دنیا کے بہت سے ممالک کا سفر گزشتہ نصف صدی میں بار ہا ہوا۔ کئی ممالک کے سفر نامے تحریری شکل میں مرتب ہو سکے اور اکثر بس لوحِ حافظہ پر ہی کچھ عرصہ رہے‘ اب دھندلا گئے ہیں۔ یوکے میں جولائی سے اگست‘ 2012ء میں کچھ ایام گزرے۔ ان ایام کی ایک آدھ دن کی ڈائری آج آپ کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔
یو کے میں قیام کے دوران میرے لیے ایک دن چھٹی کا تھا اور یہ 3اگست 2012ء بروز بدھ کی چھٹی تھی۔ سحری کے وقت روزہ رکھا تو دل میں خیال گزرا کہ آج چھٹی ہے اور مجھے سونے کا موقع مل جائے گا، اس لیے نماز کے بعد کچھ دیر مطالعہ کیا جائے۔ معمول کی منزل پڑھنے کے بعد ''عزیمت کے راہی‘‘ (جلد سوم) کے زیر ترتیب مضامین کی فائل کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ طبیعت ایڈیٹنگ پر آمادہ نہیں ہو رہی تھی مگر ورق گردانی کے دوران بعض شخصیات کے نام سامنے آئے تو خود کو ملامت کی کہ اتنی بھرپور محنت اور جدوجہد سے مالا مال زندگی گزارنے والی شخصیات پر قلم بھی اٹھاتے ہو اور پھر اپنے آپ کو آرام کوشی کی نذر بھی کر رہے ہو۔ اس خیال کا ذہن میں آنا تھا کہ قلم نکالا، چشمہ لگایا اور کام میں جت گیا۔ ورق گردانی کے دوران محسوس ہوا کہ پہلی مرتبہ قلم برداشتہ لکھ لینا کچھ اور ہوتا ہے اور پھر نظر ثانی کے دوران اپنی ہی غلطیوں کی اصلاح ایک دوسرا بڑا کام ہے۔ بہرحال کچھ ہی دیر کے بعد وقت دیکھا تو دو گھنٹے گزر چکے تھے مگر ان کے گزرنے کا کوئی احساس ہی نہ ہوا۔
ریڈلے (نیلسن) میں بالائی منزل کی اپنی اس آرام دہ رہائش سے سامنے حد نگاہ تک پھیلے ہوئے سبزہ زاروں اور سطح مرتفع کی خوب صورت پہاڑیوں کا منظر دیکھنے لگا۔ سبحان اللہ! خالق نے کس قدر حسین مناظر پیدا فرمائے ہیں! انسان اپنے خالق کی ان آیات کو دیکھتا ہے مگر شکر گزاری کے بجائے حیوانوں کی طرح دیکھ کر رہ جاتا ہے۔ اللہ نے بار ہا اپنی خلّاقی و صنّاعی اور اپنی نعمتوں کا تذکرہ فرما کر حکم دیا ہے کہ ان چیزوں کو نگاہِ عبرت سے دیکھا کرو۔ پھر وہ جنّ و انس سے بتکرار پوچھتا ہے تم دونوں اللہ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے؟ سامنے کی بلندیوں پر بجلی پیدا کرنے کے لیے کئی ایک ونڈ ملز (Wind Mills) نظر آتی ہیں۔ پورے یورپ میں ہر جگہ یہ آپ کو نظر آئیں گی۔ یہ اتنا اچھا اور متبادل ذریعہ ہے جس سے انرجی بحران کا حل ہر ملک نے نکالا ہے۔
ایک نہایت خوب صورت اور خوش آئند امر یہ ہے کہ یہاں جو لوگ ہوائی ذرائع سے یا شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرتے ہیں، ان کی ضرورت سے زیادہ بجلی حکومت ان سے خرید لیتی ہے۔ یوں یہ لوگ قومی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ اچھی خاصی رقم بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں ہمارے حکمران ان تمام متبادل ذرائع کی حوصلہ شکنی کرتے اور سرمایہ کاری کرنے والوں سے کام شروع کرنے سے قبل اتنا کمیشن مانگتے ہیں کہ وہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگا کر اپنا سرمایہ واپس لے جاتے ہیں۔ میرے عزیز بھانجے اور میزبان بیرسٹر میاں غلام سرور بھی بڑے عزائم و جذبات کے ساتھ شمسی توانائی کا منصوبہ لے کر پاکستان آئے تھے۔ وہ اپنے انگریز انجینئر اور ٹیکنکل افراد کو بھی ساتھ لے کر آئے مگر اتنا تلخ تجربہ ہوا کہ ان کے جذبات کا خون ہوگیا اور وہ اپنے وطن سے مایوس ہو کر نئے وطن میں سرمایہ کاری پر مجبور ہوگئے۔ میں سامنے کے ان خوب صورت مناظر اور ماضی کی یادوں میں کھویا رہا۔ پھر آنکھیں بند ہونے لگیں اور جسم بوجھل محسوس ہونے لگا تو بستر میں دراز ہوگیا۔
یہ گرمیوں کا موسم ہے اور باہر بوندا باندی! درجہ حرارت دو تین ڈگری سینٹی گریڈ، رضائی میں گھسنے پر جسم کو حرارت پہنچی تو مزید تین گھنٹے پلک جھپکنے میں گزر گئے۔ خواب سے بیدار ہو کر غسل کیا۔ میاں لعل اختر صاحب کے انتظار میں ٹیلی وژن پر خبریں سننے لگا۔ لیبیا کی خون آشام سرزمین اور خبروں کے دوران مختلف تبصرے اور تجزیے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ قذافی کے دن گنے جا چکے ہیں مگر بیچ میں قذافی کے اپنے اور اس کے حامیوں کے بیانات آنے لگتے کہ وہ کسی صورت حکومت سے دستبردار نہیں ہوں گے اور باغیوں کو کچل کر دم لیں گے۔ مجھے مرشد مودودیؒ یاد آئے۔ ان کے بقول ہر آمر اپنے اقتدار کے نشے میں بدمست خود کو عقلِ کل سمجھتا ہے۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ مجھ سے پہلے جو لوگ اقتدار کی راہداریوں سے بے دخل کیے گئے تھے، وہ بے وقوف تھے کہ خطرات کا ادراک اور مداوا نہ کر سکے۔ میں نے تو خطرے کی تمام کھڑکیاں اور دروازے بند کر دیے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جو کھڑکی رکھی ہوتی ہے، اس کی طرف وہ نگاہ بھی نہیں اٹھا سکتا۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد دھڑن تختہ ہو گیا۔
میاں لعل اختر صاحب ٹھیک وقت پر تشریف لائے اور ہم مسجد ابراہیم پہنچے۔ نماز ظہر کے بعد آج مسجد کی بالائی منزل پر اس کمرے میں کچھ دیر بیٹھنے کا فیصلہ کیا، جہاں مہمانوں کے لیے بستر بھی لگے ہوئے ہیں اور ساتھ مولانا اقبال صاحب نے بہت اچھی کتابیں بھی جمع کر رکھی ہیں۔ میں نے کچھ کتابوں کی ورق گردانی کی، پھر ایک آدھ کتاب صاحبِ لائبریری کی اجازت سے مطالعے کے لیے لے جانے کا فیصلہ کیا۔ حدیث اور تاریخ پر دو کتابیں میں ساتھ لے گیا۔ واپس گھر پہنچا تو نمازِ عصر میں ابھی اڑھائی گھنٹے کا وقت تھا۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ کرنے کا موقع مل گیا۔ حسبِ معمول میاں لعل اختر صاحب پھر تشریف لائے اور ہم مسجد ابراہیم میں نمازِ عصر پڑھنے کے لیے چلے گئے۔ نماز کے بعد مسجد میں کچھ دیر بیٹھے۔ نوجوانوں کی تذکیر سنی، پھر کچھ دوست احباب کے ساتھ تبادلۂ خیال ہوا۔ مولانا اقبال صاحب اور میاں عبدالحق صاحب کے ساتھ اگلے روز یعنی 4اگست کے پروگرام اور سفر کی تفصیلات طے کیں۔ 4اگست کو لندن بذریعہ ٹرین میری روانگی تھی۔
آج رات کے بعد اگلے چند دنوں کے لیے گھر سے غیر حاضری تھی، اس لیے آج تراویح میں معمول سے زیادہ منزل پڑھی۔ سفر کے بارے میں میاں غلام سرور متفکر تھے کہ رمضان میں اتنے لمبے لمبے سفر کے پروگرام رکھ لیے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہاں روزے کا پتا ہی نہیں چلتا، سفر کا کیا پتا چلے گا، صبح ورجن ٹرین میں بیٹھیں گے اور نمازِ ظہر تک منزل پر جا اتریں گے ۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ سفر کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو‘ طبیعت پر ایک بوجھ سا تو ہوتا ہی ہے۔ رات ایک آدھ گھنٹے کے لیے سو گئے، پھر سحری کے لیے اٹھ کر کھانا کھایا۔ ساتھ ہی نمازِ فجر باجماعت ادا کی اور دو گھنٹے کے وقفے پر الارم لگا کر دراز ہوگیا۔ الارم بولا تو فوراً اٹھ کر تیاری کی۔ ابھی جرابیں پہن رہا تھا کہ مولانا اقبال صاحب اور میاں عبدالحق صاحب نیچے تشریف لے آئے۔ بریف کیس اٹھایا اور ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔
آج چوتھا روزہ اور اگست کی بھی چار تاریخ تھی۔ مانچسٹر کے ریلوے سٹیشن پیکاڈلی سے ورجن ٹرین میں سوار ہونا تھا۔ یہ ٹرین لندن کے ریلوے سٹیشن ایوسٹن پر ٹھہرتی ہے، جس سے یوکے اسلامک مشن کا دفتر چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ ہم بروقت پیکاڈلی ریلوے اسٹیشن پر آگئے۔ ہماری ٹرین اسی وقت پلیٹ فارم پر آکر رکی۔ میں ٹرین میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا اور میرے دونوں دوست الوداع کہہ کر واپس روانہ ہوگئے ۔ ٹرین ٹھیک وقت یعنی آٹھ پینتالیس پر روانہ ہوگئی۔ یوکے اسلامک مشن کے مرکزی دفتر لندن میں آصف زیدی صاحب سے بات ہوگئی تھی۔ انھوں نے فرمایا کہ میں ریلوے سٹیشن پر آپ کا انتظار کروں گا۔ باہر موسم خاصا ٹھنڈا تھا کیونکہ مسلسل بوندا باندی ہو رہی تھی۔ اس ٹریک پر باہر کے مناظر بھی کم ہی نظر آتے ہیں کیونکہ ریلوے لائن کے دونوں جانب سطح مرتفع کی وجہ سے کھیت اور فارم ٹیلوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ کہیں کہیں کھلے میدان بھی آ جاتے ہیں جہاں بڑے خوب صورت مویشی فارم اور زرعی فارم نظر آتے ہیں۔ کئی فارموں میں خوب صورت گھوڑے نظر آتے تو مجھے اپنے بچپن کے دور اور اپنے گھر میں خوب صورت گھوڑے گھوڑیوں کی یادیں اپنی طرف کھینچ لیتیں۔ ریلوے لائن کے ساتھ ایک آبی راستہ جاتا ہے جس میں کشتیاں اور جہاز جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔
ٹرین ٹھیک وقت پر منزل پر آ پہنچی۔ بریف کیس پکڑا، نیچے اترا تو دور مجھے ایک نوجوان نظر آیا۔ اسے دیکھتے ہی میں نے کہا یہی آصف زیدی ہوں گے۔ وہ میری طرف بڑھے چلے آ رہے تھے۔ بڑا پُرتپاک استقبال کیا۔ بریف کیس پکڑا اور میرے ساتھ چل پڑے۔ تھوڑے فاصلے پر مشن کا دفتر بھی آگیا اور ہمارے وہاں پہنچتے ہی بارش تھم گئی۔ کئی احباب سے ملاقات ہوئی۔ امیر جماعت سید منور حسن صاحب کے صاحب زادے عزیزم طلحہ بھی یہاں ملے۔ میں نے تعجب سے پوچھا طلحہ تم یہاں! تو خوش کن مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا: جی ہاں! میں یہاں ہوں۔ پھر اپنے کام وغیرہ کے بارے میں بتایا۔ میں اسے دعائیں دے کر نیچے نمازِ ظہر پڑھنے کے لیے مصلیٰ میں چلا گیا۔