متلاشی حق!

بنومزینہ میں ایک یتیم بچہ تھا۔ اس کی والدہ نے اسے پالا پوسا۔ جب ذرا بڑا ہوا تو چچا نے اسے بکریوں اور اونٹوں کے چرانے پر لگا دیا۔ ایک بکری اس کے نام کر دی۔ اس میں اللہ نے بڑی برکت دی، جس سے ایک اچھا خاصا گلہ بن گیا۔ اس عرصے میں اللہ نے حضور پاکﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت و تبلیغ کی شہرت بہت جلد دُور دُور تک پھیل گئی تھی۔ مکہ میں جو قافلے حج یا تجارت کی غرض سے آتے تھے‘ حضورﷺ ان کے سامنے توحید کا پیغام پیش فرماتے۔ مکہ اور اس کے گردونواح کے اجتماعات تبلیغِ اسلام کا ایک بہترین ذریعہ بن گئے تھے۔ سوقِ عکاظ میں عرب کا سب سے عظیم الشان میلہ لگتا تھا۔ جس میں پورے عرب سے لوگ شامل ہوتے تھے۔ اس میں حضورِ اکرمﷺ پیغامِ حق لوگوں کو سناتے تھے۔
آپﷺ کا چچا ابولہب آپﷺ کے پیچھے لگا رہتا۔ جوں ہی آپﷺ بات کرنے کی کوشش کرتے، ابولہب مٹی کی مٹھی بھر کردے مارتا اور کہتا ''لوگو! اس کی بات نہ سننا یہ مجنون ہے‘‘۔ (معاذ اللہ) بہرحال آپﷺ کی دعوت سُن کر لوگ واپس جاتے تو تمام قبائل کی محفلوں میں یہ دعوت موضوعِ بحث بنی رہتی۔ اس طرح بے شمار پرستارانِ حق غائبانہ طور پر اسلام کی طرف راغب ہو چکے تھے۔ بنو مزینہ کا نوخیزہیرا، عبدالعزیٰ بھی انہی متلاشیانِ حق میں سے تھا۔
عبدالعزیٰ دل سے توحید کا قائل ہو گیا تھا‘ اسے اس پیغام کی حقانیت میں کسی قسم کا شک نہ تھا جو رسولِ برحقﷺ نے پیش کیا تھا۔ وہ مسلمان تو ہو چکا تھا لیکن ابھی تک اس نے اپنے آپ کو ظاہر نہ کیا تھا۔ جب مکہ فتح ہو گیا تو عرب کے تمام قبائل جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اس قدر قبائل وفد بنا کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا کہ اس سال کو ''عام الوفود‘‘ یعنی وفود کا سال کہا جانے لگا۔ عبدالعزیٰ کا خیال تھا کہ اب تو اس کا چچا بھی مدینہ جا کر اسلام قبول کرے گا۔ پھر اسے بھی قبولِ اسلام کا موقع مل جائے گا لیکن اس کے چچا پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ بدستور دولت کمانے اور اونٹوں کی تعداد بڑھانے میں مصروف تھا۔
انتظار کرتے کرتے عبدالعزیٰ تھک گیا۔ آخر وہ اپنے چچا کے پاس گیا اور اس سے کھل کر اپنا مدعا بیان کر دیا۔ اپنے باپ کی وفات کے بعد عبدالعزیٰ اپنے چچا کو اپنا محسن سمجھتا تھا۔ اس نے عمر بھر اپنے چچا کے سامنے کبھی اونچی بات نہ کی تھی اور نہ کبھی اس کی کسی بات سے اختلاف کیا تھا مگر اب ایک موڑ ایسا آ گیا تھا جہاں سے دونوں کی راہیں الگ الگ ہونے والی تھیں۔ اب حق کی بات دبائے نہ دبتی تھی‘ دل میں ایک آگ لگی ہوئی تھی اور اس کے شعلے اب چھپائے نہ چھپ سکتے تھے۔ ؎
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی!
عبدالعزیٰ نے اپنے چچا سے کہا ''پیارے چچا! میں مدتوں سے اسلام کی تڑپ دل میں لیے ہوئے ہوں‘ میں ہمیشہ آپ کے فیصلوں کا پابند رہا ہوں۔ اب بھی آپ کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ کب آپ اسلام قبول کرتے ہیں۔ اب بے تاب ہو گیا ہوں‘ آپ نہیں معلوم اسلام قبول کرتے ہیں یا نہیں‘ مجھے تو اپنی عمر کا کوئی بھروسہ نہیں‘ میں اجازت چاہتا ہوں کہ اسلام قبول کر لوں‘‘۔
چچا نے فرماں بردار بھتیجے کی یہ گفتگو سُنی تو بہت غصے ہوا اور کہا ''خبردار! اگر تو نے محمد (ﷺ) کا دین اختیار کر لیا تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا۔‘‘ یہ سُن کر عبدالعزیٰ نے فوراً جواب دیا ''مجھے مال و دولت کی ہرگز پروا نہیں۔ میں ضرور اسلام قبول کروں گا۔ میں شرک اور بُت پرستی سے سخت متنفر ہوں۔ آپ یہ سارا زرومال سنبھالیے، مجھے یقین ہے کہ یہ سب کچھ یہیں دھرا رہ جائے گا۔ لہٰذا میں دنیا کے لیے دین کو ترک نہیں کر سکتا‘‘۔
چچا نے کہا ''اچھا یہ بات ہے تو پھر کپڑے اور جوتے بھی اُتار دو اور یہاں سے چلے جائو۔‘‘ عبدالعزیٰ نے کپڑے اُتار پھینکے۔ اس کی ماں نے اسے اس حال میں دیکھا تو سخت پریشان ہوئی۔ عبدالعزیٰ ایک کونے میں دیوار کی طرف منہ کر کے دب کر بیٹھ گیا۔ اس کی ماں نے اسے ایک کمبل دیا‘ مردِحق آگاہ نے وہ کمبل بدن کے گرد لپیٹ لیا۔ ماں نے پوچھا ''یہ تم کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘ بیٹے نے کہا ''میں مسلمان ہو گیا ہوں‘ چچا نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا ہے‘ میں اب مدینے جا رہا ہوں جہاں میرا اَن دیکھا محبوب جلوہ افروز ہے‘‘۔ یہ کہہ کر عبدالعزیٰ وہاں سے رخصت ہوا۔ اب اس کی منزل مدینہ تھی۔
مردِ درویش نے کمبل کے دو ٹکڑے بنا لیے تھے۔ ایک تہبند کے طور پر باندھ لیا اور دوسرا جسم پر تھا اور اس شان سے وہ منزل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ قبولِ حق کے راستے میں بڑی مشکلات آیا کرتی ہیں‘ حبِ مال و دولت اور ہوسِ زر انسان کے قدم باندھنے کی کوشش کرتی ہے تو کمزور انسان حق سے منہ موڑ لیتا ہے۔ ایسا شخص دنیا کی نگاہ میں لاکھ زیرک اور فہیم سہی لیکن فی الحقیقت پرلے درجے کا بے وقوف ہوتا ہے۔ وہ متاعِ حقیر کی خاطر نجاتِ ابدی قربان کر دیتا ہے۔ قبولِ حق کی راہ میں عزیز و اقارب اور برادری کی محبت بھی روڑا بنتی ہے اور بسا اوقات دامنِ دل کھینچ لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور آدمی حقیقت جان لینے کے باوجود تاریکی میں ہی رہتا ہے۔
عبدالعزیٰ کے سامنے بھی رکاوٹیں پورے زورشور کے ساتھ آئیں لیکن اس نے ان کو ایک ضربِ مجاہدانہ سے پاش پاش کر دیا۔ وہ چچا کی ازحد عزت کرتا تھا لیکن جب چچا اسلام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے پر مصر ہوا تو اس نے چچا کو بھی چھوڑ دیا۔ مدینہ کی راہ تھی اور مسافر کے تیزی سے بڑھتے ہوئے قدم‘ وہ جانب منزل رواں دواں تھا۔ ایک روز سحری سے قبل وہ مدینے میں داخل ہوا‘ مسجد نبوی کی ایک دیوار سے تکیہ لگایا اور سو گیا۔ حضورِ اکرمﷺ مسجد میں داخل ہوئے تو پوچھا '' من انت یا ذالبجادین؟‘‘ (دو کمبلوں والے تم کون ہو؟) جواب دیا ''میں ایک غریب الدیار مسافر ہوں‘ میرا نام عبدالعزیٰ ہے۔‘‘ پھر اپنی داستان سنائی۔ آپﷺ نے فرمایا ''تمہارا نام آج سے عبداللہ ہے اور تمہارا لقب ذوالبجادین (یعنی دو کمبلوں والا) ہے۔ تم طالبِ حق ہو اور ہمارے مہمان ہو اور یہیں ہمارے قریب رہو‘‘۔ فجر کی نماز کے بعد آپﷺ نے صحابہ سے کہا کہ اپنے نووارد بھائی کی ایمان افروز داستان سنو۔
عبدالعزیٰ عبداللہؓ بنے اور یوں سب کچھ چھوڑ کر آنے والے کو ہادیٔ برحق کا مہمان بننے کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے اصحابِ صفہ کے ساتھ مسجد نبوی میں رہائش اختیار کر لی۔ اب وہ دن رات قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ اصحابِ صفہ تاریخِ اسلام میں بہت پائے کے لوگ ہیں۔ صفہ عربی میں چبوترے کو کہا جاتا ہے۔ مسجد نبوی میں ایک چبوترہ بنا ہوا تھا۔ اس پر حضورِ اکرمﷺ کے وہ صحابہ کرامؓ مقیم تھے جن کا کوئی گھر بار نہ تھا اور جن کی زندگی تعلیماتِ اسلامیہ سیکھنے کے لیے وقف تھی۔ حضورِ اکرمﷺ نے غزوۂ تبوک کی تیاری کا اعلان کیا تو عبداللہؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ''یارسول اللہﷺ! مجھے جہاد پر لے چلیں، میرے پاس تو سواری نہیں ہے۔ آپﷺ نے ان کی درخواست مان لی۔
انہوں نے عرض کیا: حضورﷺ دعا فرمایئے‘ میں راہِ خدا میں شہادت پائوں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ''جائو کسی درخت کا چھلکا اُتار لائو‘‘۔ جب وہ چھلکا اُتار کر لائے تو آپﷺ نے ان کے بازو پر باندھ دیا اور کہا ''الٰہی! میں اس کا خون کفار پر حرام کرتا ہوں‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ''یارسول اللہﷺ! میں تو شہادت کا طلب گار ہوں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ''جب تم جہاد کی نیت سے نکلو اور بخار میں مبتلا ہو کر یا کسی وجہ سے مر جائو تو تم شہید ہو اور اللہ کے ہاں تمہارا اجر مقدر ہے‘‘۔ تبوک پہنچ کر بالکل یہی ہوا۔ حضرت عبداللہؓ بخار میں مبتلا ہوئے اور دنیا سے رحلت فرما گئے۔
حضرت عبداللہؓ ابن مسعود اور حضرت بلالؓ بن حارث مزنی نے تدفین کی کیفیت اپنے اپنے انداز میں بیان کی ہے۔ حضرت عبداللہؓ ابن مسعود کا کہنا ہے کہ رات کی تاریکی میں میں نے روشنی دیکھی۔ خیمے سے نکل کر روشنی کی طرف گیا۔ میں نے دیکھا کہ بلالؓ کے ہاتھ میں شمع ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ کیا رومیوں کی فوج آ گئی ہے؟ انہوں نے کہا ''اس سے بڑی بات ہو گئی ہے۔ عبداللہ ذوالبجادین فوت ہو گئے ہیں‘‘۔ میں جلدی سے تیار ہو کر نکلا۔ حضورِ اکرمﷺ نے جنازہ پڑھایا اور پھر آپﷺ قبر کے کنارے کھڑے تھے اور ابوبکر صدیقؓ وحضرت عمر ؓ قبر میں اُتر کر اپنے شہید بھائی کی لاش قبر میں اُتار رہے تھے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑی محبت سے کہہ رہے تھے: ادبا الی اخیکما اکرما اخاکما۔ ''اپنے بھائی کا ادب ملحوظ رکھو‘ اپنے بھائی کا احترام ملحوظ رکھو‘‘۔ پھر آپﷺ نے دعا فرمائی ''اے باری تعالیٰ! میں آج شام اس سے راضی تھا‘ پس تو بھی اس سے راضی ہو جا‘‘۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے یہ قابلِ رشک منظر دیکھا تو کہا ''کاش! اس قبر میں آج مجھے دفن کیا جا رہا ہوتا‘‘۔ پھر زندگی بھر آپؓ اس منظر کو یاد کر کے اشک بار ہو جاتے اور حضرت ذوالبجادین پر رشک کرتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں