داستانِ حرم اور المیۂ کربلا!

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ؓ، ابتدا ہے اسماعیل ؑ!
حضرت معاویہؓ کے بعد ان کے بیٹے یزید نے حکومت سنبھالی تو بصرہ کا گورنر عبیداللہ بن زیاد اور کوفہ کے گورنر صحابیٔ رسول حضرت نعمان بن بشیرؓ تھے۔ یزید‘ ابن زیاد سے سخت بغض رکھتا تھا اور اس نے طے کرلیا تھا کہ اسے گورنری سے معزول کردے گا۔ جب اس کے درباریوں نے مشورہ دیا کہ ابن زیاد حسینؓ بن علی کے مقابلے میں تمہاری کھل کر حمایت کرے گا اور مخالفیں کو چن چن کر قتل کرے گا۔ اس کے برعکس کوفہ کے گورنر نعمانؓ بن بشیر بہت نرم دل اور سیدنا حسینؓ کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، اس لیے ان کو گورنری کے عہدے پر بحال رکھنا خطرات سے خالی نہیں تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب اہلِ عراق بالخصوص کوفہ کے ہزارو ں لوگوں کے خطوط حضرت حسینؓ کو موصول ہوچکے تھے کہ وہ آپ کی بیعت کرنے کے لیے تیار ہیں، آپ جلد از جلد ان کے پاس پہنچیں۔ انہی خطوط کے نتیجے میں حضرت امام حسینؓ نے اپنے چچازاد بھائی مسلمؓ بن عقیل کو اپنے نمائندے کے طور پر کوفہ بھیجا۔ انہوں نے وہاں کے حالات دیکھ کر حضرت امام حسینؓ کو پیغام بھیجا کہ یہاں کے لوگ واقعی آپ کے منتظر ہیں۔ اس پیغام پر حضرت حسینؓ حجاز سے کوفہ کی طرف چلے۔ آپؓ کے ساتھ نہ کوئی لاؤلشکر تھا، نہ اسلحہ اور سازوسامان۔ حجاز اور دیگر علاقوں میں جو صحابۂ رسولؐ موجود تھے، ان سب نے بھی یزید کی حکومت کو ناجائز قرار دیا تھا کیونکہ اسلام میں موروثی بادشاہت نہیں ہے۔
مورخین نے لکھا ہے کہ یزید نے اس مشاورت کے بعد ابن زیاد کے متعلق اپنی سابقہ رائے تبدیل کرلی اور اسے نہ صرف بصرہ کی گورنری پر بحال رکھا بلکہ نعمانؓ بن بشیر کو معزول کرکے کوفہ کو بھی اس کی ولایت میں دے دیا۔ عبید اللہ ابن زیاد انتہائی سفاک اور شقی القلب انسان تھا۔ اس نے یہ منصب مل جانے کے بعدلبادہ اوڑھا اور بھیس بدل کر کوفہ کا سفر کیا اور وہاں پہنچ کر اپنے حواریوں کے ذریعے لوگوں کو یہ چکما دیا کہ وہ حسینؓ بن علی ہے۔ کئی لوگ اس غلط فہمی کا شکار بھی ہوئے؛ چنانچہ ابن زیاد نے گورنر ہائوس میں ڈیرہ جما کر مختلف لوگوں کو بڑی بڑی رقوم دیں اور جاسوسوں کے ذریعے حضرت مسلمؓ بن عقیل کے خلاف سازش کا ایسا تانا بانا بنا کہ بالآخر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ حضرت مسلمؓ بن عقیل ہانیؓ بن عروہ کے مکان میں مقیم تھے۔
ہانیؓ بن عروہ کو گورنر ہائوس بلایا گیا اور ابن زیاد نے انہیں سخت سزا دی اور مسلمؓ بن عقیل کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتانے سے انکار کر دیا۔ پھر اس کے دربار میں ہانیؓ بن عروہ کے سامنے ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ مسلمؓ تمہارے گھر میں ہیں۔ یہ کہنے والا وہی شخص تھا جو ہانی بن عروہ کے گھر میں جاکر حضرت مسلمؓ بن عقیل کے ہاتھ پر نہ صرف بیعت کر چکا تھا بلکہ ایک خطیر رقم بھی انہیں پیش کی تھی۔ ہانیؓ بن عروہ حضرت حسینؓ کے زبردست حامی تھے مگر اس جاسوس کی مخبری اور پھرگواہی کے بعد سخت خلجان کا شکار ہوگئے۔ اب وہ زخمی حالت میں یہ سب منظر دیکھ رہے تھے۔ انہیں قید کرنے اور حضرت مسلمؓ بن عقیل کو پکڑنے ، قتل کرنے اور ان کا سر ابن زیاد کے سامنے پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا تھا۔ جس شخص نے یہ جاسوسی کی تھی، اس کا نام مورخین نے سرجون بیان کیا ہے۔ یہ مسلمان نہیں تھا البتہ یہ ثابت نہیں کہ عیسائی تھا یا یہودی۔ کہا جاتا ہے کہ اسے یزید نے دمشق سے ابن زیاد کے پاس بھیجا تھا۔ حضرت مسلمؓ کو ہانی بن عروہ کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنے حمایتیوں کو ساتھ لے کر مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ ان کے ساتھ ساڑھے تین‘ چار ہزار کے لگ بھگ کوفی میدان میں نکل کھڑے ہوئے مگر جوں ہی ان بد بختوں نے بڑے بڑے سرداروں کو عبید اللہ بن زیاد کے محل میں دیکھا اور انہوں نے بالکونی سے اپنے اپنے قبیلے کے تمام لوگوں کو سرزنش کی تو آہستہ آہستہ یہ بدعہد حضرت مسلمؓ بن عقیل کا ساتھ چھوڑ کر منتشر ہوگئے۔ آخر میں ان کے ساتھ صرف چند سو افراد رہ گئے۔
حضرت مسلمؓ نے یہ صورتِ حال دیکھی تو انہوں نے بھی شام کے وقت کسی محفوظ جگہ کی طرف نکلنا چاہا۔ اس دوران پورے شہر میں جاسوسی کا جال پھیلایا جاچکا تھا۔ اسی رات کو حضرت مسلمؓ بن عقیل کو سرکاری جتھوں نے گرفتار کیا اور گورنر ہائوس لے آئے۔ حضرت مسلمؓ کے دو کمسن بچے بھی شہید کر دیے گئے تھے۔ ابن زیاد نے حضرت مسلمؓ کو دیکھتے ہی حکم دیا کہ انہیں فی الفور قتل کردیا جائے اور ان کا بے سر لاشہ محل کے سامنے پھینک دیا جائے۔ حضرت ہانیؓ کو بھی سولی پر چڑھانے کا حکم صادر ہوا۔ یوں ایک جانب یہ نقشہ یکسر بدل گیا مگر دوسری جانب سیدنا حسینؓ بن علی تک درست اطلاعات نہ پہنچ سکیں۔ وہ اس وقت تک حجاز سے حدودِ عراق میں داخل ہوچکے تھے۔ ان کے ساتھ کوئی بہت بڑا لشکر نہیں تھا۔ ان کے قافلے میں کچھ خواتین تھیں اور ڈیڑھ سو کے قریب ان کے اعیان و انصار تھے۔
یہ بات بھی تاریخ میں منقول ہے کہ قادسیہ کے قریب حر بن یزید آپؓ سے ملا اور اس نے کوفے کے حالات آپؓ کو بتائے۔ مسلمؓ بن عقیل اور ان کے بچوں کی شہادت کی خبر بھی ملی۔ حر کی رائے یہ تھی کہ قافلے کو وہیں سے واپس پلٹ جانا چاہیے۔ حضرت حسینؓ کا بھی اسی جانب میلان تھا مگر حضرت مسلمؓ بن عقیل کے بھائیوں نے کہا کہ جب ہمارا بھائی قتل ہوگیا ہے تو ہم یہاں سے کیسے واپس جاسکتے ہیں۔ اصل بات تو یہی ہے کہ تقدیر ہر چیز پر غالب ہوتی ہے۔ حضرت حسینؓ نے اپنا رخ کوفہ سے کربلا کی طرف موڑ لیا۔
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیریؓ
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی!
راستے میں جگہ جگہ یزیدی دستوں نے قافلۂ اہلِ بیت کو روکنا چاہا مگر وہ کسی نہ کسی طرح کربلا تک آپہنچے۔ یہ 60ھ کے آخری دن تھے۔ اسی اثنا میں نئے سال کا ہلال طلوع ہوا۔ عمرو بن سعد‘ جو صحابی رسول حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کا بیٹا تھا، بنو امیہ کی حکومت میں ایک علاقے کا حاکم تھا۔ جب اسے ابن زیاد نے اس قافلے کو قتل کرنے کا حکم دیا تو شروع میں اس نے کافی پس و پیش کی۔ آخر کار ابن زیاد کے دبائو کے تحت عمرو بن سعد نے اس جرم کا ارتکاب کر ہی ڈالا۔ جب عمرو بن سعد نے حضرت حسینؓ کا راستہ روکنا چاہا تو آپؓ نے اسے بتایا کہ مجھے اہلِ عراق نے آنے کی دعوت دی، جس کے نتیجے میں مَیں حجاز سے چل کر یہاں آیا۔ آپؓ نے خطوط کا انبار بھی اس کے سامنے پیش کیا۔ عمرو بن سعد نے حضرت حسینؓ کے دعوے کی تکذیب نہیں کی بلکہ کہا کہ اہلِ کوفہ نے آپ کو خطوط لکھے مگر اب وہ آپ کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ آپ کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ یزید کی بیعت کرلیں۔
حضرت امام حسینؓ نے فرمایا کہ میں ایسا شخص نہیں ہوں جو دب کر بیعت کرلے۔ میں تمہارے سامنے تین شرائط پیش کرتا ہوں۔ طبری اور دیگر مورخین نے ان شرائط کا ذکر کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
1۔مجھے چھوڑ دو کہ میں براہِ راست یزید کے پاس چلا جائوں اور خود اس سے معاملہ کروں۔
2۔ مجھے چھوڑ دو کہ میں جہاں سے آیا ہوں، وہیں واپس چلا جائوں
3۔ مجھے چھوڑ دو کہ میں کسی سرحد پر چلا جائوں۔
عمرو بن سعد نے امام کا موقف سننے کے بعد کسی حد تک نرمی کا اظہار کیا مگر کہا کہ وہ خود کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ اسے ابن زیاد سے منظوری لینا پڑے گی۔ جب ابن زیاد تک یہ پیغام پہنچا تو وہ آگ بگولہ ہوگیا اور اس نے سخت الفاظ میں عمرو بن سعد کو سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ یا تو حسینؓ سے بیعت لویا ان کا سر قلم کر کے میرے دربار میں بھیجو۔ سیدنا حسینؓ کو جب اس صورتِ حال کا علم ہوا تو انہوں نے پوری جرأتِ ایمانی کے ساتھ فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں سر تو کٹوا سکتا ہوں مگر زبردستی مجھ سے بیعت نہیں لی جاسکتی۔ اب وہ مرحلہ آگیا کہ جو تاریخ میں معروف ہے اور بے شک اس پر افراط و تفریط کے شکار لوگوں نے جتنے بھی ردے چڑھائے ہیں، بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسین ابن علیؓ اور ان کے ساتھیوں نے ایک بڑی قربانی پیش کی، جس کا مقصد آمریت و ملوکیت کا انکار اور اسلامی دستور کی اہم ترین شق خلافت و شورائیت کا تحفظ تھا۔
حضرت حسینؓ کے ساتھی ایک ایک کرکے شہید ہوتے چلے گئے۔ آخر میں آپؓ تنہا رہ گئے۔ پانی تک رسائی بھی ممکن نہ تھی۔ گرمی کی حدت اور جنگ کی شدت، اس لمحے کی سختی اور دل دہلا دینے والا منظر، اس سب کچھ کے باوجود سیدنا حسین بن علیؓ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ ایسی حالت میں تیمم کر کے نماز ادا کی اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے مگر یزید کی ناجائز حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔کیا خوب کہا گیا ہے ؎
سرداد نہ داد دست دردستِ یزید
حقّا کہ بنائے لا الٰہ است حسینؓ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں