چراغِ مصطفویؐ اور شرارِ بولہبی!

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
اسلام اور کفر ہمیشہ ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں۔ یہ کشمکش ازل سے جاری ہے جو تاابد جاری رہے گی۔ حضوراکرمﷺ کو اللہ نے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور آپ نے حق کو تمام ادیانِ باطلہ پر محض 23 سال کے عرصے میں اللہ کی نصرت سے غالب کردیا۔ کفر کی مختلف شکلیں تھیں، مگر ان کے درمیان قدرِ مشترک اسلام کی مخالفت تھی۔ یہ شرارِ بولہبی اپنا زور لگارہا تھا، مگر چراغِ مصطفوی کا مقابلہ اس کے بس میں نہ تھا۔ حضور نبی کریمﷺ کے اخلاق کا کمال تھا کہ بدترین دشمن بھی آپﷺ کے اندر کوئی کمزوری تلاش نہ کرسکے۔ آپﷺ کی علامات سابقہ کتب وصحائف میں واضح طور پر بیان کردی گئی تھیں۔ اس کے باوجود اہلِ کتاب کی بدبختی تھی کہ انہوں نے حق کو قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ اسے مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ اس کشمکش میں سلیم الفطرت روحیں چھن چھن کر حق کے دامن میں پناہ لیتی رہیں۔ یہ سلسلہ بھی آج تک جاری ہے۔ سیرتِ نبوی کے مطالعہ سے ایسے ایمان افروز اور عبرت انگیز واقعات سامنے آتے ہیں کہ روح جھوم اٹھتی ہے۔
حضرت عبداللہؓ بن سلام مدینہ کے سب سے بڑے یہودی عالم تھے۔ آپؓ نے حضورپاکﷺ کو مدینہ میں پہلی بار دیکھا تو پکار اٹھے: ''خدا کی قسم! یہ چہرہ ہرگز جھوٹا نہیں ہوسکتا‘‘۔ اسی وقت ایمان لائے اور صحابہ کرامؓ میں شامل ہوگئے۔ آپؓ کے بیٹے یوسف بن عبداللہ نے ایک روایت بیان کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زید بن سُعنہ یہودی کی ہدایت کا فیصلہ فرمایا تو زید کے دل میں ایک بات سوجھی۔ اس ضمن میں خود زید کہتے ہیں: ''میں نے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے میں نبوت کی تمام علامات دیکھ لیں‘ سوائے دو باتوں کے۔ وہ چہرے سے مجھے معلوم نہ ہوسکیں۔ ہماری کتابوں میں بیان کیا گیا تھا کہ اس نبی کا حلم، اس کی سختی پر غالب ہوگا اور جب اس کے مقابلے میں جہالت کی شدت کا اظہار کیا جائے گا تو اس کے حلم میں بھی اضافہ ہوجائے گا؛ چنانچہ میں نے آپﷺ کے ساتھ ملنا جلنا شروع کردیا۔ اس تعلق کی وجہ سے میرے ساتھ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لین دین بھی ہوگیا۔ ایک بار آپﷺ نے مجھ سے ادھار پر کچھ کھجوریں لیں۔ وعدے کا وقت جب قریب آگیا تو میں آپﷺ کے پاس گیا۔ اس وقت آپﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے۔ میں نے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے آپﷺ کی قمیص اور چادر سے پکڑ کر کھینچا اور اپنی رقم کا مطالبہ کیا۔ میں نے سخت غصے کے ساتھ آپ کی طرف دیکھا اور کہا: یا محمدؐ الا تقضینی حقی؟ (اے محمدﷺ! کیا آپﷺ مجھے میرا حق واپس نہیں کرتے؟)۔ آپﷺ نے میری باتیں سن کر حلم کا مظاہرہ کیا، حالانکہ وعدے کے وقت میں ابھی کچھ دن باقی تھے۔ اس وقت حضرت عمرؓ نے میری طرف دیکھا۔ ان کی آنکھیں غصے سے یوں حرکت کررہی تھیں جیسے کشتی بھنور میں ہو۔ پھر عمرؓ نے کہا: اے اللہ کے دشمن! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ کچھ کہہ رہا ہے جو میں سن چکا ہوں اور وہ کچھ کررہا ہے جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں۔ اس ذات کی قسم جس نے اپنے رسول کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! اگر اللہ کے رسولﷺ رکاوٹ نہ بنتے تو میں اپنی تلوار سے تیرا سر قلم کر دیتا۔ اس موقع پر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمرؓ کی طرف بڑے اطمینان او رمحبت کے ساتھ دیکھ رہے تھے اور آپﷺ کے چہرے پر تبسم تھا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: اے عمرؓ! میں بھی اور فریقِ ثانی بھی‘ تم سے اس سلوک کی نسبت کسی اور سلوک کے زیاددہ محتاج تھے۔ اے عمرؓ! تجھے چاہیے تھا کہ مجھے اچھے انداز میں ادائیگی کی تلقین کرتے اور اسے اچھے انداز میں مطالبے کا حکم دیتے۔ اے عمرؓ! اس کو ساتھ لے جاؤ اور اس کا حق ادا کردو۔ اس کی کھجوریں ادا کرنے کے بعد 20صاع (ایک صاع تقریباً تین کلوگرام کا ہوتا ہے) کھجوریں زائد دے دینا۔ یہ سن کر زید بن سُعنہ نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد حضرت زیدؓ بن سُعنہ زندگی بھر آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وفاداری نبھاتے رہے۔ غزوۂ تبوک کے سال میں ان کی وفات ہوئی۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج: 1، ص: 428)
نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے کے لیے مدینہ کی طرف آیا۔ اس وفد میں ایک شخص ابوالحارث بن علقمہ بن ربیعہ تھا، جو عالم دین تھا اور پادری ہونے کے ساتھ ساتھ قبیلے کے رؤسا میں بھی شمار ہوتا تھا۔ اس کی اپنی قوم میں بڑی قدرومنزلت تھی۔ اتفاق سے اس کے خچر نے اسے گرا دیا تو اس کا بھائی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بددعائیں دینے لگا۔ یہ سن کر ابوالحارث نے کہا کہ ایسا مت کہو تم خود ہلاک اور برباد ہوجاؤ گے، وہ شخص اللہ کے نبیوں میں سے ہے، جس کی بشارت انجیل میں عیسیٰ علیہ السلام نے دی اور جس کا تذکرہ تورات میں بھی ہے۔ یہ سن کر بددعائیں دینے والے بھائی کی قسمت جاگ اٹھی۔ اس نے کہا: خدا کی قسم میں مدینہ پہنچ کر اس پر ایمان لے آؤں گا۔ یہ سن کر وہ عالمِ سُو کہنے لگا: ارے نہیں! میں تو محض تم سے مذاق کررہا تھا۔ اس کے بھائی نے کہا: جو کچھ بھی ہے میں تو اب ایمان لاؤں گا؛ چنانچہ یہ شخص وہاں پہنچا اور مسلمان ہوگیا۔ صاحبِ علم پادری ہدایت سے محروم رہا۔ ایک عالم بظاہر جاہل شخص حق شناس بن کر حق وصداقت کا علم بردار بن گیا۔ کیا عجیب قدرت کاملہ کے کرشمے ہیں! (طبقات ابن سعد، ج: 1، ص:164 تا 165)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اہلِ کتاب کسی ابہام میں نہیں تھے، محض اپنی ہٹ دھرمی، ضد اور فسادِ قلبی کی وجہ سے وہ آپﷺ کو تسلیم کرنے سے انکاری رہے۔ آپﷺ سے قبل آنے والے ہر نبی نے آپﷺ کی آمد کا تذکرہ کیا‘ بالخصوص سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اتنی وضاحت کے ساتھ آپﷺ کی بشارت دی کہ آپﷺ کا نام تک اپنی قوم کو بتا دیا۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تصدیق کرنے والا ہوں اس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور جس کا نام احمد ہو گا۔ (الصف: 6)
اہلِ کتاب پر اللہ کی ایسی پھٹکار ہوئی کہ جن چیزوں کے حق ہونے کو وہ بخوبی جانتے تھے، آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر ان کا انکار کر دیا۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی۔ ان کے برعکس عرب کے مشرک قبائل‘ جو ان سے یہ باتیں سنا کرتے تھے، اللہ کی توفیق سے آگے بڑھے اور حق کو سینے سے لگا لیا۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور اب جو کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے، اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے، باوجودیکہ وہ اُس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی، باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آگئی، جسے وہ پہچان بھی گئے تو انہوں نے اسے پہچاننے سے انکار کردیا۔ خدا کی لعنت ہے ان منکرین پر! (سورۃ البقرہ:89)
اس آیت کی تشریح میں سیدمودودیؒ تحریر فرماتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے پہلے یہودی بے چینی کے ساتھ اُس نبی کے منتظر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیاء کرام علیہم السلام نے کی تھیں۔ دعائیں مانگا کرتے تھے کہ جلدی سے وہ آئے تو کفار کا غلبہ مٹے اور پھر ہمارے عروج کا دور شروع ہو۔ خود اہلِ مدینہ اس بات کے شاہد تھے کہ بعثتِ محمدی سے پہلے یہی ان کے ہمسایہ یہودی آنے والے نبی کی امید پر جیا کرتے تھے اور ان کا آئے دن تکیۂ کلام یہی تھا کہ اچھا، اب تو جس جس کا جی چاہے ہم پر ظلم کرلے، جب وہ نبی آئے گا تو ہم ان سب ظالموں کو دیکھ لیں گے۔ اہلِ مدینہ یہ باتیں سنے ہوئے تھے، اسی لیے جب انہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات معلوم ہوئے تو انہوں نے آپس میں کہا کہ دیکھنا، کہیں یہودی تم سے بازی نہ لے جائیں۔ چلو! پہلے ہم ہی اس نبی پر ایمان لے آئیں۔ مگر ان کے لیے یہ عجیب ماجرا تھا کہ وہی یہودی‘ جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے تھے‘ اس کی آمد پر سب سے بڑھ کر اس کے مخالف بن گئے۔ (تفہیم القرآن، سورۃ البقرۃ، حاشیہ59)
اور یہ جو فرمایا گیا ہے کہ ''وہ اس کو پہچان بھی گئے‘‘، تو اس کے متعدد ثبوت اسی زمانے میں مل گئے تھے۔ سب سے زیادہ معتبر شہادت ام المومنین حضرت صفیہؓ کی ہے، جو خود ایک بڑے یہودی عالم کی بیٹی اور ایک یہودی عالم کی بھتیجی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے، تو میرے باپ اور چچا‘ دونوں آپﷺ سے ملنے گئے۔ بڑی دیر تک آپﷺ سے گفتگو کی۔ پھر جب گھر واپس آئے، تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سنا:
چچا: کیا واقعی یہ وہی نبی ہے، جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟
والد: خدا کی قسم! ہاں۔
چچا: کیا تم کو اس کا یقین ہے؟
والد: ہاں۔
چچا: پھر کیا ارادہ ہے؟
والد: جب تک جان میں جان ہے، اس کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات چلنے نہ دوں گا۔ (ابن ہشام، ج:2، ص: 165، طبع جدید)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں