آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے قبا میں پہنچے تو صحابہ کرامؓ بے پناہ خوش ہوئے۔ اس کے برعکس یہودی بہت تلملائے کہ بنو اسماعیل میں مبعوث ہونے والا نبی مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آ گیا ہے۔ وہ آنحضورﷺ کی عداوت میں انگاروں پر لوٹ رہے تھے۔ یہ بدبخت جانتے بھی تھے کہ محمدؐ بن عبداللہ، اللہ کے سچے رسول ہیں، بلکہ قرآن کے الفاظ میں وہ انہیں یوں پہچانتے تھے جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، اس کے باوجود شدید مخالفت اور عناد ان کے خبثِ باطن ہی کا غمّاز تھا۔ احکام الٰہی سے مسلسل رو گردانی اور انبیاء کو قتل کرنے جیسے شنیع جرائم کی وجہ سے ان کے دلوں پر ایسا زنگ چڑھ گیا تھا کہ واضح حقائق کا انکار کرتے ہوئے وہ ذرّہ برابر شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان کے ذہنوں سے خوفِ خدا مکمل طور پر نکل چکا تھا اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی تھی۔
ان لوگوں کی ان رذیل اور سفلی حرکات کے باجود ان کی صفوں میں کہیں نہ کہیں خیر کی کوئی چنگاری اور نور کی کرن موجود تھی۔ قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ ان میں بھی کچھ لوگ اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے اور حق بات کا اقرار کرتے ہیں۔ انہی خوش نصیب لوگوں میں سے ایک قبیلہ بنو قینقاع کے مشہور عالم حضرت عبداللہؓ بن سلام بھی تھے۔ ان کی شخصیت بلاشبہ بہت پُرکشش اور عظمت کے بلند مقام پر فائز نظر آتی ہے۔ قبولِ اسلام سے قبل عبداللہؓ بن سلام کا نام الحصین بن سلام بن الحارث تھا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کی آمد کی خبر اس وقت سنی جب آپؐ قبا میں پہنچے۔ میں اپنے باغ میں کھجور کے ایک درخت پر چڑھا، اس کی کانٹ چھانٹ کر رہا تھا کہ اچانک کسی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچ گئے ہیں اور قبا کی بستی میں بنو عمرو بن عوف کے محلے میں تشریف فرما ہیں۔
جب میں نے یہ خبرسنی تو کھجور کے اوپر سے میں نے اللہ کی کبریائی کا نعرہ بلند کیا۔ اس وقت میری پھوپھی خالدہ بنت حارث کھجور کے سائے میں بیٹھی تھیں۔ جب انہوں نے میری تکبیر سنی تو کہنے لگیں: اللہ تیرا ستیاناس کرے ۔ خدا کی قسم! اگر موسیٰؑ بھی تشریف لے آتے تب بھی تُو اتنا خوش نہ ہوتا۔ میں نے کہا: اے پھوپھی جان! جو تشریف لائے ہیں خدا کی قسم وہ موسیٰؑ کے بھائی ہیں اور انہی کے دین پر ہیں۔ وہی پیغام لے کر آئے ہیں جو موسیٰؑ لائے تھے۔ یہ سن کر وہ کہنے لگیں: اے میرے بھتیجے! کیا یہ وہ نبی ہیں جس کے بارے میں ہم سنتے ہیں کہ وہ قیامت سے قبل آئیں گے؟ میں نے کہا: جی ہاں، یہ وہی نبی ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا: ''اچھا یہ بات ہے تو ٹھیک ہے‘‘۔
وہ فرماتے ہیں ''میں آنحضورﷺ کے بارے میں پوری طرح جانتا تھا اور مجھے مکمل یکسوئی تھی کہ وہ اسی دور میں آنے والے ہیں۔ جب آپؐ نے مکہ میں اعلانِ نبوت کیا تو بھی میرے دل میں یقین تھا کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی بشارت دی گئی ہے؛ تاہم میں نے ازراہِ حکمت اس موضوع پر کبھی کسی سے گفتگو نہیں کی تھی، بلکہ میں نے سکوت اختیار کیے رکھا۔ اس وجہ سے یہودی میرے خیالات سے بالکل بے خبر تھے۔ میری کیفیت یہ تھی کہ میں ہر روز سوچتا کہ وہ نبی کھجوروں کی سرزمین کی طرف ہجرت کریں گے اور عین ممکن ہے کہ یہ یثرب ہی ہو۔ آج ان کی یثرب آمد پر میرے دل کی مراد پوری ہوگئی۔ میں فوراً درخت سے نیچے اترا اور تیار ہو کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں تو اپنے دل میں پہلے ہی سے مسلمان تھا، اب صرف اعلان کرنا باقی تھا۔ پھر بھی حکمت کے تحت میں نے سوچا کہ میں ابھی اپنے قبولِ اسلام کا اعلان نہیں کروں گا۔ میں اہلِ کتاب کا پول کھولنا چاہتا تھا تاکہ آنحضورﷺ ان کے بارے میں مطمئن اور یکسو ہو جائیں۔ جب آپؐ کے چہرۂ انور پر میری پہلی نظر پڑی تو میں نے کہا: لیس الوجہ بوجہ کذّاب۔
'' یہ چہرہ کسی جھوٹے شخص کا چہرہ نہیں ہے‘‘۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والی وحی ربّانی کی تو اپنی ہی شان ہے۔ ظاہر ہے کہ خالق بے مثل ہے تو اس کا کلام بھی اسی کی طرح ہے۔ جس قلبِ مصفّٰی پر یہ کلام نازل کرنے کا فیصلہ ہوا، وہ بھی ساری مخلوق میں یکتا ہے۔ اس کا کوئی مثل اور ثانی نہیں۔ آنحضورﷺ کی زبانِ اقدس سے نکلے ہوئے کلمات بھی اپنی تاثیرمیں بے نظیر ہیں۔ حضرت عبداللہؓ بن سلام فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے جو سب سے پہلا کلام سنا وہ اتنا جامع اور دل میں اتر جانے والا تھا کہ سبحان اللہ! وہ معجزہ نما کلام یہ تھا: اَیُّہَاالنَّاسُ! اَفْشُوا السَّلَامَ وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ وصِلُوْا الْاَرْحَامَ وَصَلُّوْا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِالسَّلَامِ۔
ترجمہ: اے لوگو! آپس میں سلام کو عام کرو، (مستحقین، مہمانان اور احباب کو) کھانے کھلایا کرو، صِلہ رحمی کیا کرو، راتوں کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو اٹھ کر نماز پڑھا کرو، تم اس کے نتیجے میں سلامتی وعافیت کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔ (ترمذی، مسنداحمد)
میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی ہی ملاقات میں عرض کیا: یارسول اللہؐ! یہود بہت بدکردار اور پست اخلاق لوگ ہیں۔ میں آپؐ کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں، مگر ابھی اعلان نہیں کرتا۔ آپؐ یہودیوں کے سرداروں، علما اور مذہبی رہنماؤں کو بلا لیں۔ پھر ان سے میرے بارے میں ان کی رائے پوچھیں۔ آپؐ مجھے اس دوران پردے کے پیچھے چھپا دیں۔ نبی اکرمﷺ نے ایسا ہی کیا۔ جب یہود کے احبار و ربی اور سرداران آ گئے تو ان لوگوں سے آپؐ نے پوچھا کہ الحصین بن سلام کے بارے میں تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے دیکھا کہ الحصین بن سلام وہاں موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے سوال کے جواب میں کہا: سیدنا و ابن سیدنا و حبرنا و عالمنا۔
ترجمہ: وہ ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں، وہ ہمارے بہت بڑے مذہبی رہنما اور بہت بڑے عالم ہیں۔
جب یہودی یہ گواہی دے چکے تو میں پردے کے پیچھے سے نکل آیا اور میں نے کہا: اے معشر یہود! اللہ سے ڈرو اور یہ شخص جو پیغام لے کر آیا ہے اسے قبول کر لو۔ خدا کی قسم! تم بہت اچھی طرح جانتے ہو کہ وہ اللہ کا رسولؐ ہے۔ تم اس کا تذکرہ اس کے نام اور صفات کے ساتھ تورات میں لکھا ہوا پاتے ہو۔ فانی اشہد انہ رسول اللہ...۔ (پس میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، میں ان پر ایمان لاتا ہوں، ان کی تصدیق کرتا ہوں اور انہیں اچھی طرح پہچانتا ہوں)۔
یہ سننا تھا کہ سب یہود یک زبان بول اٹھے: تم جھوٹے ہو، رذیل ابن رذیل ہو اور مجھے وہ جلی کٹی سنائیں کہ خدا کی پناہ۔ اب ان کمینے لوگوں کا دوغلاپن اظہر من الشمس ہو چکا تھا۔ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں نے آپؐ کو بتا نہیں دیا تھا کہ یہ بہت گھٹیا لوگ ہیں۔ بغاوت اور جھوٹ کے علم بردار، اللہ کی نافرمانی اور حکم عدولی پر جری اور مصر‘‘۔
انہی خزف ریزوں کے درمیان وہ لعل بدخشاں تھا جسے تاریخ اسلامی میں بے مثال بندۂ مومن ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت الحصین بن سلام کے قبولِ اسلام کے ساتھ ہی آنحضورﷺ نے ان کا نام عبداللہ رکھ دیا۔ عبداللہؓ بن سلام حق کی گواہی دینے کے بعد اپنے گھر کی طرف گئے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے جاتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ اپنے اہل وعیال کو اکٹھا کرکے ان کے سامنے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف پیش کیا۔ پھر اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کیا اور ان سب کو اسلام کی طرف دعوت دی۔ میرے تمام اہل وعیال اسلام میں داخل ہوگئے اور میری پھوپھی نے بھی اسلام قبول کرلیا اور اللہ کا شکر ہے کہ یہ سب لوگ اپنے اسلام میں مخلص اور ثابت قدم رہے۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص516تا 517)
حضرت عبداللہؓ بن سلام نہایت خوش نصیب انسان تھے۔ اللہ کی ہزاروں رحمتیں ان پر کہ وہ گروہِ یہود میں سے سب سے پہلے نبی رحمتؐ پر ایمان لائے اور آپؐ کی ڈھال بن گئے۔ آپؓ نے قبول اسلام کے بعد اپنے اہل وعیال کو بھی صراطِ مستقیم کی طرف رغبت دلانے کے لیے پوری محنت اور توجہ سے دعوت کا فریضہ ادا کیا۔ آپ کی کوشش سے اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کے بیشتر لوگوں کو گمراہی سے نکال کر جادۂ مستقیم پر گامزن کر دیا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ہر بندۂ مومن کے لیے تاقیامت یہ حکم صادر فرما دیا کہ وہ اپنے نفس کے ساتھ اپنے اہل وعیال کو بھی دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کرے۔
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا...(التحریم66:6)
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تُندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیاجاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں‘‘۔