جومو کینیاٹا کے دیس میں!

کینیا کا سب سے پہلا صدر آنجہانی جوموکینیاٹا (Jomo Kenyatta) کینیا کے سب سے بڑے قبیلے کیکویو سے تعلق رکھتا تھا۔ انگریزوں کے خلاف آزاد ی کی جنگ بڑی بہادری سے لڑی۔ یہ جنگ سیاسی بھی تھی اور عسکری بھی۔ دسمبر 1963ء میں انگریزی استعمار سے کینیا کو آزادی ملی۔اسی وقت جوموکینیاٹا بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے نکل کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا۔ اس کی مقبولیت نیلسن منڈیلا کی طرح بے مثال تھی۔ وہ سالہاسال کینیا کا صدر رہا۔ اس کے اندر بہت سی خوبیاں بھی تھیں جن کے بیان کرنے کا یہ موقع نہیں۔ پھر کبھی ان شاء اللہ۔ہم نے اپنی تحریر کا عنوان اس عظیم افریقی رہنما کے حوالے سے رکھا ہے۔
یہ اگست 2015ء کی بات ہے‘ جب ہم نیروبی پہنچے تو شام ہوچکی تھی۔ فضا سے شہر کی دور دور تک پھیلی ہوئی روشنیاں بہت خوشگوار نظر آئیں۔ دنیا کے غریب ملکوں میں بھی لوڈشیڈنگ کا تصور نہیں ہے جبکہ وطن عزیز میں لوڈشیڈنگ نہ ہوتو لوگ حیران ہوتے ہیں۔ جہاز سے نکل کر امیگریشن کی طرف آئے تو امیگریشن کا عملہ لوگوں کو ایک فارم تھما رہا تھا، جو دراصل وہاں پہنچ کر ویزہ لینے والوں کے لیے تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے پاس آن لائن ویزہ موجود ہے اور کاپی بھی دکھائی، مگر شاید وہ اناڑی تھے ۔ انہوں نے کہا سر! فارم تو ضرور پُر کرنا ہوتا ہے۔ یہی بحث جاری تھی کہ ایک باریش صومالی الاصل نوجوان میری طرف بڑھا۔ بڑے تپاک سے میر ااستقبال کیا، گرم جوشی سے گلے ملا اور پھر میرا نام لے کر اس نے پوچھا تو میں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس نے مجھ سے میرا پاسپورٹ لیا اور کہا کہ تشریف لائیے۔ وہ میرے ساتھ امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچا تو امیگریشن آفیسر اس کے استقبال کے لیے کھڑا ہوگیا۔ میں نے اپنا آن لائن ویزہ دکھایا۔ امیگریشن آفیسر نے ویزے کی دستاویز مجھ سے لے لی اور فوراً مہر لگا دی۔ 
نوجوان نے اپنا تعارف کروایا۔ اس کا نام محمد اسماعیل ہے اور وہ کسی بہت اہم شعبے کا بڑا آفیسر ہے۔ چیئرمین اسلامک فاؤنڈیشن نیروبی برادرم راؤ محمد اختر صاحب کے عقیدت مندوں میں سے ہے اور راقم کو بھی غائبانہ طور پر جانتا ہے۔ میرے قیام کینیا کے کئی واقعات جو اس نے اپنے ہم جولیوں سے سن رکھے تھے، اس نے من و عن دہرائے تو مجھے یک گونہ خوشی ہوئی۔ اللہ ان صالح نوجوانوں کو سلامت رکھے۔ یہی اس امت کا اثاثہ ہیں۔ ہم نے اپنا سامان چونکہ لاہور سے بُک کروایا تھا اور باقی مسافر دبئی سے سوار ہوئے، اس لیے ہمارا سامان آنے میں کافی دیر ہوگئی۔ جونہی سامان ملا ، ہم نے باہر کی راہ لی۔ گیٹ کے باہر بڑا ہجوم تھا۔ راؤ محمد اختر صاحب بھی وہاں چہل قدمی کر رہے تھے۔ بڑی محبت سے ملے اور سواحلی میں حال احوال پوچھا۔ سواحلی زبان میں میرے جواب پر اسماعیل بھی بہت محظوظ ہوا۔ اسماعیل سے اجازت لے کر ہم نے راؤ صاحب کے ڈرائیور کو فون پر بلوایا جورش کی وجہ سے پارکنگ ایریا سے نکل کر قدرے تاخیر سے ہمارے پاس پہنچ پایا۔ گاڑی میں بیٹھ کر راؤ صاحب نے اپنی سرگرمی اور اداروں کے بارے میں بھی بتایا اور درپیش مشکلات کا بھی تذکرہ کیا۔ پاکستان کے حالات پر بھی بات چیت ہوتی رہی۔ محسوس ہوا کہ میڈیا کی وجہ سے بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانی احباب وطنِ عزیز کے بارے میں ہم سے بھی زیادہ معلومات رکھتے ہیں۔ وہ مختلف حادثات و واقعات پر ہم سے زیادہ تشویش بھی محسوس کرتے ہیں، جبکہ ہمیں ان حادثات و سانحات سے یقینا بہت اذیت اور دکھ پہنچتا ہے مگر اس کے باوجود زندگی معمولات کے مطابق رواں دواں رہتی ہے۔ 
آج نسبتاً سڑکوں پر ٹریفک کم تھی ، پھر بھی پرانے نیروبی کے مقابلے میں بہت زیادہ محسوس ہوئی۔ ہم جو سفر پچیس ، تیس منٹ میں طے کرلیا کرتے تھے، اس کے لیے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگا۔ ویسٹ لینڈ کے علاقے میں اسلامک فاؤنڈیشن کا دفتر اور اس کے قریب ایک سوسائٹی میں اسلامک فائونڈیشن کے ملکیتی ایک کشادہ فلیٹ میں رائو صاحب کی رہائش ہے۔ جہاز میں کھانا تو کھا لیا تھا۔ راؤ صاحب کے ساتھ تکلفاً عشائیے میں بیٹھ گیا۔ پھر نمازیں (مغرب اور عشا) پڑھیں اور راؤ صاحب کی شفقت سے گرم دودھ کا ایک مگ شہد کی شیرینی کے ساتھ پیا اور سونے کی کوشش کی۔ وقت کی تبدیلی اور موسم کے تغیر کی بنا پر رات بے خوابی میں گزری۔ شدید گرمی سے ایسے ٹھنڈے موسم میں آپہنچا تھا جہاں اگست میں گرم کمبل یا رضائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہرحال یہ رات بھی بیت گئی اور فجر کی نماز کے لیے ہم بیدار ہوئے۔ راؤ صاحب کے گھر سے مسجد کافی فاصلے پر ہے۔ فجر کے وقت مسجد جانا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ گھر پر ہی نماز باجماعت ادا کی۔ نماز کے بعد پھر استراحت کے لیے کچھ وقت مل گیا۔ ناشتے کے وقت اٹھے اور بہت صحت مند ناشتہ کیا، جس میں مفید ترین پھل پپیتے کی موجودگی نے ماضی کی یادیں تازہ کر دیں۔ کینیا کے پھلوں میں پپیتا ایک خاص تحفہ ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اس پھل کے بے شمار طبی فوائد ہیں۔
ناشتے سے فارغ ہو کر عبدالحمید سلاچ، محمد ایوب خالد، مولانا شیخ مطیع الرسول اور بعض دیگر دوستوں سے فون پر رابطہ کیا۔ میرے پاس ابھی مقامی سِم نہیں تھی۔ راؤ صاحب نے اپنی ایک سِم میرے موبائل میں ڈالی جبکہ عبدالحمید صاحب تشریف لائے تو وہ بھی ایک ٹیلی فون سیٹ مقامی اور انٹرنیشنل رابطوں میں استعمال کے لیے لیتے آئے۔ یہ دونوں نمبر استعمال ہوتے رہے۔ کتنی سہولتیں انسان کو میسر ہیں، مگر ان سہولتوں سے قبل کی زندگی والا سکون و اطمینان عنقا ہے۔ انسان جتنا سہل انگار ہوتا چلا جائے اس کی قوتیں کمزور ہوتی جاتی ہیں۔ کبھی اتنے لمبے سفر کرنے کے بعد بھی اپنے خیریت سے پہنچنے کی اطلاع بذریعہ خط دی جاتی تھی اور خطوط کا باہمی تبادلہ ایک خاص لطف پیدا کیا کرتا تھا۔ اب ٹیلی فون پر فوراً گپ شپ اور خیر خیریت کا تبادلہ تو ہوجاتا ہے، مگر مکتوبات کی اپنی شان ہوا کرتی تھی۔ 
آج یکم ستمبر کو کینیا میں اس قیام کا میرا پہلا دن تھا۔ میں نے پہلے سے پروگرام کا جدول بنا رکھا تھا۔ کچھ دوست احباب کے گھر جانا تھا، بالخصوص عبدالحمید بھائی کے گھر حاضری سب سے اہم اور اولین تھی۔ ان کے والد گرامی قدر اور ہمارے محسن و شفیق بزرگ جناب حاجی محمد لقمان (سابق چیئرمین اسلامک فاؤنڈیشن نیروبی) 28؍ مارچ2014ء کو اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ ٹیلی فون پر تو ایک سے زیادہ مرتبہ تعزیت کی جاچکی تھی، مگر گھر میں حاضری کے لیے آج جانا طے تھا۔ میں نے راؤ صاحب کی رہائش پر عبدالحمید بھائی کو اپنی تازہ تصنیف ''عزیمت کے راہی‘‘ حصہ پنجم کی کاپی پیش کی، جس میں جناب حاجی محمد لقمان مرحوم کا تذکرہ بھی شامل ہے۔ عبدالحمید بھائی اپنی گاڑی لے آئے تھے۔ راؤ صاحب سے اجازت لے کر ہم نکلے تو عبدالحمید بھائی نے ڈرائیور کو بتایا کہ پہلے گھر جانا ہے۔ چنانچہ آدھ پون گھنٹے میں ہم گھر پہنچ گئے، کیونکہ اس علاقے میں زیادہ رش نہیں تھا۔ 
حاجی محمد لقمان صاحب اور ان کے بیٹے ہمیشہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ اب الحمد للہ عبدالحمید اور ان کے برادر ِخوردفاروق دونوں بھائیوں نے اپنے مکان خرید لیے ہیں۔ ان کے تیسرے بھائی ضیاء الدین سلاچ برمنگھم (یوکے) میں مقیم ہیں۔ عبدالحمید صاحب کا مکان پرانے ولسن ایئرپورٹ کے قریب ایک نئی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہے۔ یہ شہر سے باہر کھلی فضا میں ایک اچھی سوسائٹی ہے۔ ابھی گردونواح کی سڑکیں زیر تعمیر ہیں جب یہ مکمل ہوجائیں گی تو اس علاقے میں مکانوں کی قیمتیں بہت بڑھ جائیں گی۔ عبدالحمید صاحب کی والدہ محترمہ میرے لیے اپنی والدہ کی طرح ہیں۔ میں انہیں امی جی کہہ کر ہی پکارتا ہوں اور وہ مجھ سے اپنے بیٹوں کی طرح پیار کرتی ہیں۔ امی جی اس سفر میں بالکل ٹھیک ٹھاک، صحت مند تھیں۔ (اللہ تعالیٰ غریقِ رحمت فرمائے، اب رحلت فرما کر جنت مکین ہو گئی ہیں)
امی جی...!عبدالحمید بھائی کی والدہ محترمہ کو میں اپنے قیامِ نیروبی کے دوران امی جی کہا کرتا تھا۔ الحمدللہ ان کی محبت واقعی امی جی کی طرح آج بھی زندہ ہے۔ نہ صرف مجھ سے بلکہ میرے بچوں سے بھی بے پناہ محبت کرتی ہیں۔ کافی عرصہ پہلے پاکستان تشریف لائیں تو ہمارے ہاں قیام فرمایا جو اب تک ہمارے لیے یادگار ہے۔ عبدالحمید کی اہلیہ ناز باجی بھی بہت نیک اور سلیقہ شعار خاتون ہیں۔ عبدالحمید کے گھر پہنچ کر امی جی سے دعائیں بھی لیں اور بے بہا پیار بھی ملا۔ پھر ہم نے حاجی صاحب مرحوم کے لیے مغفرت کی دعا کی، جس کے دوران ہم سب کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ واقعی جانے والا بڑا صاحبِ عزیمت تھا۔ آج کے دن ہمیں کئی مقامات پر جانا تھا، مگر امی جی نے فرمایا کہ کھانے کا وقت ہوگیا ہے، جو کچھ بھی پکا ہوا ہے وہ کھا کر جائیں۔ گھر میں پکا ہواکھانا، پلاؤ سے لے کر سالن تک، اور چپاتی سے لے کر سویٹ ڈش تک بہت لذیذ تھا۔ اس ظہرانے کا بہت مزہ آیاکیون کہ اس میں کھانے کی لذت کے ساتھ اپنائیت کی شیرینی تھی جس کا کوئی بدل نہیں ہے۔ اللہ ان سب اہل خانہ کو بہترین اجر عطا فرمائے۔ جہاں اپنائیت ہوتی ہے اور تکلفات نہیں ہوتے تو آدمی محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں