اللہ رب العالمین نے انسان کو احسنِ تقویم میں پیدا کیا ہے۔ جو شخص ظاہری شکل و صورت میں حسین و جمیل ہو، اس کے لیے حسنِ خَلْق کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور جو اپنے اخلاق میں اچھا ہو، اس کے لیے حسنِ خُلْق کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو آئینہ دیکھنے کے لیے جو دعا سکھلائی ہے‘ اس میں بھی بے پناہ حکمت ہے۔ دعا کے الفاظ یوں ہیں: اَللّٰہُمَّّ اَحْسَنْتَ خَلْقِیْ فَاَحْسِنْ خُلُقِیْ۔ (مسند احمد، ح3283)
ترجمہ: ''اے اللہ تو نے جس طرح مجھے اچھی شکل و صورت بخشی ہے، مجھے اچھے اخلاق بھی عطا فرما‘‘۔
ظاہری شکل وصورت کا حسن وجمال بھی اچھی چیز ہے مگر اس سے زیادہ نفع بخش حسنِ خُلق ہے جو انسان کو اللہ کا قرب عطا کرتا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع بناتا ہے۔ نبی پاکﷺ اخلاق کے اُس مقام پر فائز تھے کہ جس کی گواہی خود رب کائنات نے یوں دی: وَاِنَّک لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍO (القلم 68:4)۔ یہ حسن خلق ہی تھا کہ اللہ رب العالمین، آپﷺ پر ہمیشہ اپنی نظر رحمت فرماتا تھا۔ ارشاد فرمایا: تم ہماری نگاہِ التفاف میں ہو‘‘۔ (الطور 52:48) ایک مقام پر اللہ تعالیٰ آپﷺ کے راتوں کو اٹھنے اور اپنے ساتھیوں کے درمیان گھومنے پھرنے کا تذکرہ کرکے فرماتا ہے: ''تمھارا رب تمھیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم[رات کو] اٹھتے ہو اور وہ سجدہ گزار صحابہؓ کے درمیان آپ کی نقل وحرکت پر بھی نگاہ رکھتا ہے‘‘۔ (الشعراء 26:218-219)
نبی کریمﷺ نے انسانیت کے لیے حسنِ اخلاق کا بہترین نمونہ پیش کیا اور ایسا کمال کر دکھایا کہ بداخلاقی کرنے والوں کا جواب بھی حسنِ خُلْق سے دیا اور ظلم وزیادتی کرنے والوں کے بارے میں بھی کلمۂ خیر ہی کہا۔ اپنے دوستوں اور احباب، عزیز واقارب اور رشتہ داروں سے حسن اخلاق اور محبت سے پیش آنا بھی خوبی سہی، مگر یہ تو آسان کام ہے لیکن غیروں کے لیے محبت بانٹنا اور ان کی زبان سے گالیاں سن کر دعائیں دینا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شان تھی۔ آپؐ کی زندگی میں بڑے بڑے مشکل مراحل آئے لیکن آپؐ ہر مشکل گھاٹی سے کمال عظمت وشان کے ساتھ گزرے۔ طائف کے لوگوں نے آپ ؐ کے ساتھ جو معاملہ کیا اور ظلم ڈھایا، اس کے جواب میں آپؐ کا عفوودرگزر کا اسوہ حسنہ بے مثال وبے نظیر ہے۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے ایک مرتبہ نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ کیا اُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپؐ پر گزارہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں! گھاٹی کا دن، یعنی طائف میں گزرنے والا وہ دن سنگین ترین تھا جب طائف والوں نے پتھروں کی بارش سے لہولہان کردیا اور گالیاں دے دے کر آبگینۂ دل چور چور کر دیا۔ ان لوگوں کے بارے میں بھی جب پہاڑوں کے فرشتے نے سلام عرض کرنے کے بعد پیش کش کی کہ انھیں پہاڑوں کے درمیان کچل دیا جائے تو اللہ کے رسولﷺ تڑپ اٹھے‘ فوراً فرمایا: نہیں! ایسا ہرگز نہ کرنا۔ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں‘ عذاب بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ اگر ان لوگوں نے میری بات نہیں مانی تو اللہ ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا فرمائے گا جو اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کا حق ادا کرے گی۔ نبی اکرمﷺ کا یہ فرمان اپنی جگہ بڑی عظمت لیے ہوئے ہے۔ یہ واقعہ آنحضورﷺ کے معجزات میں شمار ہوتا ہے۔ برعظیم کے مسلمان آنحضورﷺ کی اسی پیش گوئی کا مظہر ہیں۔ اس خطۂ ارض میں اسلام کا جھنڈا لہرانے والا پہلا مجاہد محمد بن قاسمؒ طائف کے قبیلے بنوثقیف کا چشم وچراغ تھا۔ (رحمۃللعالمین، ج1،ص66-68)
ایک مرتبہ نبی کریمﷺ سے ملنے کے لیے ایک شخص حاضر ہوا۔ آپؐ گھرمیں موجود تھے۔ آپؐ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا کہ یہ شخص اپنے قبیلے کا بدترین آدمی ہے۔ پھر آپؐ نے اسے گھر میں آنے کی اجازت دی اور بڑی نرمی وتپاک سے اس کا استقبال کیا۔ اس شخص کے چلے جانے کے بعد حضرت عائشہؓ نے تعجب سے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے پہلے اس شخص کے بارے میں کچھ اور فرمایا تھا مگر پھر اس سے اچھے انداز میں ملاقات بھی کی۔ توآپؐ نے فرمایا''انسانوں میں سب سے برا شخص وہ ہے جس کی درشتی اور فحش کلامی کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں‘‘۔ (ترمذی: 2003)
اس واقعہ میں ہمارے لیے کئی دروس پوشیدہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ مخلص اہلِ ایمان کو بدخصلت لوگوں سے متنبہ رکھنے کے لیے ان کی برائی کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے، کسی شخص کے بارے میں جانتے ہوئے بھی کہ اس میں خرابیاں ہیں، ایک مخلص مسلمان اور داعیٔ حق کو حسن خلق کا دامن ترک نہیں کرنا چاہیے۔ کیا معلوم کہ یہی مخلصانہ حسن اخلاق کسی لمحے اس شخص کو بھی نیکی وخیر کی طرف مائل کردے۔ نبی اکرمﷺ کی بہت سی احادیث اوربہت سے معاملات دلوں کو فتح کرنے کاذریعہ بن گئے۔
سیرت کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ جب حضور نبی کریمﷺ بدر کی فتح کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو آپؐ کے پاس ستر جنگی قیدی تھے۔ حضرت اُسَیْد بن حُضَیْرؓ ایک بزرگ صحابی تھے اور جنگ میں اس وجہ سے شریک نہ ہوسکے کہ روانگی کے وقت وہ مدینہ میں موجود نہ تھے۔ وہ اہلِ یثرب کے ساتھ آپؐ کے استقبال کے لیے روحا کے مقام پر آپؐ کے منتظر تھے۔ جب آپؐ کی آمد پرانہوں نے آپؐ کو مبارکباد دی تو ایک نوجوان صحابی حضرت سلمہ بن سلامہؓ نے کہا: ''بخدا ہمارے مخالفین تو قربانی کے جانوروں کی مانند تھے اور ہم نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکا۔ آپؐ نے یہ الفاظ سنے تو فرمایا:''بھتیجے وہ معمولی لوگ نہیں تھے بلکہ بڑے معزز اور طاقت ور تھے لیکن خدا کی نصرت تمھارے ساتھ تھی اور وہ اس سے محروم تھے‘‘۔ (البدایۃ والنہایۃ)
جنگی قیدیوں کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب ان کے زخمی دلوں کے لیے مرہم بن گیا۔ آپؐ کے اس حسنِ خُلْق نے ان کے دلوں کو فتح کر لیا۔ اس واقعہ میں بھی کئی دروس جلوہ فرما ہیں۔ ایک جانب آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے صحابہؓ کی تربیت کی کہ وہ دنیا دار فوجیوں کی طرح فتح کے نشے میں اترانے کے بجائے اسے نصرت خداوندی تصور کریں۔ دوسری جانب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخالفین کو یہ بات کہہ کر احساس دلایا کہ دشمنی کے باوجود اہل اسلام انہیں حقیر نہیں جانتے۔
انسان بعض اوقات انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار ہوتا ہے۔ اشتعال کے تمام اسباب موجود ہوتے ہیں لیکن مخلص مومن کے لیے اسوۂ رسولؐ یہی ہے کہ وہ اشتعال میں نہ آئے۔ حسنِ اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور وقتی جذبات کے تحت کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے دور رس نتائج پر نگاہ رکھے۔ یہ چیزانسان میں بڑی کوشش، توجہ اور تدبر کے نتیجے میں پیدا ہو سکتی ہے۔ قرآن مجید کا گہری نظر سے مطالعہ اورآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے مستقل تعلق انسان کے اندر ان تمام صفات کو پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جو دنیا میں اس کی عزت ووقار میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور آخرت میں اللہ کے سایۂ رحمت میں جگہ بنانے کا مستحق بناتی ہیں۔
قومِ یہود اللہ کی طرف سے لعنت زدہ قرار دی گئی ہے۔ ان لوگوں نے اللہ کے نبیوں کو ایذائیں پہنچائیں، ان کو قتل کیا اور ان کا تمسخر اڑایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے عظیم ترین محسن ہیں۔ انہوں نے ان کو ذلت وادبار اور غلامی وہلاکت سے نجات دلائی مگرا ن کی مسموم زبانوں سے وہ بھی محفوظ نہ رہے بلکہ سب سے زیادہ وہی ان کی ایذا رسانیوں کا ہدف بنے۔ (النساء آیت153، المائدہ آیت 24 اورالاحزاب آیت 69) خودآنحضورﷺکے ساتھ ان کا معاملہ انتہائی توہین آمیز اور اذیت رساں تھا۔یہودیوں کی خباثتوں میں منافقین بھی ان کے ہم نوا تھے لیکن آنحضورؐ اپنے مقام رفیع سے کبھی نیچے نہیں آئے۔ ان کی تمام مذموم حرکات کا ادراک کرلینے کے باوجود آپؐ نے ہمیشہ اپنی شان کے مطابق انہیں جواب دیا۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے منافقین اور یہودیوں کے ذومعنی اور گستاخانہ فقرات کا سخت جواب دیا توآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا: ''عائشہ! اللہ کو بدزبانی پسند نہیں ہے‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ انہوں نے آپؐ کو السلام علیکم کہنے کے بجائے السام علیکم کہا ہے (تم پر موت آئے)۔ آپؐ نے فرمایا: ''میں نے بھی انہیں وعلیکم (تم پر بھی)کہہ کر جواب دے دیا تھا‘‘۔ (بحوالہ بخاری ومسلم) آج امتِ مسلمہ اگرچہ دشمنوں کی بدترین یلغار کا نشانہ ہے مگر عالمی تناظر میں واضح نظرآرہا ہے کہ انسان ہدایت ربانی کے پیاسے ہیں۔ انہیں راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ امت مسلمہ کے پاس آبِ حیات بھی ہے اور زہرِہلاہل کا تریاق بھی۔ ہم حسن خُلْق کا نمونہ دنیا کو دکھا سکیں تو آج اسلام کی قبولیت کے لیے انتہائی ساز گار فضا موجود ہے، اخلاقِ نبوی ہمارے لیے آخرت کی کامیابی کا یقینی ذریعہ ہے اور دنیا میں بھی اسلام کے غلبے کا موثرترین ہتھیار ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ بقول عنایت علی خان مرحوم‘ ہم رسومات میں کھو گئے ہیں اور سنت مطہرہ کو بھول گئے ہیں۔ ؎
تیرے حسنِ خُلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا