کئی سال قبل ایک واقعہ یا مزاقیہ تبصرہ کہیں پڑھا تھا؛ ایک یورپی شہری نے جھوٹ بولا جو عدالت میں ثابت ہو گیا۔ جج نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا ''کیا تم مسلمان ہو گئے ہو؟‘‘ (معاذ اللہ) لکھنے والے نے لکھ دیا مگر سچی بات یہ ہے کہ اسے کئی سال قبل پڑھتے ہوئے دل پر آرے چل گئے اور اب بھی یہ یاد آئے تو ازحد افسوس ہوتا ہے۔ جھوٹ اور دو نمبری ہمارے کھاتے میں ڈال دی گئی ہے۔ اس میں اسلام دشمنوں کی کارروائی اپنی جگہ مگر ہمارے عوام و خواص اور رعایا و حکمران سبھی کا کردار بھی شامل ہے۔ وائے افسوس! اس نبی رحمتﷺ کی امت کی یہ زبوں حالی‘ جسے بدترین دشمنوں نے بھی ہمیشہ صادق و امین تسلیم کیا۔ جھوٹ دیگر قومیں بھی بولتی ہیں مگر یہ ہمارے ساتھ کیوں چپکا دیا گیا ہے؟ اس میں ان اسلام دشمن قوتوں کا بغض و عناد تو ہے ہی، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم خود کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارے سیاست دان، بیورو کریٹ، صنعتکار اور دیگر طبقات کی پہچان آج امانت و دیانت کے بجائے کرپشن، جھوٹ اور فریب کاری کیوں بن گئی ہے؟ منیر نیازیؔ نے شاید ایسی کسی کیفیت کا تذکرہ کیا ہے ؎
کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
انسانی اخلاق و کردار کا تعین انسان کے گفتار و معاملات سے ہوتاہے۔ جو انسان ہمیشہ سچ بولتا ہے، وہ فاتح اور کامیاب رہتا ہے۔ وقتی مشکلات کے باوجود صدق و سچائی، انسان کو نجات و عافیت کی منزل پہ لے جاتی ہے۔ جھوٹا آدمی وقتی طور پر کچھ فوائد حاصل کر بھی لے تو اس کا جھوٹ بالآخر اسے ہلاکت کے گڑھے میں لے ڈوبتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ''اَلصِّدْقُ یُنْجِیْ وَالْکَذِبُ یُہْلِک‘‘ سچ نجات کا ذریعہ اور جھوٹ باعثِ ہلاکت ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر لحاظ سے انسانِ کامل تھے۔ آپﷺ کی حیات طیبہ سراسر نور و ہدایت اور حسن و جمال کا مرقع تھی۔ آپؐ نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا حالانکہ جس معاشرے میں آپؐ نے آنکھ کھولی، اس کی بنیاد ہی جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکا دہی پر تھی۔ جھوٹ کو اگرچہ عیب جانا جاتا تھا مگر اس کا چلن اس قدر عام تھا کہ معیوب ہونے کے باوجود اسے انسان کی ذہانت و فطانت اور ہوشیاری و پرکاری تصور کیا جانے لگا تھا۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے معاشرے میں آنکھ کھولنے کے باوجود اپنے دامن کو ہمیشہ اس آلودگی سے پاک صاف رکھا۔ بچپن اور لڑکپن میں بھی آپؐ کی یہ صفت اتنی معروف اور نمایاں ہو کر ضیا پاش ہوئی کہ معاشرے کا کوئی فرد نہ اس سے بے خبر رہا، نہ کبھی اس کا انکار اور نفی کر سکا۔ پوری قوم کے درمیان آپؐ عنفوانِ شباب ہی میں الصادق (یعنی سچا اور راست گو) کے لقب سے معروف ہوگئے تھے۔ آپؐ کی اس صفت کی بدولت بدترین مخالفتوں کے ادوار میں بھی آپؐ کا ستارہ چمکتا رہا۔
چالیس سال کی عمر تک آپﷺ پوری قوم کے درمیان بلا استثنا، سب سے معزز و محترم شخصیت تھے۔ جب آپؐ نے چالیس سال کی عمر میں اللہ کی طرف سے حکم ملنے پر اعلانِ نبوت کیا تو حالات یکسر بدل گئے۔ پوری قوم آپؐ کی مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہر قسم کا حربہ آپؐ کے خلاف استعمال کیا جانے لگا۔ کفار جان کے دشمن بن گئے لیکن اس سارے عرصے میں آپؐ کی صداقت کا انکار کوئی نہ کر سکا۔
کوہِ صفا کے مشہور خطبے میں آپؐ نے اپنا اصلی خطاب شروع کرنے سے پہلے لوگوں سے گواہی لی: ''ھَلْ وَجَدْتُّمُوْنِیْ صَادِقًا اَمْ کَاذِبًا‘‘ (کیا تم لوگوں نے مجھے سچا پایا ہے یا جھوٹا) تو مجمع بہ یک زبان پکار اٹھا کہ ہم نے آپ کو ہمیشہ راست گو پایا ہے، آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس گواہی کے باوجود اسی مجلس میں ابولہب اور دیگر لوگوں نے بعد میں دعوتِ حق سے انکار کیا، رسول اللہﷺ کو جھٹلایا اور نت نئے الزامات تراشے لیکن داعیٔ حقﷺ کے بارے میں ان کی وہ پہلی گواہی قولِ فیصل بن کر تاریخ کا حصہ بھی بن گئی اور لوگوں کے ذہن میں ہمیشہ پیوست بھی رہی۔ ( تفہیم القرآن، ج 3، سورۃ الشعراء، حاشیہ 135)
قریش مکہ میں حضور نبی کریمﷺ کا سب سے بڑا مخالف ابوجہل سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھی تمام تر مخالفت کے باوجود آپؐ پر دروغ گوئی کا الزام لگانے کی ہمت کبھی نہ کر سکا۔ ایک مرتبہ عرب کی ایک دوسری معروف شخصیت اخنس بن شریق ثقفی نے ابوجہل سے پوچھا کہ تم جو محمدؐ کو جھٹلاتے ہو‘ تو کیا واقعی انہیں جھوٹا سمجھتے بھی ہو؟ جواب میں اس نے کہا: بخدا، میں نہیں سمجھتا کہ محمدؐ جھوٹ بولتے ہیں لیکن تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بنوہاشم میں سے ہے اور ہم بنو مخزوم ہیں۔ ہم ہمیشہ سے ان کے روایتی حریف اور مدمقابل ہیں۔ مہمان نوازی سے لے کر جنگ آرائی اور جود و سخا سے لے کر شعر و خطابت تک ہر میدان میں ہم نے ان کا مقابلہ کیا ہے، اب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو کیا ہم اسے نبی مان کر اپنی برتری سے دست بردار ہو جائیں؟ بخدا! ایسا نہیں ہو سکتا۔اللہ رب العالمین نے اسی واقعے کی جانب قرآن مجید میں کئی مقامات پر اشارہ کرکے آنحضورﷺ کو حوصلہ دیا ہے۔ ارشاد باری ہے: ''اے نبیؐ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں، ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں۔‘‘ (سورۃ الانعام 6:آیت33)۔
حضرت علیؓ نے ایک روایت میں آنحضورﷺ کے ساتھ ابوجہل کے ایک براہِ راست مکالمے کا بھی ذکر کیا ہے، جس میں اس نے کہا تھا: ''یَا مُحَمَّدُ اِنَّا لَا نُکَذِّبُکَ وَلٰکِنْ نُّکَذِّبُ مَا جِئْتَ بِہٖ‘‘ اے محمدؐ !ہم تمھیں جھوٹا نہیں کہتے البتہ تم جوچیز [قرآن] ہمارے پاس لائے ہو، ہم اسے جھٹلاتے ہیں۔ (تفہیم القرآن، ج1، سورۃ الانعام، حاشیہ21)
آپﷺ کے حق میں صداقت و امانت کی گواہی محض ابوجہل ہی نے نہیں دی بلکہ پوری قوم اس کی گواہ تھی۔ آپؐ کے بدترین دشمنوں میں جن لوگوں کے نام آتے ہیں، ان میں عتبہ بن ربیعہ اور نضر بن حارث، دو معروف، زیرک اور بااثر سردار تھے۔ عتبہ نے دارالندوہ میں اپنی تقاریر میں کئی مرتبہ اس بات کا اظہار کیا کہ محمدؐ جھوٹے ہرگز نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس نے یہ بھی کہا کہ جو کلام وہ پیش کرتے ہیں، اس جیسا کلام کسی انسان کے بس میں نہیں۔
نضر بن حارث وہ شخص ہے کہ جس نے اسلام کا راستہ روکنے کے لیے گانے بجانے اور رقص و موسیقی کی محفلیں منعقد کیں، رستم و سہراب کے قصے کہانیوں پر مشتمل واقعات و اشعار کے ذریعے محفلیں سجائیں اور قرآن کی آواز کو لوگوں کے کانوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے شیطانی کلچر کے ذریعے شور و ہنگامہ کھڑا کیا، اس نے بھی ایک مرتبہ قریش کی مجلس میں خطاب کرتے ہوئے برملا کہا کہ محمدؐ ہم سب سے زیادہ سچا انسان ہے، نہ وہ ساحرہے نہ کاہن، نہ شاعر ہے نہ مجنون، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی تدبیر سوچنی چاہیے، محض الزامات سے بات نہیں بنے گی۔ گویا یہ ایسا اعتراف تھا جو بدترین مخالف کی زبان سے برملا کیاگیا۔(رحمۃ للعالمین، ج1، ص59تا 60)
نبی رحمتﷺ نے اپنی امت کو جو ہدایات دیں، ان میں راست بازی سب سے نمایاں ہے۔ خود آپؐ چونکہ اس کی بہترین مثال تھے، اس لیے اللہ رب العالمین نے آپؐ کو ایسا رعب عطا فرمایا تھا کہ بدترین دشمن بھی آپؐ کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ سیرت کا مشہور واقعہ ہے کہ ابوجہل نے کسی شخص سے اونٹ خریدے تھے اور طے شدہ سودے کے مطابق وہ ان کی قیمت ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہا تھا۔ لوگوں نے ازراہِ مذاق اس شخص سے کہا کہ اپنی دادرسی کے لیے محمدؐ کے پاس چلے جاؤ۔ کفار کا خیال یہ تھا کہ ابوجہل آپﷺ کو جلی کٹی سنائے گا لیکن چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جب آنحضورﷺ اس اجنبی کو ساتھ لے کر رئیسِ قریش کے پاس پہنچے اور فرمایاکہ اس کی رقم اسے ادا کردو تو ابوجہل نے بلا حیل و حجت اس کی پوری رقم ادا کر دی۔ سنتِ رسولؐ کے مطابق ہمیشہ سچ بولنے والے بندوں کو بھی اللہ کی طرف سے ایک خاص برہان حاصل ہو جاتی ہے، جو بدترین مخالفین پر بھی ان کا رعب اور دھاک قائم کر دیتی ہے۔ (سیرت ابن ہشام)
صدق و سچائی ایک اعلیٰ صفت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، سیدھی اور سچی بات کیا کرو، اللہ تمھارے اعمال درست کر دے گا اور تمھارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، بس وہی عظیم کامیابی کا مستحق ہے‘‘۔ (سورۃا لاحزاب33: آیات70تا 71) ایک دوسرے مقام پر تمام اہلِ ایمان کو تقویٰ کی تلقین فرماتے ہوئے حکم دیا گیا: ''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتھی بن جاؤ‘‘۔ (سورۃ التوبہ 9: آیت119)
ہم اس نبیؐ کی امت ہیں، جس نے سچائی کی تعلیم دی اور سچا بن کر ہر دوست اور دشمن سے اپنا سکہ منوایا۔ کسی کلمہ گو کے لیے جھوٹ بولنا ہرگز جائز نہیں۔ سچ بولنا اور اس پر قائم رہنا شیوۂ ایمانی بھی ہے اور سچے رسولؐ کا سچا پیروکار ہونے کا ثبوت بھی۔ آئیے! ہم عہد کریں کہ ہمیشہ سچ بولیں گے۔ اس سے قبل ہم سے جو کوتاہیاں ہوئیں، آئیے ہم سب اس پر اللہ سے توبہ کریں۔ خود سچ پر قائم رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اہل وعیال و وابستگان کو بھی اس کی تعلیم دینا، اس کی برکات سے آگاہ کرنا اور جھوٹ کی تباہ کاریوں سے متعارف کراکے اس سے اجتناب پر آمادہ و کاربند کرنا ہمارا فرض ہے۔ ان شاء اللہ ہمیں اس کے نتیجے میں خیراور بھلائی ملے گی اور اللہ ہمیں ہر نقصان سے پناہ دے گا۔