خوش بخت گھرانا!

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی!
ہجرتِ مدینہ تاریخ انسانی کا نہایت عظیم الشان واقعہ ہے۔ اس واقعہ نے اپنے گھر بار اللہ کی خاطر چھوڑ دینے والوں کو تاریخ میں بلند و بالا مقام عطا فرمایا۔ مہاجرین کے لیے اپنے شہر اور دلوں کے دروازے برضاو رغبت اور بصد شوق و محبت کھول دینے والے بھی تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن گئے۔ گوشت پوست کے ان انسانوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ انسان بڑا عظیم ہے۔اخوت و برادری اور قوم و قبیلہ محض نسل، خون اور علاقے سے ہی نہیں بلکہ ایمان و عقیدے اور فکر و نظریے کی بنیاد پر بھی وجود میں آسکتے ہیں اور یہی بے مثال ہوتے ہیں۔ مہاجرین و انصار سبھی عظیم تھے کہ وہ اسی اصول کے علمبردار تھے۔
انصاری صحابیہ اُمِّ سُلَیمؓ کے پہلے خاوند مالک بن نضران کے چچازاد تھے۔ وہ حالتِ کفر میں مر گئے حالانکہ اُمِّ سُلَیمؓ نے انہیں اسلام کی طرف مائل کرنے کی بڑی کوشش کی۔ اللہ کی مشیت یہی تھی، اُمِّ سُلَیمؓ کے خاوند کی قسمت میں اسلام اور ایمان نہیں تھا۔ حضرت ام سُلیم کے دیور اور حضرت انسؓبن مالک کے چچا حضرت انسؓ بن نضر نہ صرف دو لت ِ ایمان سے مالا مال ہوئے بلکہ جنگ احد میں انہوں نے بہادری و شجاعت کے نمایاں جوہر دکھائے۔ اس جنگ میں آپؓ نے جام شہادت بھی نوش کیا۔ شہادت سے قبل میدانِ جنگ سے منتشر ہوتے ہوئے افراد کو آپؓ نے بہ آواز بلند کہا ''بھائیو! کہاں جارہے ہو بخدا مجھے احد پہاڑ کے پیچھے سے جنت کی خوشبو آ رہی ہے‘‘۔ شہادت کے بعد پورے جسم پر بے شمار زخموں کی وجہ سے ان کو پہچاننا مشکل ہو گیا تھا۔ آپؓ کی بہن نے مدینہ شریف سے آ کر آپؓ کی انگلیوں سے آپ کی شناخت کی۔ یہ خاندان عظمتوں کا مالک اور اعلیٰ مرتبوں کا مستحق تھا۔
حضرت ام سلیمؓ اپنے اکلوتے بیٹے انس سے بے پناہ محبت کرتی تھیں۔ جب حضرت انسؓ نے بات چیت کرنا شروع کی تو سب سے پہلے انہوں نے اپنے بیٹے کو کلمہ شہادت پڑھایا۔ ان کا خاوند مالک بن نضر ان سے ناراض تھا کہ تم نہ صرف خود باپ دادا کے دین سے برگشتہ ہو گئی ہو بلکہ میرے بچے کو بھی گمراہ کر رہی ہو مگر ماں کی تربیت کا اثر تھا کہ حضرت انسؓ اپنی توتلی زبان میں کلمہ شریف کا ورد کرتے رہتے تھے۔ میاں بیوی کے درمیان یہی وجۂ نزاع بنی تھی جس کی بنا پر حضرت انسؓ کے والد گھر بار چھوڑ کر شام کی طرف نکل گئے تھے۔
مہاجر صحابہ کرام کے ساتھ آنحضورﷺ خود بھی ہجرت کر کے مدینہ آ گئے۔ آپﷺ کے گھر میں بیٹیاں ہی تھیں۔ یہ اللہ کی اپنی مشیت و منشا تھی کہ آپﷺ کے بیٹے چھوٹی عمر ہی میں وفات پا جاتے رہے۔ مدینہ منورہ کی وہ خاتون کس قدر سعادت مند تھی جس کے ذوقِ سلیم اور فکرِ رسا نے اس صورت حال کا احساس کیا اور اپنے لختِ جگر کو آنحضورﷺ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ وہ سعادت مند بیٹا بھی بہت عظیم تھا۔ آنحضورﷺ کا خادم خاص ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ آنحضورﷺ بلاتے تو ہمیشہ ''اے میرے پیارے بیٹے‘‘ کہہ کر خطاب فرماتے۔ سلامِ عقیدت پیش کیجیے عظیم ماں اور خوش بخت بیٹے کو! یہ سعادت مند خاتون انصار کے قبیلے خزرج کی شاخ بنو عدی بن نجار میں سے تھیں۔ ان کا نام غُمَیصاء، رملہ اور سہلہ بیان ہوا ہے لیکن وہ اپنے ان ناموں سے زیادہ اپنی کنیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ ام سلیمؓ کو ایمان افروز واقعات کی وجہ سے تاریخ نے زندۂ جاوید بنا دیا ہے۔ ان کے بیٹے انس بن مالکؓ خادمِ رسول تھے۔ ہجرت کے وقت ان کی عمر دس سال تھی اور وہ اس چھوٹی سی عمر ہی میں اپنی والدہ کی طرح اسلام کے پیروکار اور آنحضورﷺ کے سچے شیدائی بن چکے تھے۔
اسلام کی دعوت کے نتیجے میں خوش نصیب اور بدنصیب بندے ہر گھر میں ظاہر ہونے لگے۔ سعید روحیں کلمۂ توحید کو اپنے لیے بہت بڑی نعمت سمجھ کر داخلِ اسلام ہو رہی تھیں جبکہ سعادت سے محروم مرد و خواتین اس کلمۂ حق سے بدک رہے تھے۔ ہر گھر میں جھگڑے کھڑے ہو گئے۔ سیدہ ام سلیمؓ کو بھی اس آزمائش سے گزرنا پڑا۔ اللہ نے ان کو استقامت بخشی اور وہ سرخرو ہوئیں۔ آپؓ کے شوہر اور حضرت انس ؓ کے والد اسلام کے مخالف تھے۔ اپنی بیوی اور بچے کو وہ اسلام سے برگشتہ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو بددل ہو کر مدینہ چھوڑ کر شام چلے گئے۔ وہیں انہیں کسی نے قتل کر دیا یا بعض روایات کے مطابق وہ طبعی موت مر گئے۔ یہ تھے مالک بن نضر۔ وہ کیا منظر ہو گا جب ام سلیمؓ اپنے لخت جگر کی انگلی پکڑے آنحضورﷺ کے درِ دولت پر حاضر ہوئیں۔ پھر عرض کیا: ''یارسول اللہﷺ! یہ میرا جگر گوشہ انس ہے۔ میری تمنا ہے کہ یہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر رہا کرے۔ آپﷺ اسے اپنے خادموں میں بھی شامل فرما لیں اور اس کے لیے دعائے خیر بھی فرمائیں‘‘۔
آپﷺ نے اپنی صحابیہ کی درخواست قبول فرما لی، ہونہار بچے کے سر پر دستِ شفقت پھیرا اور ان کے لیے خیرو برکت کی دعا بھی کی۔ حضرت انسؓ خود اور دیگر صحابہ کرامؓ بھی کہا کرتے تھے کہ آنحضورﷺ کی اس دعا سے حضرت انسؓکو اللہ جل شانہ کی طرف سے دنیا و آخرت کی ہر بھلائی عطا کی گئی۔ انہیں بڑا بلند مرتبہ اور شان ملی۔ حضرت انسؓ آنحضورﷺ کی خدمت میں آپﷺ کی زندگی کے آخری لمحات تک دس سال حاضر رہے۔ آپﷺ کی خدمت میں آمد کے وقت ان کی عمر دس سال تھی اور وصالِ نبوی کے وقت وہ بیس سال کے جوانِ رعنا تھے۔ آنحضورﷺ انہیں یا بُنَیَّ (اے میرے بیٹے) کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ اس سارے عرصے میں حضورﷺ کبھی ان سے ناراض ہوئے نہ کوئی سرزنش کی حالانکہ کبھی ان سے کھیل کود میں مصروف ہو جانے کی وجہ سے کوئی خدمت سرانجام دینے میں چھوٹی موٹی کوتاہی بھی ہو جایا کرتی تھی۔ ایسے موقع پر آنحضورﷺ صرف اتنا ہی فرماتے کہ انسؓ تمہاری اس غفلت سے مجھے زحمت اٹھانا پڑی۔ حضرت ام سلیمؓ کے خاوند مالک بن نضر یوں توخوش اطوار تھے مگر قسمت نے ساتھ نہ دیا اور وہ ایمان سے محروم رہے۔ ام سلیمؓ کو اس بات کا افسوس تھا لیکن کچھ کر نہ سکتی تھیں۔ بیوہ ہو جانے کے کچھ عرصہ بعد انہیں اپنے ہی قبیلے کے ایک شخص زید بن سہل المعروف ابوطلحہ نے نکاح کا پیغام بھیجا۔ ابوطلحہ گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے لیکن بت پرست تھے۔ انہوں نے لکڑی کا ایک بت اپنے گھر میں سجا رکھا تھا اور اس کی پرستش کیا کرتے تھے۔ ام سلیمؓ نے ان کا پیغام ملنے پر پیغام لانے والی خاتون کے ذریعے انہیں بلا بھیجا۔ جب وہ آئے تو آپؓ نے انہیں کہا کہ میں ایک اللہ کو ماننے والی اور محمد رسول اللہﷺ کی پیروکار ہوں اور تم بت کو پوجتے ہو، جسے تم نے خود ایک حبشی کو لکڑی دے کر بنوایا تھا۔ اس صورتحال میں تمھیں اپنے خاوند کے طور پر میں کیسے قبول کر سکتی ہوں۔ ابوطلحہ حقیقت کو سمجھ گئے اور ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ انہوں نے بت پرستی سے توبہ کر لی۔ قبول اسلام کا ارادہ ظاہر کیا تو اُمِّ سُلَیمؓ کو بڑی خوشی ہوئی۔ ان کے پیغام کو بھی قبول کر لیا اور ان کے قبول اسلام ہی کو اپنا مہر قرار دے دیا۔ تاریخ اسلام میں اس انداز کا مہر مقرر کرنے کا یہ پہلا اور مثالی واقعہ تھا۔ صحابہ کرام ؓ کہا کرتے تھے کہ اُمِّ سُلَیمؓ کا مہر تمام مسلمان عورتوں میں سب سے بہتر اور افضل ہے۔
اُمِّ سُلَیمؓ اپنے بہادر خاوند حضرت ابوطلحہؓ کے ساتھ جہاد کے معرکوں میں بھی شریک رہیں۔ بالخصوص غزوۂ احد اور حنین میں تو میاں بیوی نے مثالی کردار ادا کیا۔ حنین میں آپﷺ کے قریب مشکل گھڑی میں جو چند لوگ رہ گئے تھے، ان میں ام سُلیمؓ بھی تھیں، جن کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ آپﷺ نے خنجر دیکھا تو پوچھا: ''اُمِّ سُلَیم ؓاس خنجر کا کیا کرو گی؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ اگر کوئی مشرک آپﷺ کے قریب پھٹکا تو اس کا پیٹ چاک کر دوں گی۔ آپﷺ ان کے اس جواب سے خوش ہوئے اور انہیں دعائیں دیں۔ حضرت ابوطلحہؓ کے بارے میں آنحضورﷺ نے فرمایا تھاکہ اس کی للکار دشمن پر ہیبت طاری کر دیتی ہے اور اس کا نعرۂ جہاد ایک ہزار جنگجوؤں پر بھاری ہوتاہے۔ (طبقات ابن سعد، جلد سوم، صفحہ 505)
حضرت ابوطلحہؓکو اللہ نے اُمِّ سُلَیمؓ سے کئی بچے عطا فرمائے لیکن وہ بچپن ہی میں فوت ہو جاتے رہے۔ مشہور واقعہ جس میں آنحضورﷺ ایک بچے ابوعمیر کی چڑیا مر جانے پر اس کا دل بہلاتے رہے، اسی گھر کا واقعہ ہے۔ اس چڑیا کا نام ابوعمیر نے ونغیر (بلبل) رکھا تھا۔ جب وہ چڑیا مر گئی تو ننھا ابوعمیر بہت غمزدہ ہوا۔ آنحضورﷺ ام سُلیمؓ کے گھر تشریف لے گئے اور ابوعمیر کے گال تھپتھپاتے رہے اور فرماتے رہے ''یا ابا عمیر ما فعل النغیر‘‘ یعنی اے ابو عمیر تیری چڑیا نے کیا کیا۔ آخر کار ننھا ابوعمیر آنحضورﷺ کی دل جوئی سے ہنسنے لگا اور اس کا غم دور ہو گیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں