سیدنا ابوذرؓ آغوشِ اسلام میں!

صحابہ کرام ایسے نایاب ہیرے تھے کہ ان میں سے جس کی زندگی پر نظر ڈالیں‘ ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ سیدنا ابوذر غفاریؓ کا گلدستۂ صحابہ میں عظیم مقام ہے۔ آپ کا نام جندب بن جنادہ تھا۔ قبیلۂ غفار مکہ سے مدینہ کے راستے پر صحرا میں رہتا تھا۔ ابوذر ایک خطرناک ڈاکو کی حیثیت سے تمام قبائل میں معروف تھا۔ مائیں اپنے شریر بچوں کو اس کا نام لے کر ڈراتی تھیں۔ ڈاکا زنی کے دوران ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں اپنی خشیّت ڈال دی، جس کے نتیجے میں وہ معصیت کی اس ساری زندگی پر نادم ہوکر اللہ کے سامنے گڑگڑانے لگا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اللہ تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے۔ وہ راتوں کو اٹھ کر اپنے طریقے اور سوچ کے مطابق ایک اللہ وحدہٗ کی عبادت کرتا، مگر راستہ ابھی تک واضح نہیں ہوا تھا۔ یہ بات اہلِ کتاب کی زبانی سن رکھی تھی کہ عن قریب اللہ کے آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔ دل میں بار بار خیال گزرتا کہ اللہ کرے اس نبی کو پالوں اور ہدایت سے سرفراز ہوجاؤں۔ اللہ تعالیٰ طلبِ صادق کو کبھی نامراد نہیں ہونے دیتا۔ یہ صحرانشین سچا عاشق تھا۔ اللہ نے اسے قیمتی ہیرا بنانے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں، نظر میں، اذانِ سحر میں!
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہیں کے جگر میں!
حضرت ابوذر غفاریؓ نے خود اپنے اس دورِجستجو کے بارے میں ایک مرتبہ نوجوان صحابہ اور تابعین کے سامنے اپنی کیفیات بیان کیں، فرمایا: اے میرے بھتیجے! میں نے اس زمانے میں کم وبیش تین سال عبادت کی۔ پوچھا گیا: تین سال آپ کس کی عبادت کرتے تھے؟ انہوں نے جواب میں فرمایا: اللہ کی۔ عبداللہؓ بن صامت نے پوچھا: عبادت کے دوران آپ کس طرف رخ پھیرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: جدھر اللہ میری رہنمائی فرمادیتا تھا، میں تو اپنے اللہ ہی کی طرف اپنا رخ پھیر چکا تھا، میں رات بھر اللہ کے سامنے عبادت میں مشغول رہتا، یہاں تک کہ رات کے آخری حصے میں نیند کا غلبہ ہوتا تو میں تھک ہار کر سو جاتا، پھر سورج نکلنے تک میں سویا رہتا، میرے بھائی اُنَیس اپنے کسی کام کے لیے مکہ جارہے تھے تو میں نے ان سے کہا کہ اُس شخص کے بارے میں معلومات لے کر آنا جو لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ اس کے دین کو قبول کرلیں۔ (البدایۃ والنہایۃ، ص477)
امام بخاریؒ نے حضرت ابوذرؓ کے قبولِ اسلام کے بارے میں صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ جب انہیں کسی کے ذریعے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ کی بعثت ہوگئی ہے تو انہوں نے اپنے بھائی (اُنَیس) سے کہا: تم گھوڑے پر سوار ہو کر مکہ جاؤ اور اس شخص سے ملاقات کرو جو خود کو اللہ کا نبی کہتا ہے۔ پھر واپس آکر اس کے بارے میں مجھے پوری رپورٹ دو۔ ان کے بھائی مکہ گئے اور آنحضورﷺکو دیکھا اور آپ کی باتیں بھی سنیں اور لوگوں نے آپؐ کے بارے میں جو کچھ کہا‘ وہ بھی سنا۔ آپﷺ کے اخلاقِ عالیہ کو بھی دیکھا اور پرکھا، پھر واپس چلے گئے۔ انہوں نے ابوذر سے کہا کہ میں نے اس شخص کو دیکھا ہے وہ ایک شریف النفس انسان ہے۔ لوگوں کو اچھے اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور اس کا کلام بھی میں نے سنا ہے وہ پُرتاثیر ہے، مگر شعروشاعری نہیں۔ (بخاری، کتاب المناقب، اسلام ابی ذرؓ، حدیث3328)
حضرت ابوذرؓ نے اپنے بھائی سے کہا: یعنی مجھے جس چیز کی تلاش تھی‘ اس کا تسلی بخش جواب تم سے نہیں ملا۔ پھر انہوں نے خود رختِ سفر باندھا۔ پانی کا ایک مشکیزہ اور کھانے کا معمولی سا سامان لے کر مکہ پہنچے۔ مسجد حرام میں آئے اور کسی سے پوچھے بغیر خود ہی رسول کریمﷺ کو تلاش کرنے لگے۔ اس دوران ان کی ملاقات حضرت علیؓ سے بھی ہوئی لیکن کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ ایک اور شخص بھی ملا جس سے علیک سلیک ہوئی لیکن وہ آنحضورﷺکے بارے میں کسی سے بھی سوال کرنے سے گریز کرتے رہے۔ ایک دن اور اسی طرح گزر گیا۔ یوں مسجدحرام میں چاہِ زم زم کے پاس ابوذر غفاری کو حضرت علیؓ نے کئی مرتبہ دیکھا۔ خود حضرت ابوذرؓ بیان کرتے تھے کہ انہوں نے ان ایام میں سوائے آبِ زم زم کے نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ اسی سے اپنی پیاس اور بھوک بجھاتے رہے۔ آنحضورﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ چشمۂ آبِ زم زم اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑ کے ذریعے سے معصوم بچے حضرت اسماعیل ؑ کے پاؤں رگڑنے کی جگہ سے جاری فرمایا۔ اس پانی کے اندر یہ خوبی ہے کہ بھوک، پیاس اور بیماری سب کے لیے نفع بخش ہے۔ 
چند دنوں کے بعد جب حضرت علیؓ کو پھر انہوں نے دیکھا تو سوچا کہ اس سے کچھ پوچھتا ہوں۔ اس روز حضرت علیؓ کے آگے آگے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم چلے جارہے تھے۔ حضرت ابوذرؓ کے دل میں خیال آیاکہ یہ آگے جانے والے شخص‘ اللہ کے نبی ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے حضرت علیؓ سے آہستگی سے پوچھا: یہ صاحب جو آپ کے آگے چلے جارہے ہیں، کون ہیں؟ حضرت علیؓ نے کہا: اگر تم مجھ سے یہ وعدہ کرو کہ میں جو کچھ بتاؤں گا، تم اس کو اپنے پاس راز رکھوگے تو میں تمھیں بتا دیتا ہوں۔ ابوذرؓ نے وعدہ کیا کہ وہ کسی سے کوئی تذکرہ نہیں کریں گے۔ اس پر حضرت علیؓ نے کہا: یہ اللہ کے رسول ہیں جن کی ہر بات سچ اور حق ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ،ص476)
اگلا روز ہوا تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی طرف تشریف لارہے تھے اور حسبِ سابق حضرت علیؓ آپﷺ کے پیچھے چلے آرہے تھے۔ حضرت ابوذرؓ نے دیکھ لیا اور وہ بھی خاموشی سے حضرت علیؓ کے پیچھے چل پڑے۔ حضرت ابوذرؓ نے اس موقع پر محسوس کیا کہ جیسے انتہائی صاف وشفاف پانی میں وہ تیر رہے ہوں۔ پھر حضرت علیؓ کے مشورے کے مطابق ابوذر ایک جانب بیٹھے انتظار کرتے رہے۔ جب آنحضورﷺنماز سے فارغ ہو کر گھر کی طرف چلے تو حضرت علیؓ بھی ان کے پیچھے ہولیے۔ پھر انہوں نے حضرت ابوذرؓ کو اشارہ کیا کہ وہ بھی ذرا فاصلے پر ان کے پیچھے چلتے آئیں۔ آنحضورؐ اور حضرت علیؓ اپنے گھر میں داخل ہوئے تو تھوڑی دیر بعد ابوذر بھی آگئے۔ حضرت علیؓ نے دروازہ کھولا تو ابوذر آنحضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب حضرت ابوذرؓ نے رسولِ کریمﷺ سے قرآن سنا تو فوراً اسلام قبول کرلیا۔ گویا مہینوں کا پیاسا بالآخر آبِ حیات کے چشمۂ صافی تک آپہنچا۔ یوں روایات کے مطابق وہ پانچویں شخص ہیں جنہیں سابقون الاولون میں قبولِ اسلام کی توفیق نصیب ہوئی۔ (ایضاً)
رسول اللہﷺ نے حضرت ابوذرؓ سے ارشاد فرمایا: اپنی قوم کی طرف واپس چلے جاؤ اور ان کو اسلام کی طرف بلاؤ۔ پھر ان کے درمیان ہی رہو جب تک کہ میرا حکم نہ پہنچے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں جانے سے پہلے بیت اللہ میں اپنے اسلام کا اعلان کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اہلِ مکہ شرک میں مبتلا ہیں، وہ یہ کلمہ سن کر تمہیں نقصان پہنچائیں گے۔ عرض کیا: میرا جی نہیں مانتا کہ میں اس کلمے کا اعلان کیے بغیر رہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اچھا جاؤ۔ حضرت ابوذر غفاریؓ مسجد میں آئے اور بلند آواز سے کہا: اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ واَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ۔ 
ہزار خوف ہو، لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق!
اس کلمۂ توحید کا سننا تھا کہ کفار ہر جانب سے حضرت ابوذرؓ پر پل پڑے۔ حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب نے یہ منظر دیکھا تو دوڑ کر آئے اور کفار کو ایک جانب ہٹاتے ہوئے فرمایا: تمہاری بربادی ہو، کیا تم جانتے نہیں ہو یہ بنو غفار کا اہم شخص ہے اور شام کی طرف تمہارے تجارتی قافلے بنوغفار میں سے گزرتے ہیں۔ پھر حضرت عباسؓ حضرت ابوذرؓ کو ساتھ لے کر اپنے گھر آئے۔ حضرت ابوذرؓ کو اتنا مارا پیٹا گیا تھا کہ ان کا چہرہ سوج گیا تھا اور جسم زخمی تھا۔ کلمۂ حق کہنے کا لطف ہی کچھ ایسا تھا کہ اگلے روز بے ساختہ ابوذر غفاریؓ پھر کفار کی مجلس میں گئے اور بلند آواز سے کلمۂ شہادت پڑھا۔ آج پھر انہوں نے ان کو مارا پیٹا اور آج بھی حضرت عباسؓ نے ان کو چھڑایا۔ 
ابوذر غفاریؓ اس واقعہ کے بعد جب رسول نبی اکرمﷺ سے ملے تو آپؐ نے فرمایا کہ اے ابوذرؓ! میں نے تجھے کہا نہیں تھا کہ کفار اس کلمے کو سن کر تم پر حملہ آور ہوجائیں گے؟ عرض کیا: یارسول اللہﷺ خدا کی قسم یہ لوگ میرے نزدیک اتنے ہلکے اور بے وقعت ہوگئے ہیں کہ میری نظروں میں یہ خس وخاشاک سے بھی حقیر ہیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں پھر اس کلمے کو ان کے سامنے دہراؤں۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں تم نے حجت قائم کردی ہے‘ اب واپس اپنے قبیلے میں جاؤ اور انتظار کرو کہ جب میں تمہیں وہاں سے نکلنے کے لیے کہوں‘ تب نکلنا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: کیا تم میری طرف سے یہ پیغام اپنی قوم تک پہنچا دو گے؟ اگر ایسا کرو گے تو امید ہے کہ اللہ تمہاری دعوت کے نتیجے میں ان کو نفع(ہدایت) بخش دے اور تمہیں بھی ان کے قبولِ اسلام کی وجہ سے بہت بڑا اجر عطا فرمائے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے درمیان آیا اور سب سے پہلے اپنے بھائی اُنَیس کو پورے واقعات سنائے اور اسلام کی دعوت دی، وہ مسلمان ہوگیا۔ پھر ہماری قوم کے بہت سے لوگ اسلام میں د اخل ہوگئے۔ ( مسلم، فضائل ابی ذرؓ، حدیث132)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں