قاضی حسین احمدؒ اور سید علی گیلانیؒ کا صدقۂ جاریہ!

شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُردم ہے اگر تُو‘ تو نہیں خطرۂ افتاد!
کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ یومِ یکجہتی کے ماسٹر مائنڈ قاضی حسین احمدؒ 6 جنوری2013ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس عظیم شخصیت کی جدائی سے پوری دنیا کے مسلمان بالخصوص مظلومینِ کشمیر از حد غم زدہ ہوئے۔ قائدِ تحریکِ حریت سیدعلی گیلانی کو اس روز لوگوں نے روتے ہوئے دیکھا۔ ایک ماہ بعد جب 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر کا دن آیا تو اس موقع پر بھی گیلانی صاحب نے اپنے جگری یار کو یاد کرکے اپنے قلبی غم کا اظہار کیا۔ اس مرتبہ ہم یومِ یکجہتی کشمیر منارہے ہیں تو جرأت وعزیمت کا درخشندہ ستارہ سیدعلی گیلانی بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ اقبال کے دو شاہین ایک تاریخ رقم کرکے گئے ہیں۔ غیرت مند کشمیری اور پاکستانی اس جھنڈے کو سرنگوں نہیں ہونے دیں گے جو اللہ کے ان ولیوں نے بلند کیا تھا۔ یہ دونوں عظیم رہنما زندگی بھر امت مسلمہ کو یہ درس دیتے رہے:
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی!
ہم آج بھی پورے عزم کے ساتھ اعلان کرتے ہیں، کشمیر کے فرزندانِ اسلام! اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھو۔ ہر غیرت مند مسلمان تمہارے ساتھ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ یہ شہ رگ بنیے کے قبضے میں ہے مگر اللہ نے چاہا تو ان ظالم درندوں کا مقدر شرم ناک شکست ہے۔ بھارت نے کشمیریوں پر ظلم وستم جاری رکھنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج کی کئی مزید بٹالینز بھیج دی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے پیلٹ گنوں کے استعمال سے ہزاروں معصوم بچوں کو بینائی سے محروم اور لاتعداد کشمیری عوام کو گولیوں سے بھون کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ بھیڑیا صفت مودی کے کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے بعد تو مقبوضہ وادیٔ کشمیر کا چپہ چپہ قتل گاہ بن چکا ہے۔ ظالم بھارتیوں نے اہلِ کشمیر پر زمین تنگ کردی ہے، مگر کشمیری عوام ان شاء اللہ آزادی کی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرکے دم لیں گے۔ خطۂ کشمیر، ارضِ فلسطین، شام اور میانمار کا علاقہ‘ یہ دھرتی کے مظلوم ترین گوشے ہیں۔ سید علی گیلانی آج یومِ یکجہتی میں اہلِ کشمیر کے ساتھ نہیں ہیں، مگر ان کا دیا ہوا جذبہ سلامت ہے۔ قاضی حسین احمد اور علی گیلانی، اقبال کے دو شاہین ایک تاریخ رقم کرکے گئے ہیں۔
کشمیر جنت نظیر کی سرزمین پر بھارت کی درندہ صفت فوجیں اتنی بڑی تعداد میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی پر مامور ہیں کہ اس کی کوئی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس چھوٹی سی آبادی کو لاکھوں درندوں نے گھیر رکھا ہے۔ ان کی آبادیاں ویران، کھیت کھلیان اور باغات تباہ حال، عفت مآب بیٹیوں کی عصمتیں پامال اورپوری وادیٔ جنت نظیر آج مقتل کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمان جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں۔ ہزاروں مرد و خواتین لاپتا ہیں اور ہزاروں بھارتی عقوبت خانوں میں ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ ہزاروں دخترانِ کشمیر کی عفت پامال کی جا چکی ہے ۔
پاکستان مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کشمیری حریت پسندوں کو شہادت کے بعد ان کے ورثا پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں۔ اہلِ کشمیر کے دلوں میں پاکستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ تحریکِ حریتِ کشمیر، پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کا برملا اظہار کرتی ہے۔ افسوس پاکستانی حکومتیں یکے بعد دیگرے مسلسل قوم وملت کے اس اہم ترین مسئلے کو نہ صرف پس پشت ڈالنے کی مرتکب ہوئی ہیں بلکہ حریت پسند کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی مجرم بھی ہیں۔ جو شخص کشمیر سے محبت رکھتا ہے وہ بھارت کو پسندیدہ ملک کیسے قرار دے سکتا ہے۔ افسوس کہ کچھ لوگ خونِ شہدا کی قدر و قیمت سے تو نابلد ہیں ہی، اس بنیادی انسانی غیرت سے بھی محروم ہوچکے ہیں کہ دخترانِ ملت کی عزتیں لوٹنے والوں کے لیے نرم گوشہ کیونکر ممکن ہے؟ کشمیری حریت پسند روزِ اول سے بھارتی تسلط کے خلاف سراپا احتجاج رہے ہیں۔ پہلے بھارتی فوجیں یکطرفہ خون کی ہولی کھیلتی تھیں۔ تیس، بتیس سال قبل کشمیریوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے۔ اس کے نتیجے میں بھارتی درندوں کی لاشیں انڈیا کے مختلف شہروں میں جانے لگیں اور ان کے فوجی خودکشیاں کرنے لگے جبکہ اچھی خاصی تعداد ذہنی طور پر پاگل ہوچکی ہے۔ ہر کشمیری نوجوان اب آزادی کے لیے جان ہتھیلی پہ لیے میدانِ جہاد میں سرگرمِ عمل ہے۔
کشمیری حریت پسند مختلف تنظیموں کے جھنڈے تلے مصروفِ جہاد تھے۔ پھر انہوں نے تحریکِ حریتِ کشمیر کو متحدہ پلیٹ فارم کی شکل دی اور سید علی گیلانیؒ کی صورت میں ایک ایسی قیادت خطے کو نصیب ہوئی جو ہر لحاظ سے مثالی تھی۔ جسمانی لحاظ سے بظاہر کمزور، عمر رسیدہ، مختلف امراض سے نڈھال، علی گیلانی عقابی نگاہ اور چیتے کا جگر رکھتے تھے۔ وہ واقعتاً حیدرکرار ؓ کی تلوار ، خالدؓ کی للکار اور طارقؒ کی یلغار کا نمونہ تھے۔ بقول اقبال:
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنّم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا!
پاکستان اس مسئلے میں مداخلت کار نہیں بلکہ عالمی اداروں کے فیصلوں نے اسے باقاعدہ فریق کا درجہ دیا ہے۔ پاکستانی حکمران معلوم نہیں کیوں بزدلی کی چادر اوڑھے اس مسئلے سے دور بھاگتے ہیں۔سیدعلی گیلانی نے کشمیری عوام کے دلوں میں ایسا جذبہ پیدا کرگئے ہیں کہ اب وہ کسی صورت اپنی مادرِ وطن کو ہندو بنیے کے قبضے میں نہیں دیکھ سکتے۔ 5فروری کشمیریوں اور ان کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے حامیوں کے لیے ایک بہت اہم دن بن گیا ہے۔ یہ دن ''یومِ یکجہتیٔ کشمیر‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اللہ کے فضل سے پاکستان میں یہ دن عوامی، سرکاری اور قومی دن کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس کا آغاز 1990ء میں ہوا۔ اس وقت میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب اور بے نظیر بھٹو مرحومہ وزیراعظم پاکستان تھیں۔ جماعت اسلامی کے امیر جناب قاضی حسین احمد مرحوم نے ذمہ دارانِ جماعت کے ایک اجلاس میں یکجہتی کشمیر کے لیے دن منانے کا تصور پیش کیاجسے سراہا گیا۔ مشاورت میں طے پایا کہ ملک کے تمام عناصر و مسالک، حکومتی اور غیر حکومتی ادارے غرض پوری قوم سے اپیل کی جائے کہ سب اپنے سیاسی و گروہی اختلاف بھلا کر اور یک زبان ہوکر مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھائیں۔
اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جس نے اس پروگرام کا پورا لائحۂ عمل مرتب کیا۔ مشاورت میں طے پایا کہ قاضی صاحب حکمرانوں سے ملاقات کرکے انہیں بھی اس مسئلے کی اہمیت سے آگاہ کریں اور اپنا فرض ادا کرنے پر آمادہ کریں۔ قاضی صاحب نے اس سلسلے میں میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی اور 9 جنوری 1990ء کو پریس کانفرنس میں 5 فروری 1990ء کا دن ''یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کے طورپر منانے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر پاکستانی ذرائع ابلاغ نے بھی بھر پور کردار ادا کیا اورالیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس مطالبے کو خوب پذیرائی ملی۔ پنجاب حکومت نے سرکاری سطح پریومِ یکجہتی کشمیر کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اس تحرک کے نتیجے میں ملک میں ایسی فضا بن گئی کہ وزیراعظم پاکستان بینظیر بھٹو مرحومہ نے بھی اس مطالبے کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے 5 فروری کو سرکاری تعطیل قرار دے دیا۔ اب 5 فروری ایک قومی دن کی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور اس سے انحراف کسی کے بس میں نہیں۔ اس روز پوری دنیا یہ منظر دیکھتی ہے کہ پاکستانی قوم بڑے شہروں سے لے کر چھوٹی چھوٹی بستیوں تک اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہی ہوتی ہے۔ سیدعلی گیلانیؒ کے بقول: یہ یوم یکجہتی کشمیر قاضی حسین احمدؒ کا ایک صدقہ جاریہ ہے۔ اللہ ان کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ اس یوم کے تعین کے لیے جن لوگوں نے سوچ بچار کی اور جنھوں نے اس کے لیے دستِ تعاون بڑھایا ان سب کا یہ عمل ان شاء اللہ باعثِ اجر ہے۔ جو جتنے اخلاص کے ساتھ مظلوم کشمیری بھائیوں کے لیے کام کرے گا‘ اتنا ہی اللہ کے ہاں اجر کا مستحق ہوگا‘ ان شاء اللہ!
امید ہے کہ دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو کر رہے گا۔ عالمِ اسلام میں ہر جانب نوجوان نسل کے اندر بیداری کی لہریں اور آزادی کے جذبات موجزن ہیں۔ عالمی استعمار امت مسلمہ کی بیداری سے خائف ہے۔ ہمیں جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار کشمیرو فلسطین کے حریت پسند مجاہدین کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے ۔غلامی کی زنجیریں ان شاء اللہ ٹوٹ گریں گی اور جبر کا دور ختم ہو جائے گا۔ 5 فروی کا یہ دن تجدیدِ عہداور عزمِ نو کی نوید ہے۔ آئیے! اپنے اللہ سے عہد باندھیں کہ ہم کشمیر کی آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قائد کشمیر سید علی گیلانیؒ اور محسن اہلِ کشمیر مجاہد ملت قاضی حسین احمدؒ کی قبروں کو نور سے منور فرمائے اور ان کے روشن کردہ چراغ کو آفتاب وماہتاب میں بدل دے۔
اہلِ کشمیر حوصلے بلند رکھو، زندگی کی تگ ودو میں مشکلات آتی ہیں مگر اللہ کے بندے انہیں برداشت کرکے منزل تک پہنچتے ہیں:
تمنا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں
تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں