عمرِ رفتہ کو آواز دو

ڈائری لکھنا ایک فن ہے۔ کئی لوگ اپنی ڈائری باقاعدگی سے روزانہ لکھتے ہیں۔ مجھے بھی کبھی اس کا شوق ہوا کرتا تھا، مگر رفتہ رفتہ یہ عادت کم ہوتے ہوتے تقریباً چھوٹ گئی؛ تاہم کبھی کوئی پرانی ڈائری ہاتھ لگ جائے تو اسے جھاڑ پونچھ کر نظر ڈالنے کو اب بھی جی چاہتا ہے۔ اپنی ہی لکھی ہوئی یادداشتیں دوبارہ پڑھیں تو عجیب لگتی ہیں۔ کچھ چیزیں تو بالکل نئی معلوم ہوتی ہیں، جبکہ کئی یادیں ڈائری کے اوراق سے بھی زیادہ واضح انداز میں لوحِ حافظہ پر محفوظ ہوتی ہیں۔ اگلے روز 13اگست 2012ء کے کچھ اوراق نظرخراش... معاف کرنا نظرنواز ہوئے تو کئی گوشے وا ہو کر تازہ ہوگئے۔
ایک روز (13 اگست) کی ڈائری جو اگلے دن (14 اگست کو) برمنگھم‘ برطانیہ میں لکھی گئی، کچھ اس طرح ترتیب پائی ؛ آج اتوار کا دن اگست کی چودہ تاریخ ہے اور رمضان کے روزے بہت لمبے، مگر انتہائی آسان ہیں۔ ٹھنڈ اتنی زیادہ ہے کہ دن کو دھوپ میں بیٹھ کر کل کی ڈائری لکھ رہا ہوں۔ یہ اوراق بتا رہے ہیں کہ کل بروز ہفتہ عصر کی نماز ہمیں یہاں کے ایک اور معروف اسلامک سنٹر آلم راک (Alum Rock) کی جامع مسجد میں ادا کرنا تھی۔ برادرم شبیر صاحب یوکے اسلامک مشن آلم راک کے مقامی ناظم اور بڑے محنتی ساتھی ہیں۔ اس مرکز میں مفتی عبد المجید ندیم خطیب اور امام ہیں، جن کے ساتھ اساتذہ اور علما کی ایک اچھی اور فعال ٹیم ہے۔
سپارک بروک اسلامی مرکز سے مفتی محمد فاروق علوی صاحب، جناب محمود خاں صاحب، تابش مہدی صاحب اور راقم الحروف آلم راک مسجد میں پہنچے تو بڑی خوشی ہوئی کہ مسجد میں نمازیوں کی گہما گہمی تھی۔ عبد المجید ندیم صاحب ہمیں دیکھ کر از حد مسرور تھے۔ بڑے تپاک سے ملے اور شکریہ ادا کیا کہ ہم لوگ ان کے مرکز میں پروگرام کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ مفتی صاحب کی طرح جمعیت طلبہ عربیہ کے کئی سابقین ہر جگہ محاذ سنبھالے ہوئے ہیں اور بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ اللہ اس تنظیم کو قائم و دائم رکھے اور ان فضلا کو بھی استقامت بخشے۔
جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان دینی اداروں کی طلبہ تنظیم ہے جو تحقیق و مطالعہ اور تصنیف وتالیف کے کئی پروگرام اپنے صوبائی اور مرکزی نظم کے تحت منظم کرتی رہتی ہے۔ ہمارا ادارہ معارف اسلامی لاہور ان کی ان تمام سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ ہمیں ان نوجوانوں کو اپنے ادارے میں خدمات اور تعاون پیش کرکے بڑی مسرت ہوتی ہے۔ اس خوب صورت مسجد میں اپنے پرانے معاون جناب حافظ عبد الغنی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ حافظ صاحب بہت محبت کرنے والے بزرگ ہیں۔ ان سے جب بھی ملا ہوں، قلبی وروحانی مسرت محسوس کی ہے۔ نمازِ عصر کے بعد تلاوتِ قرآن پاک سے پروگرام شروع ہوا۔ پھر جماعت اسلامی ہند کے رکن اور مشہور شاعر تابش مہدی صاحب کا نعتیہ کلام حسبِ معمول خوش الحان آواز میں سامعین کے گوش نواز ہوا۔
میری ڈائری میں موصوف کی ایمان افروز نعت کے کئی اشعار درج ہیں۔ ان میں سے چند ایک نذر قارئین کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں:
سن لو یہ اعلان ہمارا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
دینِ نبیؐ سے دل کا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
نامِ نبیؐ سے جلنے والے کل بھی تھے اور آج بھی ہیں
نامِ نبیؐ کا جھنڈا اونچا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
انا اعطینک الکوثر شانِ مقدس ہے جس کی
وہ ساری دنیا کا اُجالا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
مجھ کو تو صدیقؓ و عمرؓ، عثمانؓ و علیؓ سے ہے الفت
ان کی مدحت شیوہ میرا کل بھی تھا اور آج بھی ہے
پروگرام کے مطابق اس نعتیہ کلام کے بعد مجھے ''اسلام اور مغرب‘‘ کے موضوع پر گزارشات پیش کرنا تھیں۔ بہت پُر سکون ماحول میں ڈیڑھ گھنٹے تک یہ پروگرام جاری رہا، جس کے بعد افطار کے لیے دسترخوان بچھ گئے اور ایک طرف کرسیاں بھی لگ گئیں۔جو عمررسیدہ بزرگ اور گھٹنوں کے درد کے مریض شرکا نیچے بیٹھنے سے معذور تھے، ان کے لیے افطاری اور افطار ڈنر کا اہتمام کرسیوں اور میزوں پر کیا گیا تھا۔ افطار کے بعد نمازِ مغرب ہوئی۔ پھر افطار ڈنر کے لیے کچھ لوگوں کو بالائی منزل پر جانا پڑا۔ اس پروگرام میں مردوں کے علاوہ خواتین بھی شریک تھیں۔ کھانے کے دوران ایک نوجوان انگریز مسلم سے تعارف ہوا، جس نے عربی لباس پہن رکھا تھا۔ پہلی نظر میں میں نے اسے عرب ہی سمجھا تھا۔ وہ نیا نیااسلام میں داخل ہوا تھا اور خوب سوچ سمجھ کر یہ راستہ اپنایا تھا۔ ابھی اس نے داڑھی نہیں رکھی تھی، مگر اس کا پکا ارادہ کرلیا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کی اہلیہ بھی‘ خواتین کی طرف‘ اس پروگرام میں موجود ہیں۔
اس خوب صورت نوجوان نے، جو میرے سامنے والی نشست پر تشریف فرما تھا، اسلام کی طرف آنے کا اپنا مختصر حال بیان کرتے ہوئے کہا: ''اللہ کے فضل سے میں خود حق کی تلاش میں سرگرداں رہا۔ آپ کے ان لوگوں میں سے کسی نے میرے ساتھ رابطہ نہیں کیا البتہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے یکسوئی عطا فرمائی کہ میں مسلمان ہوجائوں تو میں نے خود ان لوگوں سے رابطہ کیا۔ ان سے مل کر مجھے بے پناہ تعاون اور محبت ملی۔ اسلام اور میرے مسلم برادران میرا بہت بڑا اثاثہ ہیں‘‘۔ اس نومسلم بھائی نے اپنے مزید احوال بیان کرتے ہوئے کہا: ''میں اپنی بیوی کے ساتھ پہلے سے عیسائی طریقے کے مطابق عقدِ نکاح کے بندھن میں بندھا ہوا تھا۔ جب ہم دونوں نے اکٹھے اسلام قبول کیا تو ان بھائیوں سے کہا کہ اسلامی شریعت کے مطابق ہمارا نکاح بھی پھر سے پڑھائو؛ چنانچہ انھوں نے اس کا شان دار اہتمام کیا، جس پر ہم بہت خوش بھی ہیں اور ان کے شکر گزار بھی‘‘۔
نوجوان نے مزید خوشی کی لہر میرے جسم میں دوڑا دی جب بتایا: ''اب ہم میاں بیوی دینی تعلیمات سیکھ رہے ہیں اور ہمارے اسلامی گھر میں اللہ کے فضل سے خوشیاں دوبالا ہوگئی ہیں‘‘۔ میں نے دعا دی کہ اللہ آپ کو استقامت بھی عطا فرمائے اور آپ کے گھر کو بچوں کی رونق سے بھی مالامال کر دے۔ میری دعا پر اس نے پرمسرت لہجے میں آمین کہا۔
محفل دلچسپ اور موضوع ایمان افروز تھا مگر وقت کی قلت کی وجہ سے ہمیں جلد واپس سپارک بروک سنٹر پہنچنا تھا، چنانچہ ہم نے اجازت لے کر سپارک بروک کی راہ لی۔ نمازِ عشا سپارک بروک میں ادا کی۔ تراویح آج پھر یمن سے تعلق رکھنے والے حافظ قرآن شیخ وائل کے پیچھے پڑھی جس کا بڑا لطف آیا مگر آج کی منزل میں وہ خلافِ معمول کئی مرتبہ بھولے۔ یہ ہو ہی جاتا ہے، قرآنِ پاک ایک بحرِ ذخّار ہے۔ نمازِ تراویح کے بعد مختصر سی مجلس ہوئی جس میں مَیں نے تلاوت شدہ منزل کا انگریزی میں مختصر تعارف کرایا۔ اس کے بعد سونے کا پروگرام بنا اور ایک ہی لمحے میں گھوڑے بیچ دیے یا بک گئے۔
وقت مختصر تھا۔ نیند میں چند گھنٹے گزرنے کا پتا بھی نہ چلا۔ موبائل نے جگایا تو اٹھ کر وضو کیا۔ مفتی فاروق علوی صاحب وقت کے بڑے پابند ہیں اور رمضان تو سب اہلِ اسلام ہی سے پابندی کروا لیتا ہے۔ وضو سے فارغ ہوا ہی تھا کہ مفتی صاحب کی گاڑی باہر آرکی۔ مفتی فاروق صاحب گزشتہ سحری کی طرح آج بھی اپنے گھر سے سحری کے سامان کے ساتھ تشریف لے آئے۔سحری سے فارغ ہو کر مسجد میں پہنچے، نماز فجر ادا کی اور پھر مختصر درسِ حدیث کے بعد آرام گاہ میں آگئے۔ مفتی صاحب نے اگلے پروگرام کی تفصیل بتائی اور فرمایا کہ وہ میرے ساتھ اس میں شرکت کے لیے بروقت آجائیں گے۔ آرام کا جو وقت تھا، اسے خوب استعمال کیا۔
سپارک بروک سنٹر کی یہ عظیم الشان مسجد عالمِ ربّانی مولانا نثار احمد مرحوم کی یاد دلاتی ہے۔ موصوف جماعت اسلامی کے رہنما اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن (از مانسہرہ) تھے۔ مرحوم نے بڑے مشکل حالات میں یہاں مسجد تعمیر کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ ان کی وفات کے بعد احباب نے اس مرکز میں کافی توسیع اور مزید کام بھی کروائے ہیں اور یہ برطانیہ کی بڑی اور آباد مساجد میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ ایک مرتبہ پاکستان میں مولانا نثار صاحب نے مجھے برمنگھم آنے کی دعوت دی مگر افسوس کہ ان کی زندگی میں میں برطانیہ تو جاتا رہا؛ تاہم برمنگھم حاضری نہ دے سکا؛ البتہ بعد میں تو بارہا یہاں آنے کا شرف ملا۔
اسی برمنگھم میں وہ مرکزی مسجد ہے جواسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ ڈاکٹر نسیم (مرحوم) نے تعمیر کروائی۔ اس میں میرے استاد محترم ڈاکٹر خالد علوی مرحوم بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ استاد مرحوم کی زندگی میں مجھے اس عظیم الشان مسجد میں حاضری اور خطاب کا شرف حاصل ہوا۔ آج اس ڈائری کو دیکھ کر دونوں مربی بہت یاد آئے۔ اللہ ان بزرگوں کے درجات بلندفرمائے۔ آج چودہ اگست اور چودھواں روزہ ہے۔ آج کی ڈائری لکھنے کا ارادہ ہے، مگر کب؟ اللہ ہی جانے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں