حب رسولﷺ اصلِ ایمان!

صحابہ کرام نے ایمان لانے کے بعد ایمان کے تقاضوں کو پورا کیا۔ حضور اکرمﷺ کی ذات اور ناموسِ رسالت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کی مثالیں قائم کیں۔ ان میں سے ایک ایمان افروز واقعہ حضرت حبیبؓ بن زید انصاری کا ہے۔ انہیں نجد کے علاقے میں سفر کے دوران مسیلمہ کذاب نے پکڑ لیا اور ان سے پوچھا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر اس نے پوچھا: کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس پر انہوں نے انکار کر دیا اور اسے جھوٹا قرار دیا۔ اُس نے کہا ''میں تمہارا ہاتھ کاٹ دوں گا‘‘۔ پھر اس بدبخت نے عملاً ان کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اب بھی اس کے سوال کے جواب میں انہوں نے اسے جھوٹا قرار دیا۔ پھر ان کا پائوں کاٹ دیا گیا۔ یوں ایک ایک عضو کاٹ کر انہیں شہید کیا گیا۔
آفرین ہے ختم نبوت کے اس حقیقی پروانے پر کہ اس کے عضو ایک ایک کر کے کٹتے رہے مگر پھر بھی وہ ختم نبوت کی گواہی دیتا رہا یہاں تک کہ اسے شہید کر دیا گیا۔ حضرت حبیبؓ مشہور صحابیہ، خاتون احد حضرت نُسَیْبَہؓ بنت کعب نجاریہ کے لخت جگر تھے۔ وہ ام عمارہؓ کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہیں۔ قبیلہ بنو نجار کا بڑا مقام اور عظیم مرتبہ ہے۔ آنحضورﷺ نے بچپن میں اپنی والدہ کے ساتھ مدینہ منورہ میں ایک مہینہ تک اسی خاندان میں قیام فرمایا تھا۔ آپﷺ بچپن کے ان واقعات کو یاد فرمایا کرتے تھے۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں آپﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مہمان تھے۔ ان کا تعلق بھی قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار ہی سے تھا۔
حضرت حبیبؓ بن زید نے جس ماں کی آغوش میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی‘ وہ تاریخ کی عظیم ترین خاتون ہیں۔ یہ وہ خاتون ہیں جو یثرب سے مکہ جا کر آنحضورﷺ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ بنو نجار قبیلہ خزرج کے اہم خاندانوں میں سے ہے۔ یہ آنحضورﷺ کے دادا جناب عبدالمطلب کے ننھیال ہیں۔ اسی وجہ سے آنحضورﷺ انہیں اپنے ماموں کہا کرتے تھے۔ اس خاندان سے آنحضورﷺ کو خصوصی محبت اور تعلق خاطر تھا۔
تاریخ اسلام میں مجاہدین پر مشکل ترین مرحلے آتے رہے ہیں۔ ان میں ایک نہایت سخت مرحلہ احد کے میدان میں آیا، جب فتح شکست میں بدل گئی اور کافروں نے آنحضورﷺ کا گھیرائو کر لیا۔ ان مشکل گھڑیوں میں جو صحابہؓ ثابت قدم رہے ان میں ایک تابناک کردار ام عمارہؓ کا بھی ہے۔ غزوہ احد پر قرآن کا تبصرہ ہے کہ آنحضورﷺ مشکل لمحات میں میدان سے بھاگے نہیں بلکہ ڈٹے رہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ احد کے میدان میں میں نے دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے جدھر بھی نظر ڈالی‘ مجھے ام عمارہؓ دشمن سے برسرِ پیکار نظر آئیں۔ آپﷺ نے فرمایا ''اُمِّ عمارہؓ خاتونِ احد ہے‘‘۔ جب آنحضورﷺ پر گھیرا تنگ کر کے دشمن نے بہت قریب سے حملے شروع کیے تو ایک پتھر لگنے سے آنحضورﷺ کے دندان مبارک شہید ہو گئے۔ ابن قمیہ نے آنحضورﷺ پر تلوار سے حملہ کیا جس سے آپﷺ کے خود کی کڑیاں آپﷺ کی پیشانی مبارک میں گھس گئیں۔ ابن قمیہ ہی نے اس حملے کے بعد یہ افواہ پھیلائی تھی کہ اس نے آنحضورﷺ کو شہید کر دیا ہے۔ (العیاذ باللہ)
اس موقع پر اُمِّ عمارہؓ نے ابن قمیہ پر بڑی دلیری کے ساتھ حملہ کیا۔ اسی کش مکش میں ان کے کندھے پر گہرا زخم بھی آیا۔ جب ان کے زخم سے خون بہنے لگا تو آنحضورﷺ نے فوری طور پر اس پر پٹی بندھوائی اور اُمِّ عمارہؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: آج اُمِّ عمارہؓ نے سب بہادروں سے زیادہ بہادری دکھائی ہے۔ ابنِ قمیہ ان سے خوف کھا کر بھاگ گیا تھا۔ اُمِّ عمارہؓ نے زخمی ہونے کے وقت آنحضورﷺ سے عرض کیا: ''یا رسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان! میں آپﷺ سے اس دعا کی درخواست کرتی ہوں کہ مجھے اور میرے اہل و عیال کو جنت میں بھی آپ کا ساتھ نصیب ہو‘‘۔ اسی لمحے آپﷺ نے ان کی اس آرزو کی تکمیل کے لیے دعاکی ''اے اللہ! ام عمارہ اور اس کے اہل و عیال کو جنت میں میرے ساتھ رکھنا‘‘۔ یہ دعائیہ الفاظ سننا تھاکہ صحابیہؓ خوشی سے جھوم اٹھیں اور کہا کہ یہ نعمت عطا ہو جائے تو دنیا کی کسی مصیبت اور تکلیف کی پروا نہیں۔
احد کی ان نازک گھڑیوں میں اُمِّ عمارہؓ اور ان کے بہادر بیٹے عبداللہؓ بن زید جس بہادری سے لڑے وہ جنگوں کی تاریخ میں منفرد مثال ہے۔ آنحضورﷺ دونوں ماں بیٹے کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔ دونوں جنگ میں زخمی ہوئے اور انہوں نے کئی دشمنوں کو تہِ تیغ بھی کیا۔ ایک شہسوار کو اُمِّ عمارہؓ نے اپنی تلوار سے زخمی کر کے گھوڑے سمیت زمین پر گرا دیا۔ ان کے بیٹے عبداللہؓ نے اس دشمن کو قتل کیا، جس مشرک نے حضرت عبداللہؓ کو زخمی کیا تھا وہ گھوڑے پر سوار تھا۔ اسے بھی اُمِّ عمارہؓ نے جہنم واصل کر دیا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا ''اُمِّ عمارہؓ تم نے اپنے بیٹے کا بدلہ لینے کا حق ادا کر دیا‘‘۔
حضرت اُمِّ عمارہؓ نے حضرت ابو بکرؓ کے دورِ خلافت میں بھی جہاد میں شرکت کی۔ خلافت صدیقیؓ میں سب سے اہم معرکہ مسیلمہ کذاب کے مقابلے پر لڑا گیا۔ اس میں اسلامی فوجوں کے سپہ سالار حضرت خالدؓ بن ولید تھے۔ اس جہاد میں حضرت اُمِّ عمارہؓ اور ان کے بیٹے حضرت عبداللہؓ بھی شریک ہوئے۔ مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیبؓ بن زید کے ساتھ جو سلوک کیا تھا‘ اس کا تذکرہ ہو چکا۔ یہ دونوں ماں بیٹا اپنے شہید کا بدلہ بھی لینا چاہتے تھے اور جھوٹے مدعی نبوت کو قتل کر کے ناموس رسالت کا دفاع بھی کرنا چاہتے تھے۔ مسیلمہ کذاب قلعہ بند تھا۔ آخر حضرت برأ بن مالک رضی اللہ عنہ نے فصیل پھاند کر دروازہ کھولا تو فوج قَلعے میں داخل ہو گئی۔ سب سے پہلے اُمِّ عمارہؓ نے اپنی برچھی سے مسیلمہ کذاب پر حملہ کیا جو گھوڑے پر سوار تھا۔ عین اسی لمحے مسیلمہ پر دو اور وار بھی ہوئے۔ ایک حضرت عبداللہؓ بن زید کی تلوار تھی اور دوسرے حضرت وحشیؓ (جنہوں نے احد میں حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا ) کا مشہور حربہ تھا جو انہوں نے فاصلے سے نشانے پر پھینکا اور وہ مسیلمہ کا کلیجہ چیرتا ہوا جسم میں پیوست ہو گیا۔ مسیلمہ کذاب کی قوم بنو حنیفہ اگرچہ ڈٹ کر لڑی مگر اس کذاب کے قتل پر ان کے حوصلے پست ہو گئے۔
اس جنگ میں حضرت اُمِّ عمارہؓ کا ایک ہاتھ کلائی سے کٹ گیا تھا۔ وہ اپنے اس شہید ہاتھ کا تذکرہ کر کے ہمیشہ سجدۂ شکر بجا لاتی تھیں کہ ان کے بیٹے کے علاوہ ان کے جسم کا یہ حصہ جنت میں جا چکا ہے۔ سپہ سالارِ لشکر حضرت خالدؓ بن ولیداور دیگر صحابہؓ جانتے تھے کہ اُمِّ عمارہؓ خاتونِ احد ہیں اور ان کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ حضرت خالدؓ نے جس والہانہ انداز میں ان کے علاج معالجہ کی کوشش کی اس کے خوش گوار تاثرات کا تذکرہ حضرت اُمِّ عمارہؓ آخری دم تک لوگوں کے سامنے کرتی رہیں۔ آخری زندگی میں ام عمارہؓ اپنے گھر میں مقیم ہو گئیں اور سارا وقت عبادت اور تلاوت قرآن میں صرف کرنے لگیں۔ آنحضورﷺ اپنی زندگی میں ان کے گھر کئی بار تشریف لے جایا کرتے تھے۔ حضرات ابو بکرؓ و عمرؓ نے بھی اپنے ادوارِ خلافت میں اتباعِ سنت کرتے ہوئے یہی معمول رکھا۔
فتح ایران کے بعد مدینہ میں جو مال غنیمت پہنچا اس میں ملکہ ایران کی ایک نہایت قیمتی اور نایاب چادر بھی تھی۔ حضرت عمرؓ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کہ یہ چادر کس کو دی جائے تو کچھ لوگوں نے کہاکہ اپنی بیوی اُمِّ کلثوم بنت علیؓ کو دے دیں جبکہ بعض دیگر نے رائے دی کہ اپنی بہو‘ عبداللہ بن عمرؓ کی بیوی کو دے دیں۔ امیر المومنینؓ نے فرمایا کہ میں یہ چادر اس کو دوں گا جو اس کا زیادہ استحقاق رکھتی ہے۔ پھر کبار صحابہؓ کو ساتھ لیا اور مدینہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے حضرت اُمِّ عمارہؓ کے گھر پہنچے اور ان سے کہا: ''آپ خاتونِ احد ہیں اور آپؓ نے اپنی جان پر کھیل کر اُس روز رسول اللہﷺ کا دفاع کیا تھا، میں یہ چادر آپؓ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں‘‘۔
حضرت اُمِّ عمارہؓ کے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے۔ سبھی درجۂ صحابیتؓ پر فائز تھے۔ حضرت عبداللہؓ اور حضرت حبیبؓ ان کے پہلے خاوند حضرت زیدؓ بن عاصم کی اولاد ہیں جبکہ ان کے بیٹے تمیمؓ اور بیٹی خولہؓ دوسرے خاوند حضرت عربہؓ بن عمرو سے پیدا ہوئے۔ ام عمارہ کے حالات میں حبِّ الٰہی اور حبِّ رسولﷺ کی شان بھی نظر آتی ہے اور جذبۂ جہاد و شوقِ شہادت کی خوب صورت تصویر بھی نمایاں ہوتی ہے۔ ختم ِ نبوت مومنین کا اساسی عقیدہ ہے اور ناموسِ رسالت پر پروانہ وار قربان ہو جانا اہلِ وفا کا شیوہ ہے۔ مدینہ کی اسلامی ریاست پیغام دیتی ہے کہ محسنین کی قدرکی جاتی ہے اور غلط بخشی کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ زندہ قومیں اپنے محسنین کو عزت و توقیر کا مقام دیتی ہیں اور صحت مند معاشرے اپنی بنیادی اقدار کے محافظ ہوتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ کا مثالی دورِ خلافت پوری انسانیت کے لیے راہ نما ہے۔ بدقسمتی سے ہم ہیروں کی قدر وقیمت سے بے خبر ہو گئے ہیں اور خزف ریزوں کی ملمع کاری کے سحر سے مسحور ہیں۔ ہماری قوت کا راز اپنی اصل سے جڑ جانے میں پنہاں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں