عبادالرحمن کی تیرہ صفات جو سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں بیان ہوئی ہیں‘ ان میں سے سات صفات کا تذکرہ گزشتہ قسط میں ہو چکا ہے۔ اب ان کی باقی ماندہ چھ صفات قرآنِ مجید کی روشنی میں ان سطور میں مذکور ہیں:
بدکاری سے اجتناب: اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے یہ عبادالرحمن زنا اور بدکاری کے مرتکب نہیں ہوتے۔ شادی شدہ شخص کے لیے زنا کی سزا رجم ہے اور غیر شادی شدہ کے لیے سو کوڑوں کی سزا مقرر ہے۔
توبہ و انابت: گناہ کا ارتکاب بہ تقاضائے بشری ہو جائے تو اس پر سچی توبہ کرتے ہیں اور نیک اعمال میں اضافہ کرتے ہیں۔ توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ بندہ عاصی و خطاکار اور بھول جانے والا ہے۔ جب بھی گناہ ہو جائے، اللہ کی طرف تائب ہو کر پلٹ آنا ایمان کی صفت اور اہلِ ایمان کی علامت ہے۔ اللہ نے یہاں فرمایا ہے کہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے والوں کے گناہ معاف ہونے کے ساتھ نیکیوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور سیّات (گناہوں) کو توبہ کی برکت سے حسنات (نیکیوں) میں بدل دیا جاتا ہے۔
شہادت زور سے اجتناب: عبادالرحمن کا دسواں وصف یہ ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے، نہ جھوٹ اور باطل کو پسند کرتے ہیں۔ جھوٹی گواہی کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ یہ انسانی شرافت کی نفی ہے۔ عبادالرحمن اس سے مکمل پرہیز و اجتناب کرتے ہیں۔
لغویات سے نفرت: اللہ والے لغو کاموں سے دامن بچا کر زندگی گزارتے ہیں۔ حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ کسی مومن کے اسلام و ایمان کا حسن و کمال یہ ہے کہ وہ ہر طرح کے لغوکاموں اور باتوں کو مکمل طور پر ترک کر دے۔ (سنن ترمذی عن ابی ہریرہؓ)
دانا و بینا: یہ لوگ صاحبِ بصیرت ہوتے ہیں۔ آیاتِ الٰہی سے ان کو تذکیر کی جائے تو اندھے اور بہرے نہیں بن جاتے۔ بندۂ مومن اللہ کی آیات کو دل کی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ جو لوگ اللہ کی آیات سن اور دیکھ کر اندھے اور بہرے بن جاتے ہیں وہ نورِ ایمانی اور معرفتِ ربانی سے عاری اور محروم ہوتے ہیں۔ عباد الرحمن کو اللہ قلبِ سلیم و فطرتِ منیب سے نوازتا ہے۔ یہ بہت بڑی خوشی نصیبی ہے۔
اہل و عیال کی اصلاح اور تزکیہ کی دعا کرتے اور اپنے لیے تقویٰ کی استدعا کرتے ہیں۔
ان صفات میں عبادالرحمن کی دو دعائوںکا تذکرہ صفت نمبر 4 اور صفت 13 میں فرمایا گیا ہے۔ قرآنی دعائوں میں سے ہر ایک رحمن کی طرح بے مثال ہے کیوںکہ یہ اس کی صفتِ کلام میں سے ہے۔ پہلی دعا اس سے قبل صفت نمبر 4 کے ساتھ بیان ہو چکی ہے۔ یہاں دوسری دعا کا مختصر تعارف اور تشریح قارئین کی خدمت میں عرض ہے۔ یقینا اہلِ ایمان ان دعائوں کا کثرت سے اہتمام کرتے ہوں گے۔ بہرحال ان سطور سے اپنے لیے اور قارئین کے لیے تذکیرمقصود ہے۔ یہ دعا مندرجہ ذیل ہے:
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًاo (الفرقان:74)
''اے ہمارے رب‘ ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے‘ اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘۔
عبادالرحمن کی یہ دعا بڑی جامع ہے‘ اس میں وہ عرض کرتے ہیں ''اے اﷲ ہمارے اہل وعیال کو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے‘‘۔ آنکھوں کی ٹھنڈک کا مفہوم یوں تو بڑا عام فہم ہے لیکن یہاں اس کے معانی کافی عمیق ودقیق ہیں۔ فطری طور پر انسان کے اہل وعیال اس کے لیے باعثِ سکون وطمانیت ہوتے ہی ہیں لیکن ایک بندۂ مومن کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک وہ اسی صورت میں ثابت ہو سکتے ہیں جبکہ ان کی زندگی کا مقصود ہی دینِ الٰہی کی سربلندی اور سرفرازی ہو۔ وہ اگر ظاہری شکل وصورت سے حسین وجمیل اور طرزِعمل کے لحاظ سے اس کے مطیعِ فرمان ہوں تو ایک دنیادار آدمی کے اطمینان کے لیے یہ کافی سامان ہے۔ وہ اگر اس سے آگے سوچے گا تو زیادہ سے زیادہ اس کی پروازِ فکر یہاں تک پہنچے گی کہ وہ نہایت ذہین وفطین اور زندگی کے معاملات کو کامیابی سے چلانے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔ اچھے عہدے حاصل کر لیں یا مال کمانے اور کاروبار چمکانے کے ماہر ہو جائیں۔ اس سے آگے اس کی نظر میں ''آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
مادہ پرستوں کی سوچ کے برعکس ایک دین دار آدمی کے لیے یہ ساری باتیں بھی اہمیت کی حامل ہوں گی لیکن ان کی حیثیت اس کے نزدیک ثانوی ہو گی۔ اصل اہمیت وہ اس بات کو دے گا کہ اس کے یہ منظورِ نظر اہل وعیال خدا کے احکام کی کس قدر پابندی کرتے ہیں۔ وہ خود ہی نہیں بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی دوزخ کی آگ سے بچانا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ جس قدر زیادہ خلوص ومحبت کے ساتھ خدا کے فرماں بردار بندے بنیں گے عبادالرحمن کو اسی قدر زیادہ آنکھوں کی ٹھنڈک فراہم ہو گی۔
اس دعا کے دوسرے حصے میں عبادالرحمن اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ انہیں پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔ اس کا مطلب و مفہوم عبادالرحمن کی صفات کو‘ جو اسی مقام پر بیان ہوئی ہیں‘ ذہن میں رکھنے سے واضح ہو جاتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ''اے اﷲ ہمیں زیادہ سے زیادہ نیکی وتقویٰ کی توفیق بخش تاکہ ہم میدانِ عمل میں بہت زیادہ سرمایہ جمع کر سکیں۔ دوسرے الفاظ میں نیکیوں میں سبقت کا اعزاز حاصل کریں۔‘ ‘ اس مفہوم کی گنجائش قرآنِ مجید کی سورۃ الملک کی ابتدائی آیات میں بھی ملتی ہے جہاں اﷲ تعالیٰ نے خلق موت وحیات کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ''لِیَبْلُوَکُمَ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا‘‘ (تاکہ وہ تمہارا امتحان لے کہ تم میں سے کون نیک اعمال میں آگے نکل جاتا ہے)۔
اسی طرح قرآنِ مجید میں نیکی اور خیر کی طرف جلدی بھاگنے اور مسابقت کی بھی ترغیب دی گئی ہے مثلاً ''وَسَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ...‘‘ (آل عمران: 133) اس مفہوم کی متعدد آیات قرآنِ مجید میں مذکور ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں امامت متقین سے مراد یہی ہے کہ ''اے اﷲ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ جذبہ وجوش اور قوتِ عمل کی توفیق بخش‘‘۔
یہ اس کا ایک مفہوم ہے۔ دوسرا مفہوم جو اسی دعا کے الفاظ پر غور وخوض کرنے سے نکلتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ انسان اپنی اولاد اور اہل وعیال کے لیے دعا کرتا ہے کہ وہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوں۔ وہ چونکہ ان کا سرپرست اور سردار ہے اس لیے اسے ان کی بھلائی مقصود ہے۔ سرپرست امام ہی ہوتا ہے اور جن کا وہ امام ہے ان کے لیے اس کی دعا ہے کہ وہ متقی وپرہیزگار ہوں نہ کہ بدکار وبداطوار۔ گویا وہ دعا کر رہا ہے کہ تو نے مجھے ان کا امام بنایا ہے تو اب ان کو متقی بنا۔ وہ متقی بنیں گے تو جبھی میری آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ثابت ہوں گے وگرنہ نہیں۔
اس آیت پر بعض مفہوم نا آشنا لوگ اس مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ایک طرف اسلام طلبِ منصب سے منع کرتا ہے اور دوسری طرف یہاں عبادالرحمن خود ہی امامت کے طلب گار بن کر سامنے آتے ہیں۔ اس مغالطے کا جواب اوپر کے دونوں مفہوم دے رہے ہیں۔ دراصل یہ اعتراض کرنے والے نہ تو سیاق وسباق کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی قرآنِ حکیم کے اسلوب سے واقف ہیں۔ ان کو بس امامت کا لفظ نظر آ گیا اور انہوں نے جھٹ اعتراض جڑ دیا۔ فی الحقیقت یہاں جس امامت کا ذکر ہو رہا ہے‘ وہ اس امامت سے مختلف ہے جس امامت میں سیاسی اقتدار کے معنی پائے جاتے ہیں۔ اب اگر کسی شخص کو ''رب البیت‘‘ کہا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے ربّ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرا لیا ہے۔ یہ سمجھنے کی باتیں ہیں اور سمجھ میں ان لوگوں کے ہی آ سکتی ہیں جو سمجھنے کے طلب گار ہوں۔
اس آیت کو بنیاد بنا کر بعض خودساختہ ''مفتیانِ اسلام‘‘ اور ''مفسرینِ قرآن‘‘ کسی منصب کے لیے خود امیدوار بن جانے کے حق میں بھی جواز ثابت کر تے ہیں۔ اسلام میں طلبِ اقتدار برائے ذات یا برائے مخصوص جماعت اور گروہ قطعاً ممنوع ہے۔ اسلام میں طلبِ اقتدار اعلائے کلمۃ اﷲ کے لیے نہ صرف جائز بلکہ فرض ہے اور اس کے معاملے میں سستی وغفلت سنگین جرم ہے۔ اب اقتدار کو حاصل کرنے اور چلانے کے لیے انسان ہی کام کریں گے۔ اس لیے ان کو اقتدار سنبھالنا تو لازماً ہے لیکن وہ اقتدار اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق چلائیں گے تو طاغوت کے غلام ہوں گے۔ اگر ذاتی خواہشات سے بالاتر رہ کر احکامِ ربانی کا نفاذ کریں گے اور خلفائے راشدین و دیگر صالح مسلم حکمرانوں کی مانند محض خدا ورسول کے نمائندے بن کر رہیںگے تو عبادالرحمن ہوں گے۔ ان کے اس مقصد کے لیے طلبِ اقتدار کے احکام قرآن وسنت میں بکثرت موجود ہیں مگر یہاں اس آیت میں وہ مفہوم نہیں پایا جاتا کجا یہ کہ ذاتی امیدواری برائے حصولِ اقتدار کا جواز زبردستی نکال لیا جائے۔
ان 13صفات کے آخر میں اللہ کے خوش نصیب بندوں کو ملنے والے انعام کا تذکرہ قرآن میں یوں فرمایا گیا ہے۔
أُولٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَّسَلَامًا... (الفرقان:75 تا 76)
''یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل خوبصورت بالا خانوں کی شکل میں پائیں گے، آداب و تسلیمات سے ان کا استقبال ہو گا۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ کیا ہی اچھا ہے وہ ٹھکانہ اور وہ مقام!‘‘۔ اللہ ہم سب کو اس کا مصداق بنا دے، آمین!