اعمالِ مومنین در ماہِ مبارک!

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ عربی زبان کے اس لفظ کے مفہوم میں سلامتی بھی شامل ہے اور سرتسلیم خم کر دینا یعنی خود سپردگی بھی اس کا ایک معنی ہے۔ اسلام کی ایک اور تعریف جو اپنی معنویت کے لحاظ سے بہت جامع ہے، یوں کی جاتی ہے ''اسلام عبادات اور معاملات کا مجموعہ ہے‘‘۔ یعنی اسلام میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دو اہم ترین شعبے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان توازن بھی اسلام کے حسن کو نمایاں کرتا ہے۔ روزے میں ان دونوں پہلوئوں کی نمائندگی ہے۔ اللہ سے تعلق روزے کا منشا ہے اور محروم طبقات کی بھوک، احتیاج اور مشکلات کا احساس اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی روزے کا لازمی تقاضا ہے۔ اسلام میں افراط و تفریط کو غیر پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ رمضان کے روزے تو فرض ہیں، نفلی روزوں میں اعتدال کا حکم دیا گیا ہے۔
ماہِ رمضان میں سب سے اچھا عمل روزے کی حالت میں بھی اور افطار کے بعد بھی تلاوت قرآن مجید ہے۔ ماہِ رمضان میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جبریلؑ کے ساتھ قرآن مجیدکا دور کیاکرتے تھے۔ قرآن کو حفظ کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ جتنے حصے یاد ہو جائیں سینے کے نور، دل کی بہار اور قرار، غموں سے نجات اور پریشانیوں سے خلاصی کا ذریعہ بنیں گے۔ قرآن مجید کو مستند تفاسیر سے سمجھ کر پڑھنا زیادہ مفید ہوتا ہے۔ اعتکاف کے دوران تو بالخصوص مطالعۂ قرآن وحدیث کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ سیرت رسولِ رحمتﷺ اور سیرت صحابہ کرامؓ بھی اس موسمِ بہار میں بہترین زادِ سفر ہیں۔ اس عمل سے دلوں کا زنگ اتر جاتا ہے۔
رمضان کے دوران ایک اہم ترین عبادت اعتکاف ہے۔ اعتکاف میں تو بندہ اپنے مالک کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے۔ اسلام میں جتنی عبادات ہیں وہ انسان کی زندگی کا تزکیہ کرنے، اس کی سوچ کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنے اور اس کے قدموں کو طے شدہ منہج پر چلانے کا ذریعہ ہیں۔ اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جس میں ایک محدود مدت کے لیے بندہ دنیوی مصروفیات سے وقت نکال کر مکمل طور پر خود کواللہ کی عبادت، اپنی اصلاح اور فکر آخرت میں مشغول کر لیتا ہے۔ اعتکاف کے دوران لیلۃ القدر کی تلاش اور اس کے ذریعے اللہ کی رضا بندۂ مومن کا مطمحِ نظر ہوتا ہے۔ اعتکاف کا لفظی معنی خود کو روکے رکھنا، کسی چیز کو مضبوطی سے قائم رکھنا اور کسی مقصد سے مکمل وابستگی اختیار کرنا ہے۔
اعتکاف پر عمل پیرا ہونے کا بہت زیادہ اجر ہے۔ اعتکاف کے دوران ایک مومن مسجد میں ٹھہرا رہتا ہے اور اللہ سے لو لگائے اس بات کا ہر لمحے بزبانِ حال اعلان کرتا ہے کہ اس نے خواہشات نفس کی اکساہٹوں کو روک دیا ہے اور اللہ سے مضبوط تعلق قائم کر لیا ہے۔ روزے کے دوران صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک مومن خود کو کھانے پینے اور جسمانی تعلقات سے روکے رکھتا ہے۔ روزہ افطار ہونے کے وقت سے لے کر اگلی صبح صادق تک وہ کھانے پینے اور اپنی شریکِ حیات سے تعلقاتِ زن و شوہر قائم کرنے میں آزاد ہوتاہے مگر اعتکاف کے دوران دن اور رات کے کسی بھی حصے میں تعلقات قائم کرنا حرام قرار پاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اسے 'تبتل‘ کے جامع لفظ سے واضح کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس لفظ 'تبتل‘ کا مکمل مفہوم تو کسی دوسری زبان میں ایک لفظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا مگر تفہیم کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ سب سے کٹ کر ایک (اللہ) کا ہو رہنا۔ اس لحاظ سے اعتکاف تبتل کا بہترین مظہر ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعتکاف کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے اور مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اس پر عمل کیا ہے۔ سید مودودیؒ تحریر فرماتے ہیں: ''نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد میں قیام فرماتے تھے اور آپﷺ کا یہ معمول عمر بھر رہا۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد آپﷺ کا وہ معمول ہے جو مدینہ طیبہ میں رہا کیونکہ رمضان کے روزوں کاحکم مدینہ طیبہ میں آیا تھا۔ دوسرے یہ کہ مکہ میں اس وقت تک سرے سے کوئی مسجد ہی نہ تھی اور مسجد حرام (خانہ کعبہ) میں اعتکاف کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ اس لیے اس سے مراد یہی ہے کہ قیامِ مدینہ طیبہ میں آخر وقت تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول رہا کہ آپﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ (کتاب الصوم، ص: 267 تا 268)
یہ اس حدیث کی تشریح ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی اور متفق علیہ ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کی حکمتوں میں سے ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ قرآن مجید کی سورۃ القدر کے مطابق رمضان میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا تھا اور ہر سال جب یہ رات آتی ہے تو جبریلِ امین اللہ کی رحمتیں لے کر فرشتوں کے جھرمٹ میں آسمان سے زمین پر اترتے ہیں۔ اس رات کو عبادت میں مصروف اہل ایمان کو رحمتِ خداوندی میں سے وافر حصہ عطا ہوتا ہے اور وہ دوزخ سے خلاصی پاتے اور جنت کے مستحق بن جاتے ہیں۔ اعتکاف میں اس رات کو تلاش کیا جاتا ہے۔
لیلۃ القدر: لیلۃ القدر کے بارے میں سیدہ عائشہؓ کی روایت ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں بالخصوص طاق راتوں (یعنی 21، 23، 25، 27 اور 29) میں تلاش کرو‘‘ (بحوالہ بخاری)۔ لیلۃ القدر کے بارے میں یہ روایت بھی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے اس رات کے بارے میں بتا دیا گیا تھا مگر پھر وہ علم واپس لے لیا گیا۔ غالباً اس کی حکمت یہ ہو گی کہ لوگ ایک ہی رات پر تکیہ کرنے کے بجائے پورے رمضان اور بالخصوص آخری عشرے میں زیادہ سے زیادہ ذوق وشوق کے ساتھ خود کو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کر دیں۔ جس حدیث کا اوپر ہم نے ذکر کیا ہے، وہ بھی صحیح بخاری میں حضرت عبادہؓ بن صامت کی زبانی نقل کی گئی ہے ۔ اس حدیث کے الفاظ کا ترجمہ ذیل میں درج ہے:
''حضرت عبادہؓ بن صامت سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ نبوی سے (یا اپنے خانۂ مبارک سے) نکلے تاکہ ہمیں لیلۃ القدر کی خبر دیں۔ اتنے میں دو مسلمان آپس میں جھگڑنے لگے۔ اس پر آپﷺ نے ہم سے فرمایا کہ میں تو تمہیں لیلۃ القدر کی خبر دینے نکلا تھا مگر فلاں اور فلاں آپس میں جھگڑ پڑے اور اس دوران وہ اٹھا لی گئی (اس کا علم مجھ سے رفع کر لیا گیا)۔ شاید تمھاری بھلائی اسی میں تھی لہٰذا اب تم اسے اکیسیوں یا تئیسویں یا پچیسویں رات کو تلاش کرو‘‘۔
سید مودودیؒ لیلۃالقدر کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: ''اس رات کے متعلق جتنی احادیث گزری ہیں ان سب پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ کوئی خاص حکمت اور مصلحت ہے کہ لیلۃ القدر حتمی طور پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں بتائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات پر مامور نہیں کیا کہ آپ لوگوں کو یہ بتائیں کہ فلاں رات لیلۃ القدر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ جو بات بتانے کی اجازت دی گئی وہ یہ ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے اور تم طاق راتوں میں اسے تلاش کرو۔ اس حدیث میں طاق راتوں میں سے بھی تین کا ذکرکیا گیا ہے، یعنی21، 23 اور 25۔ بعض روایات میں اکیس سے انتیس تک کی طاق راتیں ہیں اور بعض روایات میں آخری سات دنوں کی راتیں ہیں۔ احادیث کی روایت کرتے وقت چونکہ یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کون سی حدیث کس تاریخ کی ہے اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ کون سی حدیث ابتدائی دور کی ہے اور کون سی بعد کے دور کی۔ علمائے امت میں جو بات معروف ہے وہ یہی ہے کہ لیلۃ القدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے‘‘۔ (کتاب الصوم،ص: 264 تا 265)
بعض احادیث میں تئیسویں اور ستائیسویں رات میں لیلۃ القدر کا احتمال بھی بیان کیا گیا ہے۔ اسی لیے لوگ ان راتوں بالخصوص ستائیس کو بطور لیلۃ القدر مناتے ہیں۔ دراصل جشن منانے اور روایتی انداز کے جوش و خروش سے وہ حقیقی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جس کے لیے لیلۃ القدر کا تحفہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو عطا فرمایا۔ اس کا درست اور مناسب طریقہ یہ ہے کہ اہل ایمان خود کو تلاوت و عبادت، ذکر و فکر اور نوافل، غور وفکر، خوداحتسابی اور قیام اللیل کے ذریعے اللہ کے تقرب کا مستحق بنائیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ مبارک یہی تھا۔
لیلۃ القدر کی دعا: اگر کسی شخص کو لیلۃ القدر نصیب ہو جائے تو اس کی خوش بختی میں کوئی شک و شبہ نہیں، مومن کو ہر دعا پورے یقین کے ساتھ مانگنی چاہیے اور ہر عبادت پورے خلوص اور حضوریٔ قلب کے ساتھ حضورِ حق میں پیش کرنی چاہیے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو مجھے اس میں کیا کہنا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دعا مانگنی چاہیے ''اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی‘‘ اے میرے مولا تو بڑا معاف کرنے والا ہے، تُو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے، پس مجھے (بھی) معاف فرما دے۔ (بحوالہ مسند احمد، ابن ماجہ، جامع ترمذی)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں