ڈاکٹر عبدالقدیر خان! … (2)

ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم کی خود نوشت سوانح عمری ''داستانِ عزم‘‘ کے نام سے حال ہی میں چھپی ہے۔ اس کے آغاز میں ان کے تین اشعار کتاب کے پبلشر کی طرف سے لکھے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک شعر ڈاکٹر صاحب کی زبانی ان کے کئی احباب نے سنا تھا جو ان کے انتقال کے بعد تو زبان زدِ عام ہو گیا۔ یہ شعر پوری آپ بیتی ہے جو معانی اور ہجو کے خوب صورت اور مہذب احتجاج کے ساتھ لاتعداد پیغامات سے لبریز ہے۔ شعر کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ چند الفاظ میں طویل داستانیں سمیٹ کے رکھ دیتا ہے۔ کوفی ہر دور میں بے وفائی کی تاریخ میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ محسنِ پاکستان کے ساتھ بھی ان کوفیوں کی زیادتیاں تاریخ میں نقش ہو گئی ہیں۔
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
دوسرے دو اشعار بھی بہت کمال کے ہیں۔ ان میں سے ایک شعر میں ڈاکٹر صاحب نے بین السطور بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ؎
اس ملکِ بے مثال میں اک مجھ کو چھوڑ کر
ہر شخص بے مثال ہے اور باکمال ہے
شعر کو ایک نظر دیکھیں تو اس میں انکسار و تواضع کی بہترین مثال نظر آتی ہے، جبکہ ایک اور تناظر میں اس کا تصور کریں تو اس ملک و قوم اور بالخصوص اہلِ اقتدار سے زبردست الفاظ میں شکوہ کیا گیا ہے۔ پوری زندگی کے دوران اپنی ساری صلاحیتیں جس شخص نے مکمل ایثاراور بے لوثیت کے ساتھ اپنے وطن کے لیے وقف کر دیں‘ اسے غداری کا تحفہ دیا گیا۔ اہلِ ہوس کی طرف سے محسنِ وطن کو رسوائی کا نشانہ بنایا گیا، انہیں ناقابلِ تصور تکالیف میں مبتلا کر دیا گیا۔ دوسری طرف اہلِ ہوس ہر قسم کی عوام کش حرکتوں کے باوجود اقتدار اور تحسین کے مزے لوٹتے رہے۔ تیسر شعر قلبِ مطمئنہ کا مظہر ہے ؎
ہمارے ذکر سے خالی نہ ہو گی بزم کوئی
ہم اپنے کام کی عظمت وہ چھوڑے جاتے ہیں
اس شعر کا ایک ایک لفظ معانی کا سمندر اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے جن نامساعد حالات کے باوجود پوری ہمت اور مہارت کے ساتھ پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا‘ اسے کبھی بھی بھلایا نہ جا سکے گا۔بلاشبہ انسانوں کی عظمت ان کے بے مثال و لازوال کارناموں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ یہ سائنس دان کمال کی شخصیت رکھتا تھا۔ سائنس کے ساتھ ادب اور نظریاتی سوچ مرحوم کی پہچان تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مرحوم کتابوں کے عاشق تھے۔ ان کے گھر جن لوگوں کو جانے کا اتفاق ہوا، ان میں سے ہر ایک نے یہی بیان کیا کہ آپ کے کمرے میں ہر جانب کتابیں ہی کتابیں نظر آتی تھیں۔ سائنس کے ساتھ تاریخ، عمرانیات، تصوف اور اسلامی تحریکات کے متعلق بہترین لوازمہ آپ کی لائبریری کا حصہ تھا۔
پابندیاں لگنے سے قبل‘ بھلے وقتوں میں ڈاکٹر خان مرحوم اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ بیٹھتے تو یورپ میں گزرنے والے ماہ و سال کا بہت دلچسپ اور معلومات افزا تذکرہ کرتے۔ اسی طرح اپنی جنم بھومی بھوپال کے بارے میں فرمایا کرتے کہ جہاں انسان کا بچپن گزرے، اس علاقے کے گلی کوچوں، درختوں، جھاڑیوں، ندی نالوں اور نشیب و فراز سے اسے قلبی لگائو ہوتا ہے۔ اپنے مولد اور بزرگوں کے مسکن کو دیکھنے کی خواہش ان دنوں اور بھی زیادہ شدید ہو گئی تھی جب آپ ایٹمی ٹیم میں شامل ہو کر پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے۔ اپنے مشن میں کامیابی حاصل کر لی تو گویا اب بھارت کی سرزمین پر قدم رکھنا بھی ممکن نہ رہا تھا۔ آپ کو بھوپال کی تاریخ اور جغرافیہ ازبر تھے۔
یورپ میں اپنی تعلیم کے دوران ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ملاقات ایک ڈچ (Dutch) لڑکی سے ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کیا۔ اس لڑکی کا نام ہینی (Henny) تھا۔ اس کے والدین ہالینڈ سے سائوتھ افریقہ میں چلے گئے تھے اور وہ وہیں پیدا ہوئی، بعد میں یہ لوگ افریقہ سے اپنے وطن واپس آ گئے اور یہیں مقیم ہو گئے۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے اس لڑکی کو مسلمان کیا اور ہیگ میں پاکستانی سفارت خانے کے اندر انتہائی سادگی کے ساتھ 1963ء میں شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ اللہ نے میاں بیوی کو دو بیٹیاں عطا فرمائیں۔ ہینی خان کا کمال ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہر طرح کے حالات میں مکمل تعاون کیا۔ کبھی شکوہ شکایت نہ کیا۔ بیگم خان نے بچیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جس کی تحسین ڈاکٹر صاحب کئی بار اپنے دوستوں کے سامنے کیا کرتے تھے۔ مشکلات میں ڈاکٹر عبدالقدیر کیساتھ ہینی خان نے مکمل تعاون کر کے ثابت کر دیا کہ واقعی ایک وفادار و ذی وقار خاتون ہیں۔ مسز عبدالقدیر کو اپنے نام ہینی کے ساتھ خان کا لاحقہ بہت محبوب ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ذہین بھی تھے اور انتہائی محنتی بھی۔ اپنے ٹائم کا ہمیشہ بجٹ بناتے اور اس کا ایک ایک لمحہ مفید بناتے۔ جرمنی میں اپنا کورس مکمل کرنے کے بعد نیدرلینڈ میں آپ نے کئی ڈگریاں حاصل کیں۔ اسی طرح بلجیم میں تعلیم پائی اور کچھ عرصے کے لیے وہاں بطور سائنسدان کام بھی کیا۔ تعجب ہوتا ہے کہ اتنے مختصر وقت میں مرحوم نے اتنے سارے ممالک کے بے شمار تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور ہر جگہ اعزاز کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ خاص طور پر آپ کا جو پسندیدہ وچیدہ مضمون میٹالرجیکل انجینئرنگ تھا‘ اس میں آپ کی مہارت پورے یورپ میں قابلِ تحسین قرار دی گئی۔ پھر آپ نے ہالینڈ میں یورینیم کی افزودگی کے میدان میں بہت کمال حاصل کیا۔ یہاں بہت ہی پُرتعیش زندگی گزار رہے تھے کہ اس دوران دو واقعات نے انہیں انتہائی دکھی کر دیا۔ ایک تو پاکستان کا دولخت ہو جانا تھا، جسے وہ کبھی فراموش نہیں کر سکے۔ دوسرا مئی 1974ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا واقعہ تھا جس نے ڈاکٹر خان کو بے چین کر دیا۔
ہالینڈ میں جس شعبے میں آپ کام کر رہے تھے‘ وہ شعبہ ایٹمی سائنس سے ہی تعلق رکھتا تھا۔ یورینیم کی افزودگی پر کام کرتے ہوئے اللہ کے فضل سے آپ نے ہمیشہ اپنے تجربات میں کامیابی حاصل کی۔ ان کامیابیوں سے آپ کا اعتماد اور بڑھ گیا۔ آپ اپنے وطن کے بارے میں ہمیشہ فکرمند رہتے تھے۔ پاکستان کی محبت آپ کی رگ رگ میں ہر وقت مچلتی رہتی تھی۔ اسی دوران جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے توآپ کے دل میں شدت سے یہ تمنا مچلنے لگی کہ کاش پاکستان کو بھارت کے مقابلے پر کھڑا رہنے کے لیے ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل ہو جائے۔ بھارت کے دھماکوں نے اس فرزندِ پاکستان اور بندۂ مومن کو مضطرب تو کر دیا مگر آپ ذرا بھی مایوس نہ ہوئے۔ آپ پُرعزم تھے کہ بھارت کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ یہ قابلِ ذکر بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی خودنوشت‘ جو ان کی وفات کے بعد مجھے ملی‘ کا عنوان بھی ''داستانِ عزم‘‘ رکھا ہے۔ اس کتاب کو دیکھنے سے قبل بھی میرے تصور میں مرحوم عزیمت و ہمت کا پیکر تھے۔
جس وقت بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے‘ اس دوران پاکستان میں بھی حکومت کے زیراہتمام پاکستانی سائنس دان پوری تن دہی سے ریسرچ کر رہے تھے کہ پاکستان کی طرف سے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی خدمت سرانجام دے سکیں۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مکمل یکسوئی کے ساتھ اس سکیم کی پشت پناہی کر رہے تھے مگر پاکستانی سائنسدانوں میں سے اکثر اس مہارت تک ابھی نہیں پہنچے تھے جو اس کام کے لیے ضروری تھی۔ ڈاکٹر اے کیو خان کے بقول‘ جن میں کچھ صلاحیت تھی وہ بھی اس میدان میں ابھی ناپختہ تھے۔ قدرت کے فیصلے حیران کن ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے حکومت پاکستان کے ذمہ داران کے ساتھ خط و کتابت جاری تھی۔ اس تگ و دوکے نتیجے میں آخرکار ان کا رابطہ وزیراعظم پاکستان مسٹر ذوالفقار علی بھٹو سے ہو گیا۔ پاکستان آ کر انہوں نے اپنی پہلی ملاقات میں ایٹمی ترقی اور پیش رفت کے حوالے سے وزیراعظم کی خدمت میں اپنا تجزیہ پیش کیا، تو بھٹو صاحب نے اس کی تحسین کی۔
کتنی عظیم بات ہے کہ کنواں پیاسے کے پاس آنے کے محاورے سے بھی اگلا مرحلہ طے ہو گیا؛ یعنی کنواں نہیں بلکہ چشمہ پیاسے کے پاس آ گیا۔ بھٹو صاحب ہی کی دعوت بلکہ اصرار پر ڈاکٹر عبدالقدیر نے یہ مشکل فیصلہ کیا تھا کہ یورپ میں پُرتعیش زندگی چھوڑ کر وطن واپس آ گئے۔ اس میں ان کی اہلیہ اور بچیوں کا بھی کمال ہے کہ جو یورپی قومیت سے تعلق رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ پاکستان آنے پر نہ صرف رضامند ہوئیں،بلکہ بعد کے ادوار میں انتہائی ابتلا کے ایام اور معاشی مشکلات بھی خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔ اللہ انہیں اس ایثار و قربانی کا بہترین اجر عطا فرمائے۔
عجیب بات ہے کہ جو بیوروکریٹ اس ایٹمی منصوبے کا نگران مقرر کیا گیا‘ اسے اس شعبے کی الف ب کا بھی کوئی پتا نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے موصوف کا نام لے کر حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کا مکمل چارج جب ڈاکٹر عبدالقدیر کے ہاتھ میں آیا، تو آپ نے اس کی ترقی اور فول پروف سکیورٹی کا ایسا انتظام کیا کہ جسے دیکھ کر بڑے بڑے عسکری افسران حیران رہ گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی خودنوشت میں اس کی پوری تفصیل بیان کی ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں