حجۃ الوداع

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 6ھ میں حدیبیہ کے مقام پر قریش مکہ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ اس کے مطابق اس سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ اسی مقام پر اپنی قربانیاں دینے اور اپنے بال کٹوانے کے بعد واپس مدینہ چلے گئے۔ اگلے سال انہیں عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ آنا تھا۔ جب ذوالقعدہ 7ھ کا چاند طلوع ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ جو لوگ میرے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر موجود تھے‘ وہ سب عمرے کی تیاری کریں۔ چنانچہ ان سب لوگوں نے‘ سوائے ان کے جو یہودیوں کے مقابلے پر جہاد کے دوران شہید ہو چکے تھے یا اس عرصے میں طبعی موت سے ہم کنار ہو چکے تھے‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر یہ عمرہ ادا کیا تھا۔ اس کے بعد فتح مکہ کے وقت بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کیے مگر اس سال کے حج میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لے گئے، نہ کوئی امیر الحجاج مقرر فرمایا۔ اگلے سال 9ھ کے حج میں تمام اہلِ ایمان نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی امامت میں حج ادا کیا۔ 
آنحضورﷺ کے حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ وداع اس لیے کہ اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جلد ہی اپنے رفیق اعلیٰ کے پاس چلے گئے۔ نیز اس حج کے دوران میں آپؐ نے ایسے اشارات دیے جن سے صحابہ کرامؓ کو یہ احساس ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اب داغِ مفارقت دینے والے ہیں۔
واضح رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے تو کئی ادا فرمائے، مگر زندگی میں حج ایک ہی کیا، جو 10ھ میں ادا کیا گیا۔ مدینہ منورہ میں ان دس سالوں کے قیام کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاد کے میدانوں سے ہی فرصت نہ ملی۔ آپﷺ اس عرصے میں عیدالاضحی کے موقع پر ہمیشہ قربانی دیتے تھے۔ آپﷺ کی خواہش بھی ہوتی تھی کہ حج کریں، مگر آپ ﷺ کو اس کا موقع نہیں ملا۔ (طبقات لابن سعد، ج۲،ص۱۷۲)
آپؐ نے جب ذوالقعدہ 10ھ میں حج کا اعلان فرمایا تو گرد و نواح کے علاقوں سے بھی صحابہ کرامؓ کی کثیر تعداد مدینہ منورہ میں جمع ہوگئی۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ بھی آنحضورﷺ کے ساتھ اس حج میں شریک تھے۔ جب کوئی شخص اس حج کو حجۃ الوداع کہتا تو وہ فرماتے: حجۃ الوداع کے بجائے حجۃ الاسلام کہو۔ کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب حج میں کوئی کافر اور مشرک شریک نہیں تھا، بلکہ سارے کے سارے حجاج کرام اہل ایمان اور اہلِ توحید تھے۔ (ایضاً، ص۱۷۳)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے ایک عظیم شانِ عبودیت کے ساتھ نکلے، اللہ کے سامنے سراپا عجز و انکسار اور لوگوں کے ساتھ مجسمۂ محبت و وفا! ذوالحلیفہ کے مقام پر آپﷺ کو احرام میں دیکھ کر سب لوگ آپ کے حسن و جمال کی تعریف کر رہے تھے۔ گھر سے نکلنے سے قبل آپﷺ نے غسل فرمایا، پھر اپنے سر مبارک میں تیل لگایا، اپنی سنتِ مطہرہ کے مطابق بالوں کو کنگھی کی، اپنے جسم پر آپﷺ نے خود عطر بھی لگایا۔ آپﷺ نے نمازِ فجر ادا کی۔ گھر سے عام لباس میں نکلے اور مدینہ منورہ سے چھ میل کے فاصلے پر ذوالحلیفہ کے مقام پر مقیم ہوئے۔ آپﷺ مدینہ منورہ سے جس روز روانہ ہوئے یہ ہفتے کا دن اور چاشت کا وقت تھا۔ ذوالقعدہ کی پچیس تاریخ تھی۔
مدینہ سے روانہ ہونے کے بعد آپﷺ ذوالحلیفہ پہنچے تو آپﷺ مسافر ہو گئے تھے، اس لیے یہاں آپﷺ نے دو رکعت (قصر) نماز ظہر ادا کی۔ پھر رات بھی یہیں قیام کیا اور نمازیں قصر ہی ادا کیں۔ تمام صحابہ کرامؓ نے آپﷺ کی امامت میں نماز پڑھی۔ اس سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ ہَدْی کے اونٹ بھی لیے اور تمام ازواج مطہراتؓ اور اولاد کو بھی عمرے اور حج کی سعادت میں اپنے ساتھ شریک کیا۔ ذوالحلیفہ ہی کے مقام سے آپﷺ دو سفید چادروں میں ملبوس ہوگئے۔ ایک تہبند اور ایک چادر۔ یہی آج کے دن تک احرام کا لباس ہے۔ ازواج مطہراتؓ اپنی اپنی سواریوں پہ احرام باندھے ہودوں میں تشریف فرما تھیں۔ آپﷺ بھی اپنی اونٹنی پر سوار ہوگئے اور تلبیہ پڑھنے لگے:
لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیَکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ۔
ترجمہ: میں حاضر ہوں، میرے مالک میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ تو ہی حمد و تعریف کا مستحق ہے، ہر نعمت تیری ہی عطا ہے۔ حکمرانی تجھی کو زیبا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔
تلبیہ کے ان کلمات سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یادیں تازہ ہوگئیں، جنہوں نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ صدیوں پہلے اللہ کے حکم کے مطابق سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے مکمل اطاعت و وفا شعاری کا اعلان کیا۔ اپنی بندگی اور اللہ کی ربوبیت، اپنی عاجزی اور اس کی حکومت کے ساتھ اس کی نعمتوں پر اس کی حمد پڑھی اور اس کا شکر ادا کیا۔ انہی کلمات کی گونج میں اہلِ ایمان کا یہ سفر مدینہ سے مکہ کی جانب جاری ہو گیا۔
آپﷺ کے ساتھ جو قربانی کے جانور تھے‘ ان کو قربانی کی مخصوص علامت 'قلادہ‘ پہنا دیا گیا۔ آپﷺ نے حضرت ناجیہ بن جندب الاسلمیؓ کو قربانی کے جانوروں کا نگران مقرر کیا۔ بنو اسلم اونٹوں اور بکریوں کو پالتے تھے اور ان کی خوراک و ضروریات سے بخوبی آگاہ تھے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ نے آپﷺ کے ساتھ یہ حج اس انداز میں کیا کہ سارے سفر میں کوشش کی کہ آپؐ کے قریب رہیں اور آپؐ کا ہر عمل اور مناسکِ حج بغور دیکھیں۔ امام مسلم اور امام ابوداؤد نے حجۃ الوداع کے باب میں کافی تفصیل لکھی ہے۔ خلاصہ پیش خدمت ہے: حضرت امام باقر نے حضرت جابرؓ سے جب وہ نابینا ہوگئے تھے، آنحضرتﷺ کے حج کا حال پوچھا، حضرت جابرؓ نے آلِ رسولؐ کی محبت سے امام باقرؒ کے گریبان کے تکمے کھولے اور ان کے سینے پر محبت سے ہاتھ رکھ کر کہا: بھتیجے! پوچھو کیا پوچھتے ہو؟ پھر نہایت ہی تفصیل سے حجِ نبویؐ کے تمام حالات بیان کیے۔ (کتاب الحج باب حجۃ النبیؐ، مسلم/ ابوداؤد)۔
آپﷺ نے جن منازل پہ نمازوں کی ادائیگی کے لیے قیام فرمایا وہاں باجماعت اور قصر نمازادا کی۔ مکہ کے قریب مرالظہران میں آپﷺ اتوار کے دن پہنچے، یعنی ہفتہ بھر سفر کے بعد۔ یہیں پرآپؐ نے غروبِ آفتاب کے قریب سرف کے مقام پر قیام فرمایا۔ صبح کے وقت آپﷺ نے دوبارہ غسل کیا اور پھر مطلع اچھی طرح روشن ہو جانے پر نمازِ فجر ادا کی۔ سورج طلوع ہونے کے بعد آپ اپنی تیز رفتار اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوئے۔ راستے میں جہاں جہاں آپؐ نے نمازیں پڑھی تھیں‘ وہاں لوگوں نے مساجد تعمیر کر دیں یا چبوترے بنا دیے۔ اب آپؐ کی منزل مکہ تھا۔ بعد میں چلنے والے حجاج و زائرین کے قافلوں کے لیے ان مقامات و مساجد کا وجود بہت بڑی نعمت تھی۔ یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش پا پہ سفر کرنے میں بہت آسانی اور سہولت کا ذریعہ بنا۔ اہلِ ایمان کے دل کی تمنا ہوتی تھی کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمل اور نقش پا کی پیروی کرنے کی سعادت پا لیں۔ ظاہر ہے بعد کے ادوار میں حالات بدل جانے اور سواریوں کی نوعیت یکسر تبدیل ہو جانے کی وجہ سے راستوں کا نیا تعین ہوا۔ نئی شاہراہیں بنائی گئیں اور پرانے آثار و علامات معدوم ہو گئے۔ 
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا علم و تقویٰ اور جود و سخا بے مثال تھا۔ میدانِِ جہاد و قتال میں بھی ان کے کارہائے نمایاں تاریخ میں منقول ہیں۔ اتباعِ سنت کا اتنا شوق تھا کہ صحابہؓ بھی ان پر رشک کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے حالات مورخین نے تفصیلاً لکھے ہیں۔ احادیث میں بھی ان کے بہت سے مناقب بیان کیے گئے ہیں۔ اُسدالغابہ میں ابن اثیر اور الاستیعاب میں ابن عبدالبر نے ان کے بہت سے ایمان افروز واقعات نقل کیے ہیں۔ اتباعِ سنت کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا سفر کیا تھا۔ اس لیے جب بھی وہ حج اور عمرے کے لیے جاتے تو اسی راستے کو اختیار کرتے جس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے۔ جہاں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا، یا جہاں نماز پڑھی‘ وہیں قیام کرتے اور وہیں نماز پڑھتے۔ فرطِ عقیدت اور اتباعِ سنت کا شوق اس حد تک تھا کہ جہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے جنگل کی طرف گئے‘ وہیں وہ بھی قضائے حاجت کے لیے جاتے تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحا میں استراحت فرمائی تھی۔ ابن عمرؓ بھی وہاں تھوڑی دیر کے لیے لیٹ جاتے یا سو جاتے۔ 
ایک مرتبہ تو آپ اپنی اونٹنی کو بٹھا کر ایک جانب جھاڑیوں میں گئے اور تھوڑی دیر بیٹھ کر واپس آ گئے۔ قضائے حاجت کی ضرورت نہیں تھی، مگر اتباعِ رسولﷺ میں انہوں نے یہ عمل کیا۔ اس وقت تک وہ آثار موجود تھے اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو یاد بھی تھے اس لیے وہ اپنا شوق پورا کر لیا کرتے تھے۔ بعد کے ادوار میں یہ معدوم ہو گئے۔ اے کاش! وہ راستہ محفوظ کیا جاتا اور ان آثار کو آثارِ قدیمہ نہیں، آثارِمقدسہ کی روح کے ساتھ باقی رکھا جاتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں