مجاہدِ ملت قاضی حسین احمدؒ

قاضی حسین احمد 6 جنوری 2013ء کو اس دارِ فانی کو چھوڑ کر جنت مکیں ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم ملت اسلامیہ کا نایاب ہیرا تھے۔ قاضی صاحب اپنے پانچ بھائیوں اور پانچ بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ وہ زیارت کاکا صاحب کے ایک دینی و علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد صاحب مولانا قاضی عبدالربؒ اور داداجان قاضی دُرِّ مکنونؒ، ماموں مولانا لطف اللہؒ اور نانا مولانا عبدالحق جہانگیرویؒ، سبھی اجلّ علما تھے۔ دیوبندی مکتبِ فکر کے قائدین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ خاندان کے بزرگوں نے انگریزوں کے خلاف جہادی تحریک بھی چلائی اور قاضی صاحب کے ننھیال و ددھیال میں کئی بزرگان شہادت سے بھی سرفراز ہوئے۔ یوں یہ خاندان محض علمی روایات ہی کا وارث و امین نہیں تھا بلکہ جہادی معرکوں کا بھی شہ سوار تھا۔ مولاناعبدالقدوس قاسمیؒ، مولانا عبدالسبوح قاسمیؒ، قاضی عطاء الرحمنؒ، ڈاکٹر عتیق الرحمن اور خود قاضی صاحب دینی و عصری علوم سے بہرہ ور تھے۔ قاضی صاحب نے اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کی اور جامعہ پشاور سے ایم ایس سی جغرافیہ کی تعلیم مکمل کی۔
آپ کچھ عرصہ تک جہانزیب کالج سیدو شریف (سوات) میں بطور لیکچرر بھی کام کرتے رہے۔ پھر ملازمت چھوڑ کر پشاور میں اپنا کاروبار منظم کیا۔ اللہ نے ان کے کاروبار میں بڑی برکت دی۔ یہ میڈیسن کا کاروبار تھا جو اب تک ڈائگناسٹک سنٹر بن کر بخیر و خوبی چل رہا ہے۔ قاضی صاحب کی اہلیہ، چاروں بچے عزیزم آصف لقمان قاضی، عزیزی ڈاکٹر انس فرحان قاضی، عزیزہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اور عزیزہ خولہ سلجوقی‘ سبھی جماعت کی اگلی صفوں میں کام کر رہے ہیں بلکہ پورا خاندان جو سینکڑوں ارکان پر مشتمل ہے، اسی فکر کا داعی اور اسی رنگ میں رنگا ہوا ہے جسے خاندان کے اس عظیم سپوت نے اپنایا اور زندگی بھر نبھایا۔ آخری وقت میں بھی اپنے بچوں کو وصیت فرمائی کہ جماعت اسلامی کا ساتھ کبھی اور کسی حال میں بھی نہ چھوڑنا۔ زندگی بھر اس راہ پہ گامزن رہنا جس پہ میں نے اپنی ساری زندگی پوری یکسوئی کے ساتھ گزاری ہے۔
مرحوم زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے متاثر ہوئے، خاندان کا ماحول دیوبندی تھا اور یہ جماعتِ اسلامی اور مولانا مودودیؒ کی فکر سے متصادم نہیں تو اختلافی ضرور تھا۔ قاضی صاحب کے دو بڑے بھائی جناب عطاء الرحمن اور ڈاکٹر عتیق الرحمن بھی جمعیت کے سرگرم کارکن تھے۔ ان کے بزرگوں کی وسعتِ ظرفی تھی کہ عمومی طور پر علمائے دیوبند کے برعکس انہوں نے اپنے ہونہار سپوتوں کے اس راستے پر چلنے کی مزاحمت نہیں کی۔ قاضی صاحب عملی زندگی میں داخل ہوئے تو فوراً جماعت کے کارکن بنے۔ پھر 1970ء میں جماعت کے رکن بن گئے۔ زمانۂ طالب علمی میں اپنے بھائی ڈاکٹر عتیق الرحمن صاحب کے پاس لاہور آیا کرتے تھے، جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں زیر تعلیم اور کالج کے ہاسٹل میں رہائش پذیرتھے۔ اسی عرصے میں مرکز جماعت اچھرہ میں مولانا مودودیؒ سے ان کی براہِ راست ملاقاتیں ہوئیں اور مولانا کی شخصیت کو دیکھتے ہی وہ ان کے گرویدہ ہو گئے۔
کون جانتا تھا کہ صوبہ سرحد کا ایک عام سا طالب علم اور دیوبندی علماء کا سپوت مولانا سید مودودیؒ کی اس تحریک کا بہت بڑا اثاثہ ثابت ہوگا، نہ صرف اس کی اگلی صفوں میں کام کرے گا بلکہ مولانا کی جانشینی اور جماعت کی قیادت کی ذمہ داری بھی اللہ اس سے لے گا۔ اس میدان میں اللہ کا یہ بندہ امارت و قیادت کے مقام پر فائز ہوا تو سید مودودیؒ کی طرح سر پہ کفن باندھ کر گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی پیچھے کی طرف دیکھنے کے بجائے آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔ سیّد نے جو نقوشِ پا چھوڑے تھے وہ تو قیامت تک آنے والے قافلوں کے لیے جرأت و حوصلے کا سامان پیدا کرتے رہیں گے۔ قاضی صاحب نے بھی ان نقوشِ پا پر چل کے دکھایا اور ہر آمر کو للکارتے رہے۔ ان کی بے لوث جدوجہد کا سارا زمانہ معترف ہے، دوست بھی اور دشمن بھی! 
مثلِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند
کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی!
قاضی صاحب سید مودودیؒ کے پیروکار اور علامہ اقبالؒ کے مدّاح و فداکار تھے۔ انھیں کلامِ اقبالؒ، اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں، یوں مستحضر تھا کہ بسا اوقات احساس ہونے لگتا جیسے پورا کلام انہیں ازبر ہے۔ وہ کئی بار خود فرماتے کہ لوگ مبالغہ کرتے ہوئے انہیں کلام اقبال کا حافظ کہہ دیتے ہیں۔ ہم ان کا یہ تبصرہ سن کر کہا کرتے تھے کہ اس میں کوئی مبالغہ تو نظر نہیں آتا۔ آپ جس موضوع پر گفتگو کریں خواہ تقریر ہو یا انٹرویو، آپ کا خطبہ ہو یا کوئی مضمون، ڈرائنگ روم میں گپ شپ ہو یا کوئی پریس کانفرنس، کلامِ اقبالؒ اس میں پھولوں کی طرح مہکتا اور موتیوں کی طرح چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ میں تو کلامِ اقبالؒ کو دیکھتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ علامہ کے بے شمار اشعار قاضی صاحب پر پوری طرح منطبق ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ کلام اقبال کا بیشتر حصہ آفاقی اور عالمگیر حقیقتوں پر مشتمل ہے مگر ان کے اشعار کے مطابق جب بھی اور جو بھی اپنے آپ کو جس قدر ڈھال لے گا‘ یہ اشعار اس کا لباس اور اوڑھنا بچھونا بن جائیں گے۔ قاضی صاحب ایسی ہی ایک انقلابی شخصیت تھے۔ وہ اقبال کے شاہین تھے۔راقم الحروف کو مرحوم کے ساتھ کام کرنے کا براہِ راست طویل موقع نصیب ہوا۔ یہ عرصہ اٹھائیس سال پر محیط ہے۔ ان کو سفر و حضر میں، امن وحرب میں، اندرونی و بیرونی محاذوں پر، آسائش وراحت اور ابتلا وآزمائش میں، ہر جگہ دیکھنے اور پرکھنے کے مواقع ملتے رہے۔ میری آنکھوں کے سامنے ان کا تصور آتا ہے تو وہ اس شعر کا مصداق نظر آتے ہیں۔ ؎ 
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر، میرِ کارواں کے لیے
قاضی صاحب آتشِ نمرود میں بے خطر کود جایا کرتے تھے۔ اگر کوئی ناصح وخیر اندیش خطرات کی سنگینی کا حوالہ دے کر احتیاط و پرہیز کی ترغیب دیتا تو جواب میں کہا کرتے تھے کہ ہم تو درویش ہیں، کندھے پہ ردائے درویشی لیے پھرتے ہیں۔ ہم سے کوئی کیا چھین لے گا۔ ہم اللہ کی راہ میں کام کرتے ہوئے کیوں پسپائی و مداہنت اختیار کریں۔ ہم درویشی کی چادر جہاں چاہیں بچھا لیں! ؎
نہ تخت و تاج میں نَے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
یہ شعر بھی قاضی صاحب کی زبان سے بارہا سنا، جو فی الحقیقت ان کی آزادیٔ طبع اور حریتِ فکر کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے 
فتنۂ ملتِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطین کا پرستار کرے!
قاضی صاحب نے جو مجلس بھی سجائی، امت کے درد کا مداوا کرنے، ظلم کے خاتمے اور عدل و انصاف کے قیام کی فکر ہی ان پر غالب رہی۔ کلمۃ اللہ کی سربلندی ان کا مطمح نظر تھا اور اس راستے میں شہادت ان کی تمنا۔مرحوم نے ایک لمحہ بھی اللہ کی راہ میں جدوجہد سے کبھی منہ نہیں موڑا تھا۔
قاضی صاحب نے اپنے دورِ امارت میں جو کاروانِ دعوت ومحبت چلایا تھا اس نے ملک بھر میں لسانی ونسلی اور سیاسی ومذہبی نفرتوں کے مقابلے میں اسلامی اخوت ومحبت کا پرچار کیا۔ مہینے بھر کی یہ کٹھن مہم بہت مشکل اور تھکا دینے والی تھی۔ ہر روز نیا سفر اور نئی منزلیں، قیام وطعام کے مسائل ومشکلات، سفر کی تھکاوٹ اور بے آرامی، کوئی چیز قاضی صاحب اور ان کے کاروان کے لیے سدِّراہ نہ بن سکی۔ مذہبی ودینی جماعتوں کے درمیان روایتی وتاریخی دوریاں، نفرتوں کے الاؤ بھڑکانے کا سبب بن رہی تھیں۔ اس آگ کو بجھانا ملک و ملت کے مفاد و سلامتی کا تقاضا تھا مگر یہ کام کوئی آسان نہ تھا۔ قدم قدم پر مشکلات اور رکاوٹیں، راستے تنگ اور گلیاں بند، کئی لوگ اس بھاری پتھر کو چوم کر رکھ دیتے۔
قاضی صاحب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور بڑے عزم اور قوتِ ارادی سے کام لیتے ہوئے، اپنی مضبوط شخصیت کے ساتھ میدان میں اترے اور نفرتوں کی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی۔ شیعہ‘ سنی مسئلہ اگرچہ ابھی تک مکمل اور حتمی طور پر تو حل نہیں ہوسکا مگر قاضی صاحب نے ملی یکجہتی کونسل کے تحت دونوں متحارب گروہوں کو ایک میز پر اکٹھا کیا، ان کے درمیان مذاکرات ہوئے اور کئی موضوعات پر باہمی رواداری کی فضا بھی پیدا ہوئی۔
جماعت اسلامی کے ساتھ سیاسی میدان میں جن مذہبی جماعتوں کا ٹکرائو ہوتا تھا ان میں جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ آپس میں افہام و تفہیم کے فقدان نے بلاوجہ ان پارٹیوں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے متنفر کر دیا تھا۔ قاضی صاحب کی کوششوں سے متحدہ مجلس عمل وجود میں آئی تو مولانا شاہ احمد نورانیؒ اور قاضی صاحبؒ کے درمیان اتنا قرب پیدا ہوا کہ دونوں ایک دوسرے سے بے پناہ محبت اور احترام کے رشتوں میں جڑ گئے۔ قاضی صاحب کسی بھی مسلک کے دینی ادارے اور مدرسے میں چلے جاتے، ہر مسلک کے اساتذہ و طلبہ والہانہ ان کا استقبال کرتے۔ یہی کیفیت عالمی اسلامی تحریکوں کے کارکنان و قیادت کی تھی۔ قاضی صاحب کو دیکھتے ہی وہ ان کی طرف لپکتے، ان کی پیشانی، چہرہ اور ہاتھ چومنے لگتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں