قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ خاتم النبیین محمد رسول اللہﷺ ساری دنیا کے امام اور رسول ہیں۔
ارشاد ربانی ہے:''اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اُس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلے میں) کامیابی کی راہ ہر گز نہ دکھائے گا۔ (سورۃالمائدہ5: 67)
عرب کے اندر جہاں تک آپﷺ خود پہنچ سکتے تھے وہاں تک پہنچنے کا آپؐ نے بنفسِ نفیس اہتمام کیا۔ جن جن قبائل تک مختلف وفود اور نمائندگان کو بھیجا جاسکتا تھا‘ ان تک آپﷺ نے اپنے صحابہ کے ذریعے دعوت پہنچائی۔ دعوت کے اس طویل سفر میں خود آپﷺ کو طائف کی وادیوں سے گزرنا پڑا جس کی تفصیلات سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔ جزیرہ نما عرب سے باہر کئی عرب رؤسا بھی حکمران تھے اور عربوں کے علاوہ بہت بڑی بڑی غیر عرب اور عجمی ریاستیں بھی قائم تھیں۔ ان میں سے کئی ریاستوں کو سُپر طاقت ہونے کا گھمنڈ تھا۔ اس وقت کی معلوم دنیا میں جہاں تک پہنچنا ممکن تھا، وہ آبادی اسلامی دعوت سے روشناس کرا دی گئی۔
مکہ کے حالات عالمگیر فریضے کی ادائیگی کے لیے انتہائی ناسازگار تھے۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں بھی دشمنانِ اسلام نے آپﷺ کو مسلسل پریشان کیے رکھا۔ اس فرضِ منصبی کی ادائیگی کے لیے آپﷺ کو یہ فرصت صلح حدیبیہ کے بعد نصیب ہوئی؛ چنانچہ آپؐ نے اس فرصت سے فی الفور فائدہ اٹھایا۔ آپﷺ حدیبیہ کے سفر سے واپس پہنچے تو ماہ ِمحرم ہی میں تمام ملوک و امرا کے نام بہت جامع خطوط کے ذریعے اپنا پیغام پہنچا دیا۔ آپﷺ کے خطوط کا ریکارڈ تاریخ کی تمام امہات کتب اور مراجع کے اندر موجود ہے۔ سلطنت روم اس دور میں سب حکومتوں سے زیادہ طاقتور تھی۔ آپﷺ نے اس کے بادشاہ کو اسلام کی دعوت کے لیے خط لکھا۔
رومی سلطنت کا بادشاہ قیصر کہلاتا تھا۔ آنحضورﷺ کے دور میں روم کا تاجدار ہر قل تھا۔ اس نے رومی فوجوں کی پے درپے شکستوں کے بعد ایرانیوں کے مقابلے پر خود رومی لشکروں کی کمان سنبھال کر بہت شاندار تاریخی فتوحات حاصل کیں۔ اسے بازنطینی ریاست کے بادشاہوں میں بہت عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اُس کی تخت نشینی610ء میں ہوئی اور 641ء میں اپنی وفات تک یہ برسرِ اقتدار رہا۔ آنحضورﷺ کے جامع و مانع خط کامتن جو تاریخی کتابوں میں نقل کیا گیا ہے، یوں ہے:''محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے، ہر قل حاکم روم کے نام، سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے ، میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لے آ، سلامت رہے گا، تجھے اللہ تعالیٰ دُہرا اجر دے گا اور اگر تو روگردانی کرے گا تو تیری تمام رعیت کے اسلام نہ لانے کا گناہ تجھ پر ہوگا۔ اے اہلِ کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں(تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آئو۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی شے کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں (سے) کوئی کسی کو اللہ کے سوا کار ساز نہ بنائے۔ اگر یہ بات نہ مانیں تو آپ کہہ دیجیے کہ تم گواہ رہو ہم (اللہ کے) فرماں بردار ہیں‘‘۔ (سیرۃ خیر الانام، ص:302)
قیصر کے پاس آپﷺ کا خط لے کر جانے والے صحابی حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبیؓ تھے۔ آپؓ خط لے کر چلے تو آپؓ نے آنحضورﷺ سے عرض کیا کہ قیصر روم کے بارے میں معروف ہے کہ وہ براہِ راست خط وصول کرنے کے بجائے اپنے گورنروں کے ذریعے وصول کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ بغیر مہر وہ کسی خط کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتا۔ نبی اکرمﷺ نے تمام حکمرانوں کے نام اپنے خطوط پر مہر ثبت کرنے کے لیے اپنی انگوٹھی کی پشت پر ''محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کندہ کروائے۔ ہر خط پر آنحضورﷺ کی مہر ''محمد رسول اللہ‘‘ لگائی گئی۔ یہ خط بیت المقدس میں قیصر روم کے دربار میں پیش کیا گیا، کیونکہ اس وقت قیصر روم یروشلم آیا ہوا تھا۔ بصریٰ کے حاکم اور قیصر روم کے گورنر کو مطلع کرکے خط پیش کیا گیا مگر حضرت دحیہ کلبیؓ نے خود بنفس نفیس پہنچ کر یہ خط ہرقل کے حوالے کیا تھا۔
ملوک و شاہان کے نام یہ خطوط محرم 7ھ بمطابق628-29ء میں لکھے گئے تھے۔ قیصر نے خط تمام سفارتی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت عزت و احترام کے ساتھ وصول کیا اور اس کا مضمون پڑھوایا۔ خط کے نفس مضمون سے واقف ہونے کے بعد اس نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ کیا ان دنوں جزیرہ نمائے عرب سے کوئی تاجر یروشلم آیا ہوا ہے ؟اسے بتایا گیا کہ ہاں آیا ہوا ہے۔
اتفاق سے ان دنوں سردارِ مکہ ابو سفیان مع دیگر تاجرانِ مکہ شام میں تھا۔ اسے دربار میں پیش کیا گیا۔ قیصر نے ہمراہی تاجروں سے کہا کہ میں ابو سفیان سے سوال کروں گا اگر یہ کوئی جواب غلط دے تو مجھے بتا دینا۔ ابو سفیان ان دنوں نبیﷺ کا جانی دشمن تھا۔ اس کا بیان ہے کہ اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میرے ساتھ والے میرا جھوٹ ظاہر کردیں گے تو میں بہت سی باتیں غلط بتاتامگر اس وقت قیصر کے سامنے مجھے سچ سچ ہی کہنا پڑا۔
قیصر: ''محمدؐ کا خاندان اور نسب کیسا ہے؟ ‘‘
ابو سفیان: ''شریف و عظیم‘‘۔
یہ جواب سن کر ہرقل نے کہا ''سچ ہے۔ نبی شریف گھرانے کے ہوتے ہیں تاکہ اُن کی اطاعت میں کسی کو عار نہ ہو‘‘۔
قیصر۔ ''محمدؐ سے پہلے بھی کسی نے عرب میں یا قریش میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟‘‘
ابو سفیان : ''نہیں‘‘۔
یہ جواب سُن کر ہر قل نے کہا''اگر ایسا ہوتا تو میں سمجھ لیتا کہ یہ اپنے سے پہلے کی نقالی کرتا ہے‘‘۔
قیصر: ''نبی ہونے کے دعویٰ سے پہلے کیا یہ شخص جھوٹ بولا کرتا تھا یا اس پر جھوٹ بولنے کی کبھی تہمت لگی‘‘۔
ابو سفیان: ''نہیں ‘‘
ہر قل نے اس جواب پر کہا: ''یہ نہیں ہوسکتا کہ جس شخص نے لوگوں پر جھوٹ نہ بولا، وہ خدا پر جھوٹ باندھے‘‘۔
قیصر: ''اس کے باپ دادا میں سے کوئی شخص کبھی بادشاہ بھی ہوا ہے؟‘‘
ابو سفیان: ''نہیں‘‘۔
ہر قل نے پر کہا ''اگر ایسا ہوتا تو میں سمجھ لیتا کہ نبوت کے بہانے سے باپ دادا کی گم گشتہ سلطنت حاصل کرنا چاہتا ہے‘‘۔
قیصر: ''محمدؐ کے ماننے والوں میں مسکین و مفلس لوگ زیادہ ہیں یا سردار اور قوی لوگ؟‘‘
ابو سفیان: ''مسکین و حقیر لوگ‘‘۔
ہر قل نے اس جواب پر کہا ''ہر ایک نبی کے ابتدائی پیروکار مساکین و غربا لوگ ہی ہوتے رہے ہیں‘‘۔
قیصر: ''ان لوگوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے‘‘۔
ابو سفیان: ''بڑھ رہی ہے‘‘۔
ہر قل نے کہا: ''ایمان کا یہی خاصہ ہے کہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور حدِ کمال تک پہنچ جاتا ہے‘‘۔
قیصر: ''کوئی شخص اس کے دین سے بیزار ہو کر اس سے پھر بھی جاتا ہے؟‘‘
ابو سفیان: ''نہیں ‘‘۔
ہر قل نے کہا ''لذتِ ایمان کی یہی تاثیر ہے کہ جب دل میں بیٹھ جاتی اور روح پر اپنا اثر قائم کر لیتی ہے، تب جدا نہیں ہوتی‘‘۔
قیصر: ''یہ شخص کبھی عہد و پیمان کو توڑ بھی دیتا ہے؟‘‘
ابو سفیان: ''نہیں! لیکن اس سال ہمارا معاہدہ اس سے ہوا ہے‘ دیکھیے کیا انجام ہو‘‘۔
ابو سفیان کہتا ہے کہ میں صرف اس جواب میں اتنا فقرہ زیادہ کر سکا تھا مگر قیصر نے اس پر کچھ توجہ نہ کی اور یوں کہا: ''بیشک نبی عہد شکن نہیں ہوتے۔ عہد شکنی دنیا دار کیا کرتا ہے‘ نبی دنیا کے طالب نہیں ہوتے‘‘۔
قیصر: ''کبھی اس شخص کے ساتھ تمہاری لڑائی بھی ہوئی؟‘‘
ابو سفیان: ''ہاں‘‘
قیصر:''جنگ کا نتیجہ کیا رہا؟‘‘
ابو سفیان: ''کبھی وہ غالب رہا (بدر میں) اور کبھی ہم (اُحد میں)‘‘۔
ہر قل نے کہا: ''خدا کے نبیوں کا یہی حال ہوتا ہے لیکن آخر کار خدا کی مدد اور فتح اُن ہی کو حاصل ہوتی ہے‘‘۔
قیصر: ''اس کی تعلیمات کیا ہیں‘‘؟
ابو سفیان: ایک خدا کی عبادت کرو۔ باپ دادا کے طریق (بُت پرستی) کو چھوڑ دو۔ نماز، روزہ، سچائی، پاکدامنی، صلہ رحمی کی پابندی اختیار کرو‘‘۔
ہر قل نے کہا: ''نبی موعودکی یہی علامتیں ہم کو بتائی گئی ہیں۔ میں یہ تو ضرور سمجھتا تھا کہ آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے، لیکن یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ عرب میں سے ہوگا۔ ابو سفیان! اگر تم نے سچ سچ جواب دیے ہیں تو وہ ایک روز اس جگہ کا‘ جہاں میں بیٹھا ہوا ہوں (شام و بیت المقدس)‘ ضرور مالک ہوجائے گا۔ کاش میں ان کی خدمت میں پہنچ سکتا اور نبی کے پائوں دھویا کرتا‘‘۔
ابو سفیان کے بقول اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک (پھر سے) پڑھا گیا۔ اراکینِ دربار اب اُسے سن کر بہت چیخے اور چلائے اور ہمیں دربار سے باہر نکال دیا گیا۔ میرے دل میں اسی روز سے اپنی ذلت کا اور آنحضرتﷺ کی آئندہ عظمت کا یقین نقش ہوگیا۔ ابو سفیان کی طرف سے عملاً اس حقیقت کا اعتراف قدرے تاخیر سے ہوا یعنی فتح مکہ کے بعد مگر ان کی اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اسلام کے حق ہونے اور آنحضورﷺ کے غالب آنے کا قیصرِ روم کے دربار میں یقین ہوگیا تھا۔