اسلام میں قیادت کا معیار دولت و جاگیر اور مال و زر کی کثرت نہیں بلکہ جسمانی و دماغی صلاحیت اور روحانی و اخلاقی صالحیت ہے۔ اس موضوع پر بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک دلچسپ واقعہ قرآنِ پاک میں بیان ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ و حضرت ہارون علیہما السلام کے بعد بنی اسرائیل کے پیغمبر اور حکمران حضرت سموئیل علیہ السلام تھے۔ یہ تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح کا دور تھا۔ بنی اسرائیل کے مالدار اور دنیا دار سرداروں نے حضرت سموئیل سے کہا کہ وہ ان پر حکمرانی کے لیے کوئی بادشاہ نامزد کر دیں۔ انہوں نے فرمایا کہ تم خلافت کی جگہ بادشاہت چاہتے ہو؟ آخر طویل اصرار کے نتیجے میں اللہ کے نبی نے اللہ سے راہ نمائی کے لیے دعا مانگی۔
اللہ نے اپنے نبی کو بتایا کہ وہ اپنے گھر کے باہر بیٹھ جائیں۔ ایک نوجوان وہاں سے گزرے گا، جسے وہ پہچان لیں گے کہ وہ قیادت کا اہل ہے۔ کچھ لوگوں کے گزرنے کے بعد وہ نوجوان آیا۔ آپ نے اسے پہچان لیا۔ وہ اپنے والد کے گم شدہ گدھے تلاش کرنے کے لیے گھوم رہا تھا۔ آپ نے اسے اپنے پاس بلایا اور اس اہم ذمہ داری کے لیے منتخب کر لیا، پھر آپ نے اس کے سر پر تیل سے بتسمہ دیا جو انبیاء و صلحائے بنی اسرائیل کے لیے ایک دینی رسم تھی۔ اس کے بعد اسے بنی اسرائیل کی بادشاہت پر فائز کر دیا گیا۔ سورہ بقرہ میں اس واقعہ کا تفصیلاً ذکر ملتا ہے۔ آیت نمبر 246 سے آیت 252 تک یہی واقعہ بیان ہوا ہے۔ جدید و قدیم تمام مفسرین قرآن نے اس واقعہ کی تفسیر تفصیلات کے ساتھ قلم بند کی ہے۔ ان کا خلاصہ ذیل میں دیا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ حضرت سموئیل نبی علیہ السلام کے زمانے میں پیش آیا۔ حضرت سموئیل بنی اسرائیل کے نبی اور اس کے ساتھ ان کے حکمران بھی تھے۔ ان کا زمانۂ خلافت تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح تک بیان کیا جاتا ہے۔ ان کے زمانہ میں بنی اسرائیل کی قدیم حریف قوم بنو عمالقہ نے کافی زور پکڑ لیا تھا۔ فلسطین کے اکثر علاقے بنو عمالقہ نے بنی اسرائیل سے چھین لیے تھے۔ حضرت سموئیل بہت ضعیف العمر ہو چکے تھے۔ بنی اسرائیل نے ان سے درخواست کی کہ ان کی قیادت کے لیے کسی تنومند نوجوان کو مقرر کیا جائے جس کی کمان میں وہ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں۔ حضرت سموئیل نے ان کے مزاج کو سمجھتے ہوئے بھانپ لیا تھا کہ وہ نئے لیڈر کے لیے شور تو مچا رہے ہیں لیکن جب اس کا اعلان ہو گا تو یہ لوگ اپنی عادت کے مطابق پھر نکتہ چینی کرنے لگیں گے۔ نیز نیا لیڈر جب اعلانِ جہاد کرے گا تو یہ اپنی تاریخی بزدلی کا اعادہ کرتے ہوئے جہاد سے پہلو تہی کریں گے اور قسم قسم کے عذر ہائے لنگ پیش کرنے لگیں گے۔ اس وجہ سے حضرت سموئیل علیہ السلام انہیں سمجھاتے رہے کہ وہ اس مطالبے سے دست بردار ہو جائیں مگر بنی اسرائیل نہ مانے۔
حضرت سموئیل نے بنی اسرائیل کے مسلسل اصرار پر خدا کے حکم سے حضرت طالوت کو قوم کا بادشاہ بنایا۔ طالوت کے بارے میں یہ متحقق نہیں کہ آیا وہ نبی بھی تھے یا محض بادشاہ۔ بائبل میں ان کا نام ساؤل ہے اور قرآنِ مجید میں طالوت۔ طالوت قبیلہ بن یمین سے تھے۔ جب انہیں قائد بنایا گیا تو ان کی عمر تیس سال تھی۔ وہ نہایت خوبصورت، مضبوط اور بلند قامت تھے۔ عام لوگ ان کے کندھوں تک پہنچتے تھے۔ طالوت کو حضرت سموئیل نے اپنے گھر لا کر سر پر تیل انڈیلا، ان کو چوما اور کہا: ''خداوند نے تجھے مسح کیا تاکہ تو اس کی میراث کا پیشوا ہو‘‘۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کے اجتماعِ عام میں حضرت سموئیل نے اس ہونہار جوان کی بادشاہی کا اعلان کیا۔ بنی اسرائیل میں چار افراد کو مسح کیا گیا۔ سب سے پہلے حضرت ہارون، دوسرے طالوت، تیسرے حضرت داؤد، اور چوتھے حضرت عیسیٰ (علیہم السلام)۔ (استفادہ از تفہیم القرآن، جلد اول، ص 185 تا 188)
طالوت بنی اسرائیل کا لشکر لے کر دریائے اردن کے پاربنو عمالقہ کے مقابلے پر گئے۔ مقابلہ جالوت سے تھا۔ جالوت کے لشکر کی ہیبت بنی اسرائیل پر پہلے ہی چھائی ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں اس سے قبل کئی معرکوں میں بنی اسرائیل اس لشکر سے شکست بھی کھا چکے تھے۔ اس لیے کئی لوگوں نے تو میدانِ کارزار میں اترنے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا ''لَا طَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ‘‘۔ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہے۔ جہاں یہ کم ہمت لوگ یہ عذر پیش کر رہے تھے وہیں بعض عالی ہمت جواں عزم مجاہد یہ بھی کہتے ہوئے سنائی دیے ''کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ‘‘ ۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ ﷲ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آ گیا ہے۔ (سورۃ البقرہ: 249)
ان مخلص مجاہدین کی تعداد کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگوں نے جنگ بدر میں صحابہ کرامؓ کی تعداد کی نسبت سے ان کو تین سو سے کچھ زائد بھی بیان کیا ہے۔ بہرحال قرآنِ مجید میں ان مجاہدین کی دعا سے یہ بالکل واضح ہے کہ وہ اپنے مخالفین سے بہت کم تعداد میں تھے۔ یہی مجاہدین صف شکن تھے کہ جو جان ہتھیلی پر رکھے دشمن کے مقابلے پر جا ڈٹے اور اپنی تمام کوشش اور ظاہری سامان میدان میں ڈھیر کر دینے کے بعد وہ بارگاہ اقدس میں دست بستہ دعا کر رہے تھے کہ ہمارے پروردگار ہم پر صبر کافیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور ہمیں ان کافروں کے مقابلے پر فتح سے ہمکنار کر۔
رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo (سورۃ البقرہ: 250)
''اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر‘‘۔
یہ دعا بنی اسرائیل کے لشکر نے عین اس وقت مانگی تھی جب وہ اپنے سالار طالوت کی سرکردگی میں دریا عبور کر کے فلسطی فوج کے مقابلے پر جا کھڑے ہوئے۔ ﷲ کے بندوں کا کام یہی ہے کہ وہ معرکہ حق وباطل میں جانے سے قبل اپنی مقدور بھرمادی تیاری اور ظاہری ذرائع ووسائل کو بھرپور انداز سے کام میں لاتے ہیں اور اس کے بعد پھر ﷲ کو نصرت غیبی کے لیے پکارتے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ کا تو وعدہ یہی ہے کہ وہ اپنی راہ میں جہاد کرے والوں کی مدد کرتا ہے اور کامیابی کے راستے انہیں سجھاتا ہے۔ ''وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا‘‘ (سورۃ العنکبوت: 69)
''جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے، انہیں ہم اپنے راستے دکھا دیں گے‘‘۔
حضور اکرمﷺ نے بھی اصحابِ طالوت کی طرح جب اپنے 313 جان نثار وجاں سپار مجاہدین خدا کے سامنے میدانِ بدر میں لا کر پیش کر دیے تو اس کے بعد رات کی تنہائی میں فتح ونصرت کی دعا مانگی۔ﷲ تعالیٰ نے طالوت کی بھی مدد کی اور حضور نبی کریمﷺ کو بھی فتح مبین سے نوازا اور یہ ﷲ کی سنت ہے کہ جب بھی اس کے بندے اپنی مکمل تیاری کے بعد اس کے دین کے غلبے کی خاطر باطل قوتوں کے مقابلے پر نکلیں گے اور اس سے مدد مانگیں گے تو وہ ان کی مدد کرے گا۔
لشکرِ طالوت نے جب یہ دعا مانگی تو سامنے جالوت کھڑا دعوتِ مبارزت دے رہا تھا۔ وہ بہت شہ زور اور گراں ڈیل پہلوان تھا۔ کسی کو اس کے مقابلے پر جانے کی ہمت نہ ہور ہی تھی۔ بالآخر حضرت داؤد علیہ السلام‘ جن کی عمر بیس سال سے بھی کم تھی‘ غیرتِ ایمانی سے تمتما اٹھے، اس کے مقابلے پر گئے اور اسے تہِ تیغ کر دیا۔ جالوت قتل ہوا اور اس کے لشکر کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ حضرت داؤد علیہ السلام پوری قوم کے ہیرو بن گئے۔ آگے چل کر نبی اسرائیل کی نبوت وبادشاہت انہی کے حصے میں آئی۔ اللہ نے حضرت دائود علیہ السلام پر الہامی کتاب زبور نازل کی۔ آپ کو اللہ نے خلیفہ کا خطاب عطا فرمایا ارشاد باری ہے: ''(ہم نے اُس سے کہا) ''اے دائود! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقینا اُن کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے‘‘۔ (سورہ ص: 26)
اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اصلی اور حقیقی قیادت جس کے تحت کوئی قوم اور ملک ذلت کی پستی سے نکل کر عزت کے مقام پر فائز ہو سکتا ہے وہ یہاں بیان کر دی گئی ہے۔ جب اس کی قیادت کے اندر جسمانی و دماغی صلاحیت بھی اعلیٰ درجے کی ہو اور اخلاقی صالحیت اور پاکیزگی ٔ کردار بھی بے مثال ہو تو اس کا مقدر فتح اور کامیابی ہوتی ہے۔ آج امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ دولت کی فراوانی یا موروثی بادشاہتیں قیادت کا معیار بن گئی ہیں ۔ امت کے پاس وسائل کی کمی نہیں نہ تعداد کی قلت ہے، مگر کہیں بھی اس امت کا وزن محسوس نہیں کیا جاتا۔ یہ صورت حال اسی وقت بدل سکتی ہے جب ہماری قیادت کے اندر وہ صلاحیتیں موجود ہوں جو قرآن پاک اور اسلام نے ضروری قرار دی ہیں۔ بس ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ اللہ ہم سب، عوام وخواص کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ؎
اندازِ بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات