قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے!
زندگی کے ہر معاملے میں مومن کے لیے اسوۂ حسنہ شاہِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے۔ آج ہماری ملت ہر معاملے میں زوال کا شکار ہے۔ انسان کی طبیعت میں اللہ نے نرمی وگرمی، غصہ ومحبت، شیرینی وتلخی اور حلم وسختی، عفو ودرگزراور بدلہ وانتقام کا خوب امتزاج پیدا کیا ہے۔ یہ سارے جذبات ہرباشعور، ذی ہوش انسان کے اندر پائے جاتے ہیں۔ ان کے اندر توازن، انسانی شخصیت کا حسن کہلاتا ہے اور ان میں سے منفی جذبات کو کنٹرول کرکے مثبت جذبات کو پروان چڑھانا، معراج وکمال کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ کام بہت اچھا ہے مگر مشکل بھی ہے۔ اس میں بڑی محنت لگتی ہے اور یہ رتبہ بلند اسی کو ملتا ہے، جسے خدا بخشے۔ اللہ کی توفیق کے بغیر انسان کچھ نہیں کر سکتا اور یہ بھی اسی کو حاصل ہوتی ہے، جو اس کا طلب گار ہو۔ غصے کو پی جانا، عفوودرگزر کو زندگی کا معمول بنا لینا اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ احسان کا سلوک کرنا بڑے نصیب والوں کا کام اور متقین کی علامت ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں جو مشکل ترین لمحات آئے، ان میں ایک واقعۂ افک بھی ہے۔ اس واقعہ میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر جو بہتان باندھا گیا تھا، اس کی وجہ سے آنحضورﷺ ایک مہینے سے زیادہ سخت اذیت میں مبتلارہے۔ رب کائنات نے سیدہ صدیقہؓ بنت صدیقؓ کی پاک دامنی وپاکیزگی کو وحیٔ ربانی کے ذریعے سے ثابت کردیا۔ آپﷺ نے اس واقعے میں ملوث لوگوں میں سے انہی پر حدِ قذف جاری کی، جن کے خلاف شہادتیں دستیاب تھیں۔ رہے وہ لوگ کہ جن کے خلاف کوئی شہادت ثابت نہ ہو سکی‘ انہیں ان کے جرم کے باوجود آپﷺ نے انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔ وہ اپنی اخروی سزا تو یقینا اللہ کے ہاں روزِ محشر پائیں گے مگر دنیا میں وہ سزا سے بچ گئے۔
اس واقعہ میں آنحضورﷺ کی طرف سے قانونِ ربانی کی پابندی واحترام بھی سامنے آتا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک بہت بردبار، حلیم الطبع اور غصہ پی جانے والے حکمران کی تصویر بھی نمایاں ہو کر ابھرتی ہے۔ کسی بھی حکمران کے لیے سب سے اہم خصوصیت یہی ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی قائم کرے اور ذاتیات سے بالا تر رہ کر عدل وانصاف کی مثال بن جائے۔ اس لحاظ سے نبی رحمتﷺ کا اسوہ بے مثال ہے۔ اے کاش! پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلانے کے دعوے کرنے والے اس طرف بھی توجہ دے سکتے۔
واقعۂ افک میں پھسل جانے والے مخلص صحابہ میں سے بھی تین افراد تھے۔ حضرت حسانؓ بن ثابت، حضرت مسطحؓ بن اثاثہ اور حضرت حمنہؓ بنت جحش۔ حضرت مسطحؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے قریبی عزیز تھے اور ان کی غربت کی وجہ سے جناب صدیق اکبرؓ ان کی معاونت بھی فرمایا کرتے تھے۔ اس واقعہ کے بعد انہوں نے قسم کھالی کہ آیندہ ان کی مالی مدد نہیں کریں گے۔ اس پر اللہ نے سورۃ نور کی آیت نمبر22 میں عفوودرگزر کا حکم دیا تو صدیق اکبرؓ نے حسبِ سابق ان کی مالی امداد بحال کر دی، صحابہ کرامؓ کی سیرت آنحضورﷺ کے اسوہ حسنہ کا عکس ہے۔
اہلِ طائف نے آپﷺ کے ساتھ جو معاملہ کیا، وہ تاریخ کا معروف مگر درد ناک باب ہے لیکن ان کے خلاف آپﷺ نے بددعا تک نہ کی۔ مکے میں آپﷺ اور آپ کے صحابہ کرامؓ کے ساتھ کیا کچھ نہ بیتا‘ آپﷺ کو تین سال شعب ابی طالب میں اس طرح گزارنا پڑے کہ لوگ درختوں اور جھاڑیوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوگئے۔ پھر دوسال بعد آپﷺ کو ظلم وستم کے ساتھ گھر سے نکال دیا گیا اور نکل جانے کے بعد آپﷺ کو پکڑنے کے لیے انعام مقرر کر کے آپ کا تعاقب کیا گیا اور ناکامی پر الٹا مشرکین کا غضب بھڑک اٹھا۔
مدینہ میں آنحضورﷺ اور صحابہ کرامؓ کو جائے قرار ملی تو مشرکین مکہ اس پر تلملا اٹھے۔ مدینہ پر باربار حملے کیے گئے اور احد کے میدان میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شدید بدنی وذہنی زخم لگائے گئے۔ آپﷺ کے محبوب چچا حضرت حمزہؓ کی نعش کا مثلہ کیا گیا۔ آپﷺ کے خلاف نیزے، تیر اور تلواریں ہی نہیں، زبانوں کی اذیت ناک قہرمانیوں کا ہر حربہ بھی آزمایا گیا۔ جس مکہ میں یہ سب کچھ ہوا، اس مکۃ المکرمہ میں آپﷺ رمضان 8ھ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو انسانی تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہوا، جو بے مثال ہے۔ وہ منظر کتنا عجیب تھا جب اسلامی لشکر اپنے سالار اعظم کی قیادت میں وادیٔ مکہ میں پہنچ چکا تھا۔
آج مکہ مدینہ کے سامنے سرنگوں تھا۔ اس کے سارے کس بل نکل چکے تھے۔ مکہ کے باہر اسلامی لشکر کے ایک علم بردار جناب سعدؓ بن عبادہ جوشِ ایمانی سے پکار اٹھے: آج خون ریزی اور قتل کا دن ہے، آج حرمتیں حلت میں بدل جائیں گی۔ یہ بات آنحضورﷺ کے جاں نثار صحابہ عثمانؓ بن عفان اور عبدالرحمنؓ بن عوف نے بھی سنی اور سردارِ قریش ابوسفیان‘ جو اس وقت حضرت عباسؓ کی پناہ میں تھا‘کے کان بھی اس نعرے سے آشنا ہوئے۔
ابوسفیان پر سیدالخزرج کے اس نعرے نے خوف طاری کردیا جبکہ حضرت عثمانؓ اور عبدالرحمنؓ بھی پریشان ہوگئے۔ انہوں نے آنحضورﷺ کی خدمت میں آکر علم بردار، سردارِ انصار کے نعرے کی خبر دی۔ جواب میں آپﷺ نے فرمایا! نہیں! آج کا دن خون ریزی کا دن نہیں بلکہ کعبہ کی تعظیم اور اہلِ مکہ کی عزت کا دن ہے۔ فاتح اعظمﷺ فتح کی گھڑی میں فرمارہے تھے کہ خون کی ندیاں نہیں رحمت کا دریا بہے گا۔ پھر آپﷺ نے حضرت سعدؓ سے جھنڈا واپس لے لیا۔ یہ جھنڈا کسی اور صحابی کو بھی دیا جاسکتا تھا مگر دوررس نگاہ رکھنے والے سالارِ اعظمﷺ نے حضرت سعدؓ کے بیٹے حضرت قیسؓ کو جھنڈا مرحمت فرمادیا۔ اب مکہ میں فاتحانہ داخل ہونے کے بعد آپﷺ نے سب سے پہلے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا۔ خانہ کعبہ کے اندر اسامہ بن زید، بلال اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم آپﷺ کے ساتھ تھے۔
خانہ کعبہ میں نفل ادا کرنے کے بعد آپﷺ نے خانہ کعبہ کے دروازے میں کھڑے ہوکر مجمع پر نظرڈالی۔ سرکش قریش آج مغلوب تھے۔ اکڑی ہوئی گردنیں خمیدہ تھیں۔ آپﷺ نے ایک مؤثر خطبہ دیا، جس میں اللہ کی توحید وعظمت، اس کی مدد ونصرت، اس کے وعدوں کی صداقت اور اسلام دشمن قوتوں کی شکست کا ذکر تھا۔ پھر آپﷺ نے انسانیت کی مساوات کا تذکرہ فرما کر کبرونخوت کو اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالنے کا اعلان فرمایا۔ اب قریش دم سادھے منتظر تھے کہ ان کے بارے میں کیا حکم صادر ہوتاہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''اے اہلِ قریش، تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ وہ یک زبان پکار اٹھے، آپﷺ، ہمارے کریم بھائی اور مہربان بھائی کے سپوت ہیں۔ یہ بے بسی کا اظہار بھی تھا اور حقیقت کا اعتراف بھی۔ یہ انہی لوگوں کی زبان سے سامنے آرہا تھا، جنہوں نے خود کو ہمیشہ سرکش اور ناقابلِ شکست قرار دیا تھا اوراس کریم بھائی اور بھتیجے کو ہمیشہ بے آسرا گردانا تھا۔
اب عظمتوں اور رفعتوں کا امین گویا ہوا: ''میں تم سے وہی بات کہوں گا، جو میرے بھائی یوسفؑ نے مصر کے تخت سے اپنے برادران سے کہی تھی۔ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ، اِذْھَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَاء یعنی آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔مکہ میں داخل ہوتے وقت آپﷺ نے یہ بھی اعلان فرمایا تھا کہ جو شخص مسجد حرام میں داخل ہوجائے، اس سے کوئی مواخذہ نہ کیا جائے، جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے یا اس کی دیوار کے سایے میں بیٹھ جائے، اس سے بھی کوئی مواخذہ نہ کیا جائے۔ اللہ کے گھر کی تعظیم کرنے والے نے اپنے دشمن کو بھی تکریم کا مستحق قرار دیا، سبحان اللہ! آپﷺ نے کچھ دن مکہ میں قیام فرمایا۔ اسی دوران آپﷺ کی خدمت میں عکرمہ بن ابوجہل کی بیوی ام حکیم اپنے بچوں کے ساتھ حاضر ہوئی۔ آپﷺ نے دشمن کی بیوی کو بھی مکمل احترام دیا اور اس کے بچوں کے سرپہ دستِ شفقت رکھا۔ یہی نہیں بلکہ کمال محبت سے ان کے باپ کا حال پوچھا اور اس کے بارے میں نیک جذبات کا اظہار کیا۔
حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی ہند بھی بیعت کے لیے حاضرہوئی تو آپﷺ نے نہ صرف اسے معاف فرمادیا بلکہ اس دردناک واقعہ کی طرف کوئی اشارہ تک نہ کیا۔ انسان اگر بے بس ہو اور اپنے اعدا سے بدلہ نہ لے سکے تو بھی اس کا صبر، اس کے لیے باعثِ خیر ہے؛ تاہم وہ انتقام پر قادر ہو اور خوفِ خدا سے سرشار ہوکر انتقام کے بجاے عفوودرگزر کا مظاہرہ کرے، تو یہ انسانیت کی معراج ہے۔ اسوہ رسولﷺ اس امت کی راہ نمائی کے لیے سیرتِ طیبہ میں جلوہ افروز ہے۔ ہم پستی سے بلندی کی طرف اٹھنا چاہیں تو یہ ارادہ بڑا مبارک ہے۔ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانا حقیقی کامیابی ہے۔ عملی جامہ پہنانے کے لیے محض نعرے نہیں بلکہ اسوۂ رسولؐ کی پیروی کامیابی کی یقینی کلید ہے۔
انسان مغلوب الغضب ہوجاتا ہے۔ آتشِ انتقام بھڑک اٹھے تو اسے ٹھنڈا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان سارے مشکل اور کٹھن مرحلوں کو کامیابی سے سرکرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اتباع رسولؐ۔ اسی سے بندہ، اللہ کا محبوب اور بخشش خداوندی کا مستحق بنتا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر حقیقت میں تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔(آلِ عمران:31)
علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے:
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است!