟ میں نے اپنے بریف کیس میں سے یوکے اسلامک مشن کا دعوت نامہ اور شیڈول نکال کر دیا‘ اسے دیکھ کر اس نے پھر میری طرف دیکھا اور کہنے لگا تو کیا آپ یہاں لیکچر دینے کے لیے آئے ہیں؟ میں نے کہا: بالکل۔ آپ ہی کو کیوں دعوت دی گئی ہے؟ میں نے کہا :میرے میزبانوں کا پتا اور فون اس خط پر لکھا ہوا ہے‘ ان سے پوچھ لیں کہ مجھے کیوں دعوت دی گئی ہے؟
اس سکیورٹی کارکن کے کچھ سوالات تو ایسے غیرمتعلق تھے کہ ان کے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اتنی ساری بیہودگی کے بعد جب اسے اپنے مطلب کی کوئی چیز ہاتھ نہ آئی تو اس نے کہا: اچھا آپ جینوئن مسافر ہیں۔ آپ میرے ساتھ آئیں۔ میں نے کہا :نہیں ‘میں آپ کے ساتھ نہیں آئوں گا۔ مجھے آپ سے کیا لینا دینا ہے۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اپنا کام ختم کر چکا اور اسے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس دوران مجھے ایئرپورٹ پر لینے کے لیے جو دوست آئے ہوئے تھے ‘انہوں نے امیگریشن اور سکیورٹی حکام سے رابطہ کرکے میرے بارے میں پوچھا کہ ہمارے ایک معزز مہمان ناروے سے آ رہے تھے‘ انہیں مانچسٹر کی مسجد میں جمعۃ المبارک کا خطاب کرنا ہے اور ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔ اُن کا کیا مسئلہ بنا ہے؟ چنانچہ نیچے سے ایک خاتون اوپر آئی اور اس سکیورٹی والے سے کچھ کہہ کر چلی گئی۔
میں اگرچہ لیٹ ہو رہا تھا‘ مگر مجھے اس بات کا افسوس تھا کہ ایک انڈین نژاد خاتون کی اکساہٹ پرزندگی میں پہلی بار اس سکیورٹی افسر نے مجھے بلاوجہ پریشان کیا۔ میں نے سکیورٹی افسر سے کہا کہ آپ نے میرا پون گھنٹہ ضائع کیا ہے‘ میں آپ کے پندرہ منٹ ضرور لوں گا۔ وہ معذرت کرنے لگا‘ لیکن میں نے کہا :میں تو ضرور آپ کا وقت لوں گا۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ برطانیہ عظمیٰ کے ملازم ہیں اور میں آپ کو واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے وطن کے لیے خیرسگالی بڑھانے کی بجائے اس ملک کے خلاف نفرتیں پیدا کر رہے ہیں۔ اب‘ میرا لہجہ قدرے ترش تھا اور اس کا معذرت خواہانہ!
اسے غالباً یہ وہم و گمان بھی نہ ہو گا کہ ایک مسافر اس سے ایسے انداز میں بات کرے گا۔ میری باتیں سن کر اس کارنگ بدل گیا۔ میں نے کہا: آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک معزز اور سینئر سٹیزن ہوں۔ قانونی ویزے پر یہاں بارہا آیا ہوں۔ آپ کے سفارت خانے نے تسلی کے بعد مجھے ویزا دیا ہے اور ایک رجسٹرڈ قانونی تنظیم کا مہمان ہوں۔ آپ نے مجھے جو ٹارچر کیا ہے‘ وہ تو کیا ہے‘ لیکن مجھے آپ کی ذہانت پر بھی شک ہے۔ کیا دہشت گرد اور پرامن شہری میں فرق کرنا آپ کے لیے ناممکن ہے؟ پھر میں نے کہا کہ کیا پسند کریں گے کہ اپنا نام مجھے بتائیں تو اس نے صرف اتنا بتایا ''سنی‘‘۔ میں نے Sunny what? وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا۔میں نے کہا :مسٹر سنی آپ کو بھارت نژاد امیگریشن لیڈی نے گمراہ کیا ہے اور میں اپنے احتجاج کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔ اس پر وہ معذرتیں اور تردید کرنے لگا اور اس نے کہا کہ یہ ہماری سرکاری ذمہ داریاں ہیں‘ کیونکہ آج کل حالات بڑے خطرناک ہیں۔ بہرحال آئیے میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں اور آپ کا سامان تلاش کرتے ہیں۔ اس دوران اس نے کائونٹر پر جاکر میرے پاسپورٹ پر مہر لگوائی۔ پاسپورٹ مجھے دیا اور میں نے کہا: شکریہ‘ مجھے آپ کی کمپنی کی ضرورت نہیں۔ میں نے اپنا مختصر سا سامان اٹھایا اور باہر نکلا۔ دوست میرے انتظار میں خاصے پریشان تھے۔ گاڑی میں بیٹھ کر میں نے اپنے میزبانون کو اطمینان سے ساری بات سنائی‘ تو انہوں نے کہا کہ آج کل حالات ایسے ہیں کہ یہ لوگ اس طرح کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں‘ مگر اس میں اسلاموفوبیا کا بھی بڑا عمل دخل ہے‘ جو یہاں کے اسلام دشمن عناصر نے ہمارے خلاف پھیلا رکھا ہے۔ بہرحال میرے ساتھ بیتنے والا یہ واقعہ تو تاریخ کا حصہ بن چکا۔
مانچسٹر کی جامع مسجد خضریٰ میں ابھی خطبے کا وقت شروع ہونے میں پندرہ منٹ باقی تھے۔ جلدی سے وضو کیا اور خطبہ جمعہ شروع ہوا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ میرے مربی اور استاد پروفیسر غلام اعظم سابق نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سابق امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مسجد میں سامعین کے درمیان موجود تھے۔ انہیں کرسی پر بیٹھے دیکھ کر میرا جی چاہا کہ میں منبر سے اتر کر پہلے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر آئوں‘ مگر پھر سوچا یہ مناسب نہیں ہو گا۔ بہرحال نماز کے بعد یہ سعادت حاصل ہوئی اور پروفیسر صاحب نے فرمایا یہ میرا ٹیلی فون نمبر ہے۔ مجھے فون کر لینا کہ آپ کب میرے ساتھ آ کر ظہرانہ کریں گے۔ کیسی شخصیات تھیں ‘جو جنت مکین ہو گئیں؟ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
الحمدللہ اس مرتبہ کوئی تلخ تجربہ نہیں ہوا۔ جب میں کائونٹر پر پہنچا تو کائونٹر پر بیٹھے انگریز نوجوان نے میرا پاسپورٹ کھول کر ویزا دیکھا اور بڑے مودبانہ اور مہذبانہ طریقے سے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی وزٹ کا مقصد کیا ہے؟ میں نے کہا کہ یوکے اسلامک مشن کا سالانہ (Annual) کنونشن ہو رہا ہے‘ جس میں میں ان کا مہمان مقرر ہوں۔ اس نوجوان نے مسکرا کر مجھے کہا :Have a nice stay in U.K.‘ پھر مہر لگائی اور میرا پاسپورٹ مجھے دے دیا۔ اب‘ اجازت دیجیے ‘پھر ملیں گے۔ اِن شاء اللہ!