ماہِ جون میں جماعت اسلامی کے دو سابق امرا اور اولیائے کامل میاں طفیل محمدؒ اور سید منور حسنؒ کی وفات کے سانحات پیش آئے۔ میاں صاحب 25 جون 2009ء کو اور سید صاحب 26 جون 2020ء کو منزل سے ہم کنار ہوئے۔ میاں صاحب کے حالات ہم نے اپنی کتاب ''عزیمت کے راہی‘‘ جلد سوم میں تفصیلاً لکھے ہیں‘ ایک واقعے کا یہاں بھی ذکر ہو جائے۔ ایک مرتبہ جھنگ کے دورے کے دوران اجتماعِ ارکان میں بعض جوشیلے رفقا نے امیر جماعت میاں صاحب سے پوچھا کہ اسلامی انقلاب کیوں نہیں آ رہا ؟ ان احباب کا کہنا تھا کہ جب تک کامیابی نہ ملے لوگ فوج در فوج دین میں داخل نہیں ہوا کرتے، اس لیے جو بھی طریقہ اپنانا پڑے ‘ بہرحال انقلاب لانا چاہیے۔ میاں صاحب تحمل کے ساتھ جماعت کی دعوت اور دستور کی روشنی میں جواب دیتے رہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے انبیا کو بھی بات پہنچانے کی ذمہ داری سونپی ہے، لوگوں سے زبردستی قبولیتِ ایمان کا مکلف نہیں ٹھہرایا، نہ ہی زبردستی کسی سے کوئی بات قبول کرائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے مؤثر اور مسلسل دعوت ‘ باہمی ربط اور ذاتی تعلق ضروری ہے۔ یہ کام تو آپ لوگ کرتے نہیں اور عجلت کے ساتھ کامیابی کے متمنی ہیں۔ سید مرحوم کے حالات زیر طبع کتاب ''عزیمت کے راہی‘‘ جلد ہشتم میں تفصیل کے ساتھ محفوظ کیے گئے ہیں۔ آج سید صاحب کے حالات کا مختصر تذکرہ نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔
ایک سال بیت گیا جب یہ کوکبِ درخشاں افقِ عالم سے غروب ہو کر عالمِ جاودانی میں جا چمکا۔ آہ! میرے یارِ حمیم، میرے مرشد و مربی، تیری یادوں کے دریچے کھلے ہیں اور نور کی کرنیں دل کو منور کر رہی ہیں۔ بے ساختہ یاد آ رہا ہے وہ نعرہ جو تیرے دیوانے لگایا کرتے تھے ''صبح منور، شام منور، روشن تیرا نام منور!‘‘ دنیا میں جو بھی آیا ہے اسے چلے جانا ہے۔ خوش نصیب ہے وہ مسافر جو ہلکی پھلکی زندگی گزارے۔ اپنے ساتھ بھاری بھر کم بوجھ اٹھائے بغیر اپنی منزل سے ہمکنار ہو جائے۔ یہ خوش نصیب لوگ ہر دور میں دنیا میں پائے جاتے ہیں، مگر بہت قلیل ۔ جو محاورہ ہے ''آٹے میں نمک‘‘ یہ عظیم لوگ اس سے بھی کم ہوتے ہیں۔ حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے کہ اے اہل دنیا! ان اللہ والوں کی بدولت تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور انہی کی بدولت بارانِ رحمت نازل ہوتی ہے۔ یہ اللہ کے نام کی قسم کھا لیں تو اللہ انہیں جھوٹا نہیں ہونے دیتا۔ یہی شان تھی میرے یارِ حمیم کی!
خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دلِ بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ دل نواز
عالمی شہرت رکھنے والی اس شخصیت نے دنیا کو کبھی اپنے دل میں بسنے نہیں دیا۔ وہ دنیا کا راکب تھا مرکب نہیں۔ پانچ مرلے کے مکان میں پورے سکون اور مکمل اطمینانِ قلب کے ساتھ زندگی کے شب و روز بسر کیے۔ اس مکان سے پہلے اپنا خاندانی گھر سب بہن بھائیوں نے مشورے سے فروخت کر دیا اور اپنے اپنے گھر تعمیر کر لیے۔ مردِ درویش سید منور حسن، نعمت اللہ خان صاحب کے مکان کے ایک چھوٹے سے حصے میں سالہا سال مقیم رہے۔ اس کے بعد اپنا گھر بنانے کا موقع آیا۔ وہ اگر چاہتے تو بہت دولت جمع کر سکتے تھے، مگر وہ حدیث کے مطابق اللہ کے ساتھ سودا کر چکے تھے۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے ''جان لو اللہ کا سودا بڑا مہنگا ہے اور جان لو کہ اس سودے کے بدلے میں اللہ کی طرف سے جنت ملتی ہے‘‘۔ آج سید منور حسن جیسی کوئی شخصیت مجھے نظر نہیں آتی۔ وہ اپنی مثال آپ تھے۔ کبھی صلے کی تمنا نہیں رکھتے تھے نہ ہی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرتے تھے۔ حق بات ڈنکے کی چوٹ کہتے اور پھر اس پر ڈٹ جاتے۔ باطل کے ساتھ مصلحت اور ظلم کے سامنے مداہنت ان کی لغت ہی میں نہیں تھی۔ دارا و سکندر ان کے سامنے کیا تھے؟ وہ تو اللہ کے ہاتھ اپنا سب کچھ بیچ چکے تھے۔
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اَولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بُوئے اسدؓ اللٰہی!
سید منور حسن دہلی کے ایک علمی سید گھرانے میں اگست 1941ء میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کی ایک بہن اور تین بھائی تھے۔ منور بھائی اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے دہلی سے کراچی آ گیا۔ یہیں سید منور حسن کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ جامعہ کراچی سے سوشیالوجی اور علوم اسلامیہ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔ اپنی سرگرمیوں کا آغاز دور طالب علمی میں نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے کیا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں 1959ء میں اس طلبہ تنظیم کے کل پاکستان صدر منتخب ہوئے۔
اللہ کو اپنے اس بندے کے بارے میں کچھ اور ہی منظور تھا۔ بائیں بازو کی سیاست اور سرگرمیوں سے جلد ہی یہ نفیس طبع نوجوان بیزار ہو گیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کے حسنِ خلق نے سوچنے پر مجبور کیا۔ پھر سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں تک رسائی ہوئی تو بلاتردد اپنا راستہ بدل لیا۔ کشتیاں جلا کر آنے والا یہ مسافر پھر زندگی بھر اسی راستے پر قائدانہ کردار کے ساتھ رواں دواں رہا۔ سید منور حسن اسلامی جمعیت طلبہ میں آئے تو اپنی ذہانت و قابلیت اور للہیت و صلاحیت کے نتیجے میں بہت جلد قیادت کی منزلیں طے کرتے چلے گئے۔ پہلے کراچی یونیورسٹی کے ناظم، پھر کراچی شہر کے ناظم اور اس کے بعد تین سال تک کل پاکستان ناظم اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ ہونے کے بعد فوری طور پر جماعت کے رکن بنے اور کراچی جماعت کے نائب قیم، قیم، نائب امیر اور پھر امیر منتخب ہوئے۔ کراچی جماعت جو ان کے سابقین چودھری غلام محمد، پروفیسر غفور احمد، حکیم صادق حسین، محمود اعظم فاروقی جیسی عظیم شخصیتوں کی محنت شاقہ سے مضبوط بنیادوں پر کھڑی تھی، اسے مزید بلندیوں تک پہنچایا۔ اس عرصے میں مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے۔ مرکز جماعت میں بطور نائب قیم ان کی ذمہ داری 1992ء میں لگی، پھر 1993ء سے 2009ء تک مرکزی سیکرٹری جنرل رہے۔ 2009ء سے 2014ء تک امیر جماعت کی ذمہ داری ادا کی۔ سید منور حسن نے جماعت کی طرف سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں کئی بار حصہ لیا، مگر ایک ہی بار 1977ء کے انتخابات میں کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس انتخاب میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا اعزاز سید منور حسن کو ملا۔
سید منور حسن نے عملی زندگی کا آغاز ادارہ معارف اسلامی کراچی میں بطور ڈائریکٹر کیا۔ سالہا سال تک یہ ذمہ داری ادا کی۔ سید منور حسن کی شادی قدرے تاخیر سے ہوئی۔ ان کی اہلیہ آپا سیدہ عائشہ منور بھی تحریک اسلامی سے وابستہ اور حلقہ خواتین میں کئی سال تک جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی قیمہ (ناظمہ) کی ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں۔ آپ خواتین کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی میں 2002ء میں منتخب ہوئیں۔ اللہ نے اس صالح جوڑے کو کئی بچے عطا فرمائے، مگر وہ پیدائش کے تھوڑے عرصے بعد فوت ہو جاتے رہے۔ ایک بیٹا عزیزم طلحہ اور بیٹی عزیزہ سیدہ فاطمہ منور کو رب رحمان و رحیم نے زندگی دی اور وہ اللہ کے فضل سے ان کے جانشین ہیں۔ دونوں شادی شدہ ہیں۔ طلحہ کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے جب کہ عزیزہ فاطمہ کی سید صاحب کی زندگی میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ ہم یہ دعا ہمیشہ مانگا کرتے تھے کہ اللہ اس کے آنگن میں بھی غنچے اور کلیاں کھلائے۔ الحمدللہ نومبر 2020ء میں فاطمہ کو اللہ نے ایک پھول جیسا بیٹا عطا فرمایا۔ اس کا نام زید ہے۔ اللہ جملہ آلِ سید منور کو آباد و شاد رکھے۔
سید منور حسن سے پچپن سال کا ذاتی اور تحریکی تعلق رہا ہے۔ 1965ء میں جبکہ وہ ناظم اعلیٰ تھے پہلی بار لاہور میں ملاقات ہوئی اور پھر زندگی بھر اس میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا۔ اتنے طویل عرصے تک کئی مجالس میں آرا کا اختلاف بھی رہا اور اتفاق بھی، مگر اللہ گواہ ہے اس مردِ درویش کے ساتھ باہمی محبت میں کسی تلخی اور رنجش کا شائبہ تک نہیں مل سکتا۔ اس میں میرا کوئی کمال نہیں، یہ اس مردِ درویش کی خوبی تھی۔ وہ نہایت محبت کرنے والی شخصیت کے مالک تھے۔ کبھی کبھار اپنی جیب سے معمولی تحفہ دیتے، تو دل اتنا خوش ہوتا کہ بیان نہیں کر سکتا، مثلاً کبھی جرابوں کا جوڑا اور کبھی جیبی رومال، کبھی کوئی سویٹر اور کبھی کوئی بنیان۔ اسی طرح میں بھی اپنی طرف سے کوئی نہ کوئی ہدیہ پیش کرتا، تو بخوشی قبول فرماتے۔ منصورہ میں قیام کے دوران کبھی کبھار ہم انہیں اپنے گھر بلاتے تو دعوتِ شیراز بخوشی قبول فرماتے۔ وہ دورِ جوانی ہی سے بہت کم خوراک کھانے کے عادی تھے۔ راتوں کو جاگنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔
سید صاحب ایک بار ہمارے گائوں تشریف لائے اور وہاں میں نے عرض کیا کہ یہاں تو اپنے گھر کا خالص دودھ اور مکھن اصل سوغات ہے۔ فرمایا: نہیں ہم تو چائے پئیں گے۔ چائے کے اس عصرانے پر خوب مجلس جمی اور سب لوگوں نے سید صاحب کی باتوں کو بڑی محبت اور غور سے سنا۔ مجھے آج بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو مرحوم بھائی کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ کراچی میں جن دنوں نعمت اللہ صاحب کے گھر میں مقیم تھے، کئی بار اصرار کے ساتھ مجھے اپنے ہاں ٹھہرایا۔ اس دور میں اکیلے ہوتے تھے اور اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر ناشتہ کراتے تھے۔ اس درویشانہ ناشتے میں بہت لذیذ کیک رس ہوتے تھے، جن کا لطف آج بھی محسوس ہوتا ہے۔ طویل تعلق کی وجہ سے بہت سی یادداشتیں ہیں جو ''عزیمت کے راہی‘‘ کی تازہ جلد میں محفوظ ہیں۔ اس وقت تو قلم برداشتہ، قلب حزین کے ساتھ یہ چند باتیں لکھ دی ہیں۔
میں یہ بات بہت سوچ سمجھ کر زبان و قلم سے نکال رہا ہوں، میرا دل گواہی دیتا ہے (اور دل سے دعا بھی نکلتی ہے) کہ سید منور حسن اللہ کے ان خوش نصیب بندوں میں ہوں گے جن کے ساتھ رب رحمن و رحیم کی طرف سے حساب یسیر کا معاملہ کیا گیا ہو گا۔ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے لوگ آپ کی وفات پر غمزدہ تھے۔