اللہ رب العزت اپنی مخلوق پر بے انتہا مہربان ہے۔ وہ ہمہ مقتدر ہے اور بندہ بے بس و لاچار۔ ایک حدیث قدسی میں آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ یہ فرماتا ہے: ''اے میرے بندو! تم سب گناہ گار ہو، مگر میں تمھیں ہمیشہ معاف فرماتا ہوں جب بھی تم اپنے گناہ کا اعتراف کر کے میرے پاس آئو‘‘۔ ہم سب انسان ہیں اور انسان بھول جاتا ہے۔ بھول جانا کوئی تعجب نہیں؛ البتہ بھول کے بعد فوراً توبہ کرنا شیوۂ بندگی اور تقاضائے ایمانی ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ اللہ نے ہمیں اندھیرے میں نہیں چھوڑا۔ تخلیقِ آدم کے وقت سے قیامت کا صور پھونکے جانے تک اللہ رب العالمین بندوں کی توبہ پر ان کے گناہ معاف کرتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بندے اللہ کے در پہ حاضرہوں۔
بندۂ مومن کے لیے زندگی گزارنے کا راستہ اللہ کی کتاب قرآنِ مجید نے متعین کیا ہے۔ اس کی تشریح و تفسیر حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اقوال و اعمال سے فرمائی۔ قرآنِ پاک میں آنے والی قرآنی دعائوں کی عظیم تاثیر ہے، اگر پورا پس منظر معلوم ہو تو ہر دعا پر دل جھوم اٹھتا ہے۔ مسنون دعائیں بھی اسی انداز میں اطمینانِ قلب کا سامان فراہم کرتی ہیں۔مسنون دعائیں تعداد میں زیادہ ہیں۔ قرآنِ مجید کی ہر دعا جامع ہے، مگر ایک دعا نے ہمیشہ عجیب لطف سے سرشار کیا ہے۔ ہر دن‘ رات میں ہم سے بے شمار کبیرہ و صغیرہ گناہ سرزد ہوتے ہیں، ہمیں ایسی حالت میں فوراً اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور یہ دعا مانگنی چاہیے:
رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لََّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo (الاعراف: 23)
''اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے اوپر ستم کیا‘ اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو یقینا ہم تباہ ہو جائیں گے‘‘۔
یہ دعا ہمارے ابا اور اماں حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام نے مانگی تھی۔ ﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے موقع پر تمام فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ وہ آدم کی عظمت کا اعتراف کریں اور تعظیم سے ان کے سامنے جھک جائیں۔ فرشتوں کے ساتھ یہ حکم جنوں کے سردار عزازیل (ابلیس) کو بھی دیا گیا، جسے اپنی عبادت گزاری کی وجہ سے فرشتوں کے درمیان رہنے کی اجازت مل گئی تھی۔باقی تمام یعنی فرشتے تو حکم بجا لائے مگر ابلیس نے انکار کر دیا۔ وہ جنوں میں سے تھا جیسا کہ سورۂ کہف میں بیان ہوا ہے۔ اس نے اس حکم عدولی کے جواز میں دربارِ الٰہی میں مختلف عذر ہائے لنگ پیش کیے جن میں ایک یہ بھی تھا ''اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍO‘‘ یعنی اے خدا! میں اس کے سامنے کیسے جھک جاؤں حالانکہ مجھے تو نے آگ اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ہے‘ لہٰذا میں اس سے بہتر اور بلنددرجہ ہوں۔
تکبر عزازیل را خوار کرد
بہ زندانِ لعنت گرفتار کرد
اس نافرمان کی یہ بات سن کر ﷲ تعالیٰ نے اسے اپنے دربار سے نکل جانے کا حکم دیا۔ دربار سے نکلتے ہوئے ﷲ تعالیٰ سے اس کا جو مکالمہ ہوا وہ قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر نقل ہوا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۃ البقرہ‘ آیات 34 تا 36۔ الاعراف‘ آیات 12 تا 18۔ الحجر‘ آیات 29 تا 44۔ بنی اسرائیل‘ آیات 61 تا 65۔ سورہ ص‘ آیات 75 تا 85)
اس مکالمے کا خلاصہ یہ ہے کہ شیطان نے کہا تھا کہ ''اے ﷲ اس آدم کی وجہ سے مجھے تو اپنے دربارسے ذلیل وخوار کر کے نکال رہا ہے لہٰذا میں اسے (اس کی اولاد کو) گمراہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کروں گا‘‘۔ ﷲ تعالیٰ نے اسی وقت فرمایا تھا کہ میرے بندوں پر تیرا کوئی بس نہ چلے گا۔ (اگر وہ بشری تقاضوں سے بھول کر کوئی غلطی کربھی لیں گے تو فوراً ندامت کے آنسوؤں سے اپنے گناہوں کو دھونے کی فکر کریں گے اور میرے در پہ دستک دیں گے تو میں انہیں معاف بھی کر دوں گا)
ابلیس کے دربارِربانی سے اخراج کے بعد ﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تلقین کی کہ وہ اپنی بیوی کے ہمراہ جنت میں رہیں اور شیطان کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ شیطان آدم اور اولادِ آدم کا ازلی وابدی دشمن ہے۔ شیطان کو جنت کی نعمتوں سے محروم کر دیا گیا تھا، مگر اس نے جو مہلت مانگی تھی‘ اللہ نے وہ مہلت دے دی تھی۔ اسی مہلت کی بدولت وہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کے پاس چلا گیا اور انھیں ورغلانے اور گمراہ کرنے میں لگ گیا۔
قرآن بتاتا ہے کہ شیطان نے حضرت آدم اور حضرت حوا کو بہکانے کی مسلسل کوشش کی اور اس میں بالآخر وہ کامیاب ہو گیا۔ اس بدبخت کا طریقِ واردات ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ انسان کا خیرخواہ بن کر اور برائی کو اچھائی کے جھوٹے پردوں میں لپیٹ کر نمودار ہوتا ہے۔ حضرت آدم وحضرت حوا علیہما السلام کے سامنے بھی وہ آیا تو ایک عمررسیدہ بزرگ کے روپ میں۔ اس نے شجرِ ممنوعہ کے بارے میں بتایا کہ اس میں کوئی برائی یا اس کا پھل کھانے میں کوئی قباحت ہرگز نہیں ہے بلکہ ﷲ تعالیٰ نے اس کے کھانے سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ اگر تم کھا لو گے تو ہمیشہ یہیں رہو گے اور فرشتے بن جاؤ گے اور تم پر موت وارد نہیں ہو گی۔ حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام نے شیطان کو نہ پہچانا اور غلطی سے ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا۔ پس پھل کا چکھنا ہی تھا کہ ان کاستر غائب ہو گیا۔
جب یہ حالت نمودار ہوئی تو حضرت آدم وحوا‘ دونوں کو فوراً احساس ہو گیا کہ ان سے لغزش اور بھول صادر ہو گئی ہے۔ اس احساس کے ساتھ ہی وہ فوراً اپنے خالق وآقا کے سامنے گڑگڑائے اور نہایت عجز وانکسار کے ساتھ اپنی کوتاہی کی معافی طلب کی۔ شیطان کی غلطی محض غلطی نہیں بلکہ کھلی بغاوت و سرکشی تھی۔ اس کے برعکس آدم و حوا علیہما السلام کی غلطی بھول چوک اور سہو نسیان تھی۔ دونوں میں بڑا بنیادی فرق ہے ۔ باغی اور ہٹ دھرم کی سزا معاف نہیں کی جا سکتی جبکہ بھول جانے والے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنے والے کے لیے اللہ کے دربار میں ہمیشہ درِاستجاب کھلا رہتا ہے۔
حضرت عبدﷲ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ابن کثیرؒ نے محدث ابن عبدالرزاقؒ کے حوالے سے لکھی ہے جس میں وہ حضرت آدم علیہ السلام کے ﷲ تعالیٰ سے مکالمے کا ذکر کرتے ہیں۔ حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کو پھل کھاتے ہی یہ احساس ہو گیا کہ ان کے ستر کھل گئے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام دوڑ پڑے اور ایک دخت کے نیچے سے گزرے تو سر کے بال اس کی شاخوں میں الجھ گئے۔ ﷲ تعالیٰ نے پکارا ''آدم تو مجھ سے بھاگ جانا چاہتا ہے؟‘‘ جواب دیا: ''نہیں، میرے پروردگار! میں تو شرم کے مارے چھپتا پھرتا ہوں‘‘۔ ﷲ نے پوچھا: ''کیا میں نے وہ پھل حرام نہیں کیا تھا جسے تو نے اپنے لیے مباح کر لیا‘‘۔ آپ علیہ السلام نے عرض کیا ''مولا‘ تیری عزت کی قسم میں تو تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی تیرے نام پر جھوٹا حلف بھی اٹھا سکتا ہے‘‘۔ (شیطان کی قسموں کی طرف اشارہ ہے۔ وَقَاسَمَھُمَا اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ (سورۃ الاعراف: 21)۔
اور (شیطان نے) ان سے قسم کھا کر کہا : میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں۔
اس کے بعد آپ کو خدا نے خود ہی توبہ سکھائی اور قبول کی۔
حضرت قتادہؓ کہتے ہیں آدم علیہ السلام نے معافی مانگی اور ابلیس نے مہلت مانگی تو ''اَعْطٰی کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا الَّذِیْ سَأَلَہٗ‘‘ ﷲ تعالیٰ نے ہر ایک کا سوال پوار کر دیا۔
اس دعا کا ایک ایک لفظ اس تاثر سے مملو ہے کہ دعا کرنے والے کواپنے کیے پرقلبی ندامت ہے۔ وہ یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ اس کا مقام نافرمانی نہیں بلکہ اطاعت وفرماں برداری ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ غلطی کی معافی دینے والی وہی ایک ہستی ہے جس کے سامنے وہ دست بستہ حاضر ہے۔ اس کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اگر دعا قبول نہ ہوئی تو پھر اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اس کے نزدیک اس در سے ٹھکرائے جانے کے بعد کوئی دوسرا در ہے ہی نہیں جہاں سے اس کی مراد بر آئے۔ ﷲ کے مطیع بندے کی یہی حقیقی تصویر اور شان ہوتی ہے کہ وہ غلطی ہو جانے پر بے چین وبے قرار ہو جاتا ہے‘ اسے کسی کل چین نہیں آتا جب تک کہ وہ اپنی غلطی کی معافی نہ حاصل کر لے۔
حضرت آدم وحوا علیہما السلام کی اس دعا کو خداوند کریم نے قبول کر لیا۔ انہیں معاف کیا اور معافی دینے کے بعد انہیں زمین پرا تار دیا گیا کہ یہی منشائے تخلیق تھا۔ کہا گیا تھا کہ اب تم اپنی اولاد کو بتاؤ کہ زمین پر ہمارے فرماں بردار بن کر رہیں گے تو دائمی طور پر جنت میں رہیں گے اور اگر سرکشی اختیار کریں گے تو ہمیشہ نارِ جہنم میں جلتے رہیں گے۔
قارئین محترم! ہم سے جب بھی کوئی بڑا گناہ یا چھوٹی لغزش سرزد ہو جائے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارا طرزِ عمل شیطان کا ہو گا یا حضرت آدم علیہ السلام کا۔ ہمیں اپنے ماں باپ کی طرح فوراً اللہ کے دربار میں گڑگڑانا چاہیے اور اسی دعا سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنی چاہیے۔ اللہ رحیم و کریم ہر گناہ معاف فرما دیتا ہے۔
اس دل پہ خدا کی رحمت ہو جس دل کی یہ حالت ہوتی ہے
اک بار خطا ہو جاتی ہے، سو بار ندامت ہوتی ہے!