حضرت یوسف علیہ السلام مستجاب الدعوات!… (2)

اس مضمون کے پہلے حصے میں حضرت یوسف علیہ السلام کی سخت آزمائش اور چیلنج کا تذکرہ ہو چکا ہے۔ یہ اس کا دوسرا اور آخری حصہ ہے۔ عزیزِ مصر کے گھر میں نیکی اور برائی کے مابین کشمکش زوروں پر تھی۔ حضرت یوسفؑ کو جیل کی دھمکیاں بھی مل چکی تھیں۔ ان حالات میں خود سیدنا یوسف علیہ السلام بھی قید کو ترجیح دیتے تھے۔ انہیں اچھی طرح یہ معلوم تھا کہ قید میں چلے جانا کوئی ذلت وخواری نہیں ہے لیکن زلیخا کی دعوت پر خدا کے احکام سے روگردانی بہت بڑی پستی ہے۔ پس آپ نے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی کہ انہیں جیل بھجوا دیا جائے مگر اس گندگی سے ہر حال میں بچا لیا جائے جس کی طرف نہ صرف زلیخا بلکہ مصر کی تمام خوبصورت عورتیں دعوت دے رہی تھیں۔ اہلِ حق ہمیشہ حق کی خاطر جیلوں میں جاتے اور قید و بند کی سختیاں جھیلتے رہے ہیں۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس پورے عمل کو حضرت یوسف علیہ السلام کی نسبت سے سنتِ یوسفی بھی کہا جاتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول کر لی اور آپ کو اس گناہِ عظیم سے محفوظ رکھنے کے لیے قید میں ڈال دیا۔ آپ جرم بے گناہی میں نو سال کے قریب جیل میں مقید رہے۔ اس عرصے میں نہ معلوم آپ نے کتنے قیدیوں کی اخلاقی تربیت کا اہتمام کیا۔ قرآن پاک کے مطابق ‘جیل میں داخل ہونے کے اگلے ہی لمحے آپ ؑ نے دو قیدیوں کے سامنے اپنا اصلی تعارف بھی پیش کیا اور انہیں خالص توحید کی دعوت پہنچائی۔ یہ قید میں ڈالا جانا صرف اس گناہ سے بچانے کے لیے نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے بڑی عظیم الشان ربانی حکمتیں کارفرما تھیں۔ ایک تو یہی کہ حضرت یوسف کو قید میں غوروفکر کا خوب موقع ملے۔ دوسرے یہ کہ ان کے کردار کی مضبوطی اور بے مثال استقامت زنانِ مصر پر واضح ہو جائے تاکہ وہ ان کے باے میں کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہ رہیں۔ تیسرے یہ کہ حکومت تک پہنچنے کے لیے ان کا راستہ صاف ہو اور وہ یوں کہ قیدخانے میں آپ کی نیک نامی وعلمی منزلت کا شہرہ اس قدر پھیل گیا کہ بادشاہ کے ایک پیچیدہ خواب کی تعبیر کے لیے ایک سابق قیدی نے آپ علیہ السلام کا نام پیش کیا۔ جب آپؑ کے سامنے خواب بیان کیا گیا تو آپ نے فوری اس خواب کی تعبیر بتا دی ۔ جو تعبیر آپؑ نے بتائی وہ بادشاہ کو بہت پسند آئی۔ شاہی دربار کی طرف سے آپ کو جیل سے نکل کر شاہی دربار میں آنے کے لیے بلایا گیا۔
آپؑ نے اس موقع پر فرمایا ''میں جیل سے اس وقت تک باہر نہیں نکلوں گا جب تک میری بے گناہی ثابت نہ ہو جائے۔ چنانچہ ان تمام خواتین کو بادشاہ کے دربار میں حاضر کیا گیا اور ان سے پوچھا گیا۔ ان سب نے یک زبان ہو کر کہا: ''حاشا لِلّٰہ! ہم نے تو اس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا‘‘۔ عزیزِ مصر کی بیوی بول اٹھی ''اب حق کھل چکا ہے، وہ میں ہی تھی جس نے اُس کو پھسلانے کی کوشش کی تھی، بے شک وہ بالکل سچا ہے‘‘۔ (یوسفؑ نے کہا) ''اِس سے میری غرض یہ تھی کہ (عزیزِ مصر) یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اُس کی خیانت نہیں کی تھی، اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا۔ میں کچھ اپنے نفس کی برأت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے اِلاّ یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفورورحیم ہے۔‘‘ (سورہ یوسف: 51 تا 53)
اس بیان کا آخری حصہ انکسار اور شانِ نبوت کا شاہکار ہے۔ آپ علیہ السلام اپنی اخلاقی پاکیزگی کے حق میں زنانِ مصر کی زبان سے بادشاہ کے روبرو گواہی دلوانے کے بعد جیل خانے سے نکلے تو بادشاہ نے آپ کا والہانہ استقبال کیا اور گفت و شنید کے بعد خزائنِ مصر آپ کے حوالے کر دیے۔یوں آپؑ کے لیے مستقبل قریب میں تختِ مصر پر فائز ہونے کا راستہ ہموار ہو گیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی مذکورہ بالا دونوں دعائیں آزمائش کے دور میں کی گئیں۔ جب آپؑ کی آزمائشیں ختم ہو گئیں اور اقتدار آپؑ کے ہاتھ میں آ گیا، تو اس وقت بھی آپؑ نے اللہ سے دو دعائیں مانگیں۔ ان کے اندر بھی اقتدار و حکمرانی کے باوجود آپؑ کا انکسار، اعلیٰ درجے کا ظرف اور انتہائی بلند شان نظر آتی ہے۔ پہلی دعاآپؑ نے اُس وقت مانگی تھی جب آپؑ پر ظلم ڈھانے والے آپؑ کے بھائی انتہائی خستہ حالت میں دوسری مرتبہ آپؑ کے سامنے غلہ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں پیش کر رہے تھے۔ ان قطع رحمی کرنے والے برادران کو مخاطب کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا: آج بے فکر ہو جائو، تم سے کوئی انتقام نہ لیا جائے گا۔ پھر اسی موقع پر آپؑ نے اللہ کے سامنے عرض کیا : یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَہُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَo (سورہ یوسف‘ آیت 92) ''اﷲ تمہیں معاف کرے۔ وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے‘‘۔
برادرانِ یوسف جب حضرت یوسف علیہ السلام کو پہچان گئے تو سخت نادم ہوئے۔ وہ بھائی جسے انہوں نے مارپیٹ کے بعد کنویں میں پھینک دیا تھا‘ ان کے سامنے تختِ مصر پر متمکن تھا اور یہ سب اس کے سامنے مفلس ولاچارکھڑے تھے۔ انہوں نے جب اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا تو ان کے دل میں خیال آیا کہ نہ معلوم آج یوسف ان کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے مگر پیغمبرِ خدا نے بے ساختہ کہہ دیا: ''لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ‘‘ (آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا) اس کے بعد ان کی خطاؤں کی معافی کے لیے خود ہی ہاتھ اٹھا دیے اور مذکورہ بالا دعا مانگی۔
حضور نبی کریمﷺ کے ساتھ بھی ان کے بھائی بندوں نے برادرانِ یوسف کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر سختی کی۔ آپﷺ کو مکہ سے نکالا گیا‘ قتل کے منصوبے بنائے گئے‘ بار بار آپﷺ پر حملے ہوئے اور کئی مرتبہ آپﷺ سے عہد کر کے توڑ ڈالے گئے۔ آپﷺ جب ان ساری منازل سے گزرنے کے بعد مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو چشمِ فلک نے سرزمینِ مصر کا وہ منظر ایک مرتبہ پھر دیکھ لیا۔ مکہ کے سرکش رئیس سر جھکائے کھڑے تھے اور رحمۃ للعالمینﷺ شاہانہ انداز میں ان کے شہر کو فتح کر کے ان کے سامنے جلوہ افروز تھے۔ آپﷺ نے ان سے پوچھا: ''بتاؤ تمہیں مجھ سے کس قسم کے سلوک کی توقع ہے؟‘‘ سب نے بیک زبان کہا: ''اخ کریمٌ وابن اخ کریم‘‘ (آپ نیک خو بھائی اور پاک طینت بھتیجے ہیں) آپﷺ نے فرمایا: ''میں تم سے وہی کچھ کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا: آج تم سے کوئی بازپرس نہیں ہو گی‘ جاؤ تم سب آزاد ہو۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی چوتھی دعااُس وقت اللہ کے سامنے پیش کی گئی جب آپؑ کے والدین اور پورا خاندان آپؑ کے حکم سے مصر آ گیا۔ اس دعا میں آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض کیا: فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَo (سورہ یوسف: آیت 101) ''زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا‘‘۔
آپؑ نے اپنے والدین اور تمام افرادِ خاندان کو مصر بلا لیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی زائل ہو چکی تھی‘ آپ ؑنے اپنا کرتا کنعان بھیجا جو حضرت یعقوبؑ کی آنکھوں پر رکھا گیا تو ان کی بینائی عود کر آئی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے تمام خاندان کے ہمراہ بڑی شان کے ساتھ مصر گئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے اعیانِ سلطنت اور عوام کے ساتھ حضرت یعقوب علیہ السلام کا شہر سے باہر نکل کر زبردست استقبال کیا اور دارالحکومت پہنچ کر اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا۔ مدتوں کے بچھڑے ہوئے باپ بیٹا ایک دوسرے سے ملے اور اس حال میں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا مقام انہیں میسر تھا۔ (دنیا و آخرت میں سب سے بڑا اعزاز‘ نبوت پہلے ہی انہیں مرحمت فرما دیا گیا تھا)
اس موقع پر حضرت یوسف علیہ السلام ایک سچے مومن کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ مومن خواہ عروج کے کس مقام پر پہنچ جائے وہ اپنی حیثیت ِعبودیت سے غافل نہیں ہوتا۔ نہ صرف یہ بلکہ ہر بلندی اسے عجز وانکسار کا نیا سبق دے جاتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اس علوِّمرتبت کے موقع پر بارگاہِ ربانی میں کہتے ہیں: ''اے میرے ربّ تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھے خوابوں کی تعبیر اور باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا ہے۔ زمین وآسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا وآخرت میں میرا سرپرست ہے۔ میرا خاتمہ اسلام پر کر اور مجھے صالحین کے ساتھ ملا‘‘۔
یہ دعا اتنی جامع ہے کہ ہر بندۂ مومن کو ہر وقت اللہ کے سامنے گڑگڑا کر مانگتے رہنا چاہیے۔ اس میں دین، دنیا اور آخرت سب منزلوں کے لیے اللہ کی مدد مانگی گئی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات تفصیلاً جاننے کے لیے سورہ یوسف ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھی جائے، تو ہر آیت پر ایک عجیب ایمانی کیفیت بندۂ مومن پر طاری ہو جاتی ہے۔
ایک غلط روایت کی تصحیح یہاں ضروری ہے۔ قصہ گو لوگوں نے زیبِ داستان کے لیے شعروشاعری میں یہ مشہور کر دیا کہ حضرت یوسفؑ کی شادی زلیخا سے ہو گئی تھی۔ یہ بالکل غلط بات ہے! اللہ کے نبی کی بیوی کافرہ اور مشرکہ تو ہو سکتی ہے،جیسا کہ حضرت نوح اور لوط علیہم السلام کی بیویاں تھیں، مگر کسی نبی کی بیوی بدکار نہیں ہو سکتی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر میں شادی ضرور کی تھی اور آپؑ کی اولاد بھی تھی، مگر یہ شادی زلیخا سے نہیں کسی اور نیک خاتون سے کی تھی۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں