حضرت عمر فاروقؓ تاریخ ِ انسانی میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ آپؓ کو صحابہ کرام کے درمیان مرادِ رسولﷺ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ یعنی آپ کے لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصی دعائیں کیں اور آپ کا نام لے کر کہا: یا اللہ! عمر کے ذریعے اسلام کو تقویت پہنچا۔اس وقت تک عمر بن خطاب اسلام کے بدترین دشمنوں میں شمار ہوتے تھے مگر اللہ کے نبیﷺ کی دعا کیسے رد ہوسکتی ہے؟ آپﷺ کے ہر ہر لفظ کو تائیدِ ربانی حاصل تھی۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی۔ إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوْحٰی۔ (النجم:3 تا 4)
ترجمہ: وہ اپنی خواہشِ نفس سے کچھ نہیں بولتے۔ یہ تو ایک وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔
یہ وہ دور تھا جس میں کفار کی طرف سے صحابہ کرامؓ بلکہ بعض اوقات خود نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی اذیتیں پہنچانا معمول بن چکا تھا۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات، غلام اور کنیزیں اسلام کی طرف راغب تھے مگر قبولِ اسلام کے بعد ان پر جو قیامت ڈھائی جاتی، اس کا حال پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حضرت بلالؓ، حضرت خبّابؓ، حضرت عمارؓ،حضرت یاسرؓ، حضرت سمیّہؓ، حضرت زنیرہؓ اور اسی طرح بے شمار صحابہ وصحابیات بدترین مظالم کا نشانہ بنائے گئے۔ حضرت سمیہؓ تو مکہ میں ظلم وستم سے شہید کردی گئیں۔ حضرت یاسرؓ بھی مظالم برداشت کرتے کرتے دنیا سے کوچ کرگئے۔ باقی مستضعفین صحابہ کرامؓ کو بھی مار ڈالنے کی کوششیں ہوئیں، مگر اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی۔
قریش کی مخالفت حد سے گزری تو ان بدبختوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہید کرنے کے منصوبے بنائے۔ دارالندوہ میں مشورہ ہوا کہ کوئی شیردل نوجوان جائے اور جاکر رسول اللہﷺ کا کام تمام کردے۔ کون یہ کام کرسکتا ہے؟ یہ سوال بڑا اہم تھا۔ کئی نوجوانوں نے خود کو اس خدمت کے لیے پیش کیا مگر سردارانِ قریش نے ہر ایک سے کہا کہ یہ کام اس کے بس میں نہیں ہے۔ آخر بنوعدی کا سجیلا جوان عمربن خطاب کھڑا ہوگیا۔ اس نے کہا: سردارانِ قریش! میں ابھی یہ کام کرکے تم لوگوں کو خوش خبری سناتا ہوں۔ ابوجہل نے کہا: ''ہاں یہ نوجوان یقینا اس قابل ہے کہ اس کٹھن کام کو سرانجام دے سکے‘‘۔ فیصلہ ہوجانے کے بعد عمربن خطاب دارالندوہ سے نکلے۔ ان کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی، چہرے پر عجیب غصے کی کیفیت کے ساتھ خودکلامی کے انداز میں کچھ کہتے ہوئے وہ چلے جارہے تھے۔
اچانک راستے میں نعیم بن عبداللہ سے آمنا سامنا ہوگیا۔ نعیمؓ کا تعلق بھی بنوعدی سے تھا۔ وہ اسلام لاچکے تھے، مگر ابھی تک اپنے اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا۔ ابن حجرعسقلانیؒ کے مطابق‘ قبولِ اسلام میں ان کا دسواں نمبر ہے۔ نعیمؓ نے پوچھا: ''عمر! کیا بات ہے؟ بڑے غصے میں نظر آرہے ہو؟‘‘۔ عمر نے کہا: '' ہاں میں آج اس شخص کو قتل کرنے جارہا ہوں جس نے ہمارے باپ دادا کا دین بگاڑ دیا ہے‘‘۔ نعیمؓ بن عبداللہ نے بڑی حکمت کے ساتھ کہا: ''اچھا اگر یہ بات ہے تو پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری بہن فاطمہؓ بنت خطاب اور تمہارا بہنوئی سعیدؓ بن زید بھی آبائی دین کو چھوڑ کر ''صابی‘‘ بن چکے ہیں‘‘۔ (الاصابہ ،ص:567)
اس خبر نے عمر کے غصے سہ آتشہ کردیا۔ اب دارِ ارقم جانے کے بجائے بہن کے گھر کی راہ لی۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند ہے اور اندر سے کسی چیز کے پڑھنے کی آواز آرہی ہے۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو بہن نے دروازہ کھولا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انہی دنوں سورۂ طٰہٰ نازل ہوئی تھی۔ اسی کی تلاوت اور حفظ کی مشق کی جارہی تھی۔ حضرت خبابؓ بن ارت جو آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآنِ مجید سن کر یاد کرلیا کرتے تھے، بھی گھر میں موجود تھے۔ عمر ابن خطاب کی آہٹ اور آواز سنتے ہی انہیں گھر میں چھپا دیا گیا۔ عمر نے بہن اور بہنوئی سے پوچھا: تم کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے کہا: کچھ بھی نہیں۔ اس پر ان کا غصہ بھڑک اٹھا۔ بہنوئی کو زدوکوب کرنا شروع کیا، بہن بچانے کے لیے آئیں تو انہیں بھی خوب مارا پیٹا یہاں تک کہ وہ لہولہان ہوگئیں۔ اس موقع پر فاطمہؓ بنت خطاب نے اپنے بلند جذبۂ ایمانی سے بڑی جرأت اور استقامت سے کہا: ''عمر! سن لو ہم مسلمان ہوچکے ہیں، ہم نے شرک اور بت پرستی سے برأت کا اظہار کردیا ہے۔ تم جو کچھ کرنا چاہو کرلو، ہماری ہڈیاں توڑ سکتے ہو، مگر اسلام سے برگشتہ ہرگز نہیں کرسکتے۔‘‘ (ایضاً)
صاحبِ استقامت بہن کی زبان سے یہ سننا تھا کہ عمر کے دل پر چوٹ لگی اور وہ زمین پر بیٹھ گئے۔ پھر کہا: مجھے وہ صحیفہ سناؤ جو تم پڑھتے ہو۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم اس صحیفے کی توہین برداشت نہیں کرسکتے، نہ ہی کسی مشرک کو دے سکتے ہیں کیونکہ اسے صرف پاکیزہ لوگ ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا: اچھا مجھے خود سناؤ، تو میں اس کی کوئی توہین نہیں کروں گا۔ اس وعدے کے بعد حضرت خبابؓ کو اندر سے باہر بلایا گیا اور انہوں نے سورۂ طٰہٰ کی آیات کی تلاوت کی۔ چھوٹی چھوٹی آیات میں اتنا مؤثر پیغام سمودیا گیا ہے کہ اعجازِ قرآنی پر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اہلِ ایمان کے ایمان میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ قرآنِ حکیم پورے سوز کے ساتھ پڑھا جارہا تھا اور عمر کے دل کی دنیا میں عظیم الشان انقلاب برپا ہورہا تھا۔
قرآنِ مجید تو ہے ہی کتابِ انقلاب، فرد سے لے کر معاشرے تک اس کے پیدا کردہ انقلاب کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ حضرت عمرؓ نے آیات ِقرآنی سنیں اور پھر خاموشی سے گھر کا دروازہ کھول کر نکل گئے۔ اب بھی منزل دارِ ارقم ہی تھی، مگر ارادہ بدل چکا تھا۔ یہ وہ عمر نہیں تھا جو دارالندوۃ سے نکلا تھا، یہ وہ عمرؓ تھا جس کے حق میں نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں دربارِ ربانی میں قبول ہوچکی تھیں۔ قرآنِ مجید کی اثرآفرینی کے ساتھ بہن کی استقامت نے بھی کفر کو مات دی تھی۔
جب عمرؓبن خطاب دارِ ارقم پہنچے اور دروازے پر دستک دی تو ایک صحابی نے دروازے کے سوراخ میں سے ان کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ کر دروازہ کھولنے کے بجائے واپس آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر سرگوشی کے انداز میں کہا: ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمربن خطاب دروازے پر کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں تلوار ہے‘‘۔ حضرت حمزہؓ‘ جو صرف تین دن پہلے مسلمان ہوئے تھے‘ نے بھی یہ بات سن لی اور فرمایا: اللہ کے بندے دروازہ کھول دو۔ اگر وہ نیک ارادے سے آیا ہے تو سرآنکھوں پر اور اگر اس کا کوئی اور ارادہ ہے تو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں میں اس کا سر اُسی کی تلوار سے قلم کردوں گا۔ دروازہ کھلا، عمراندر آئے، سیدھے آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے۔ آپﷺ نے ان کی چادر پکڑ کر کھینچا اور کہا عمر! کیسے آئے ہو؟ عرض کیا اسلام قبول کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ پھر کلمۂ شہادت پڑھا اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ مبارک سے تکبیر کا نعرہ بلند ہوا۔ سبھی صحابہؓ نے بھی آپ کی تقلید میں اللہ کی کبریائی کا اعلان کیا اور دارِارقم تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھا۔ (سیرۃ ابن ہشام، جلد دوم، ص:346)
کئی مہینوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل دعا کرتے رہے تھے: اَللّٰہُمَّ انْصُرِالْاِسْلَام بِاحَدِ عُمَرَیْنِ۔ یعنی اے اللہ (مکہ کے) دوعمروں میں سے کسی ایک عمر کو اسلام کا مددگار بنادے۔ یعنی عمربن خطاب کو اسلام کی آغوش میں لے آ، یا عمرو بن ہشام(ابوجہل) کو ایمان کی توفیق بخش دے۔ آپﷺ کی دعا کے یہ الفاظ بھی نقل کیے گئے ہیں۔ اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الْاِسْلَامَ بِاَحَبِّ ہٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ اِلَیْکَ بِأَبِیْ جَہْلٍ اَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابٍ۔ (صحیح بخاری، جامع ترمذی) اے اللہ! ان دو مردانِ کار، ابوجہل اور عمربن خطاب میں سے جو بھی تجھے زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے اسلام کو عزت وقوت عطا فرما۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عمرؓبن خطاب کے بارے میں دعائے نبویﷺ کو شرفِ قبولیت بخشا۔ آپﷺ کی اس دعا میں یقینا بڑی حکمت ہے۔
آپﷺ کا ارشاد ہے: خِیَارُکُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ خِیَارُکُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقِہُوا۔ یعنی تم میں سے جو لوگ جاہلیت میں اگلی صفوں میں کام کرتے ہیں، قبولیتِ اسلام کی توفیق مل جائے تو خدمتِ اسلام میں بھی وہ اگلی صفوں ہی میں ہوں گے اگر دین کا صحیح فہم حاصل کر لیں۔ (متفق علیہ، روایت: عبدالرحمن بن صخر)۔ ابوجہل اور عمرؓبن الخطاب آپس میں ماموں بھانجا تھے۔ یہ دونوں شخصیات اپنی بہادری اور جرأت نیز فہم وفراست اور اوصافِ قیادت میں نمایاں تھیں۔ ابوجہل بدبخت وبدنصیب ہے، مگر اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے کفر پر اتنا مضبوط تھا کہ دنیا کا کوئی فرعون ونمرود مشکل ہی سے اس کی مثال پیش کرسکتا ہے۔
قبولِ اسلام کے بعد حضرت عمرؓ نے آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: یقینا ہم حق پر ہیں۔ اس پر عرض کیا: پھر ہمیں دارِ ارقم کے بجائے بیت اللہ شریف میں جا کر نماز پڑھنی چاہیے؛ چنانچہ اس روز مسلمان دارِ ارقم سے دو صفیں بنا کر نکلے۔ ایک صف کے آگے آگے حمزہؓ بن عبدالمطلب اور دوسری صف کے آگے عمرؓبن خطاب تھے۔ مسلمان اس شان کے ساتھ حرم شریف میں آئے اور وہاں نماز پڑھی اور حضرت عمرؓ نے سردارانِ قریش کو متنبہ کردیا کہ وہ اسلام میں داخل ہوگئے ہیں۔ اس خبر سے قریش کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ یوں اہلِ علم کے نزدیک سیدنا عمربن خطابؓ مرادِ رسولﷺ ہیں۔