فروری 2011ء میں ترکی کے مردِ مجاہد نجم الدین اربکان کا انتقال ہوا۔ ترکی کے سیکولر نظام کو اسلام کی طرف لانے کا سہرا نجم الدین اربکان مرحوم کے سر ہے۔ نجم الدین اربکان ترکی کے شمال میں بحیرۂ اسود کے کنارے چھوٹے سے شہر سنوپ (Sinop) میں 29 اکتوبر 1926ء کو ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محمد صبری پیشے کے لحاظ سے جج تھے۔ نجم الدین اربکان نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کا طویل سفر شروع ہوا اوریکے بعد دیگرے وہ ترقی کے زینے چڑھتے چلے گئے۔ 1948ء میں استنبول یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی اور ریکارڈ قائم کیا جوآج تک قائم ہے۔ اس کے بعد پی ایچ ڈی کے لیے جرمنی گئے اور آخن کی (RWTH) یونیورسٹی سے 1956ء میں ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ جرمنی یا یورپ میں قیام کرنے کے بجائے اپنے وطن ترکی واپس آگئے۔
جرمنی میں ترک آبادی کا ایک بڑا حصہ آج بھی مقیم ہے۔ اربکان صاحب کو بھی کئی دوستوں نے مشورہ دیا کہ معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے انہیں یورپ کو منتخب کرنا چاہیے مگر انہوں نے پوری یکسوئی کے ساتھ ہمیشہ یہی فرمایا کہ سرزمینِ وطن اور ملت اسلامیہ کا مجھ پر قرض ہے۔ 1957ء میں استنبول یونیورسٹی میں بطورِ لیکچرار تدریس کا آغاز کیا۔ 1965ء میں انہیں پروفیسر کا درجہ حاصل ہوگیا۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے یونیورسٹی ملازمت چھوڑ کر اپنی فنی مہارت اور دوستوں کے تعاون سے انڈسٹری کی طرف توجہ دی۔ انڈسٹری میں مرحوم نے ٹینک سازی اور انرجی و ایندھن کی پیداوار کے منصوبوں پر توجہ مرتکز کی۔
1960ء میں یونیورسٹی کی ملازمت کے دوران ہی تجرباتی طور پر انہوں نے انرجی اور ایندھن پیدا کرنے کا ایک بڑا مرکز قائم کیا۔ یہ تجربہ بہت زیادہ کامیاب ثابت ہوا۔ اس کے بعد ہی مرحوم نے یونیورسٹی کی ملازمت کو خیرباد کہا مگر اپنی مادرِ علمی سے غیر رسمی تعلق بعد میں بھی قائم رکھا اور اس کی بہبود کے لیے ہمیشہ مشورے اور تعاون پیش کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے صنعتی مرکز کو بھی جامعہ کے طلبہ و طالبات کے لیے وقف کر دیا۔ اس میں تین سو ملازمین اور اہلِ ہنر و فن شریک تھے۔ یہ مرکز اب تک چل رہا ہے اور اس کی سالانہ پیداوار تیس ہزار ڈیزل انجن ہے۔ جرمنی میں قیام کے دوران جرمن حکومت کے لیے ایک ٹینک Leopard 1کے نام سے ڈیزائن کیا جو جرمن فوج کے پاس ایک بہت بڑا اثاثہ ہے۔
صنعت سے سیاست کی طرف منتقلی اربکان صاحب کی زندگی کا اہم موڑ تھا ۔یہ وقت کا تقاضا تھا‘ مرحوم کا ذوق بھی اس کے مطابق تھا۔ انہوں نے سیاست میں قدم رکھتے ہی ملی گرش (ملت کا نقطۂ نظر) کے نام سے سیاسی منشور تیار کیا۔ ملی گرش اتنا مقبول ہوا کہ اس نے باقاعدہ ایک تنظیم کی صورت اختیار کرلی۔ بیرونِ ملک بھی اس نام کے تحت مراکز منظم ہوئے اور صنعتی و تجارتی اداروں کا ایک پورا نیٹ ورک وجود میں آیاجو تاامروز نہایت کامیابی سے چل رہا ہے ۔ یورپی ممالک میں یہ نام بہت مقبول ہے۔ جہاں‘ جہاں ترک آبادی موجود ہے‘ ملی گرش بھی وہاں اپنا وجودِ مسعود قائم رکھے ہوئے ہے۔ اربکان صاحب کے منشور کو ترکی کی سیکولر فضائوں میں تازہ ہوا کا جھونکا شمار کیا گیا۔ طویل عرصے کی گھٹن کے بعد یہ امید اور روشنی کی کرن بن کر نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ترکی اور بیرونِ ملک پھیلے ہوئے ترک عوام کے دلوں میں اس نے ایک جوت جگا دی۔ لادینی نظام کے اندر دین اور مذہب کا نام لینا کچھ آسان نہ تھا مگر ''ہمتِ مرداں مددِ خدا ‘‘کے مصداق یہ تجربہ برگ و بار لایا۔
ترکی میں 1925ء میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے پر لا دینی نظام نافذ ہوگیا تھا۔ مصطفی کمال پاشا ایک سکہ بند فری میسن اور عالمی صہیونی تحریک کا ایجنٹ تھا۔ عالمی قوتوں نے بڑی شاطرانہ چالوں سے اسے ہیرو بنایا اور پھر وہ اس کے ذریعے خلافت کے مرکز کو لادینیت کا گڑھ بناکر اپنے منصوبوں کی تکمیل کرتی رہیں۔یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ترک خلیفہ اور خلافتِ عثمانیہ کا ماٹو ہی غازیانِ دین (Defenders of Faith) تھا مگر نئے نظام میں دین و مذہب کو مکمل طور جلاوطن کر دیا گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خلافت کے خاتمے اور لادینی دور کے آغاز ہی سے ترکی کے اسلام پسند طبقات نے اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا ۔
بدیع الزمان سعید نورسی (1873ء تا 1960ء) کی شخصیت نے پورے ماحول میں ایک ہلچل پیدا کر دی۔ نورسی تحریک دلوں کی دھڑکن بن گئی مگر مصطفی کمال پاشا کے ظالمانہ اور آہنی اقدامات نے اسے عوامی تحریک بننے سے روکے رکھا۔ بدیع الزمان سعید نورسی مرحوم نے زندگی کا بیش تر حصہ جیلوں میں گزارا۔ وہ سیکولر نظام کے مقابلے پر اسلامی نظام کے احیا کا عَلم لے کر اٹھے تھے۔ ان کے رسالۂ نور نے ترک نوجوانوں بالخصوص طلبہ کے دلوں میں امید کے دیپ روشن کر دیے تھے۔ اپنی تعلیم کے دوران نجم الدین اربکان بھی اس تحریک سے متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنی جامعہ میں ہم خیال طلبہ کو منظم کرکے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بڑی حکمت و تدبر کے ساتھ تحرک پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بدیع الزمان سعید نورسی کی وفات کے بعد اس چراغ کو نجم الدین اربکان نے نہ صرف یہ کہ بجھنے نہیں دیا بلکہ اس کی لو کو تیز سے تیزتر کرنے میں کامیاب رہے۔
اربکان مرحوم صاحبِ کردار بھی تھے اور صاحبِ گفتار بھی۔ وہ دور رس نگاہ رکھنے والے مفکر تھے اور نہایت جرأت مند عملی راہ نما بھی۔ 1959 ء میں شروع کیا گیا یہ سفر جلد ہی ثمر آور ثابت ہوا۔ ملی گرش کے تحت ہی 60ء کے عشرے میں انہوں نے سیاسی جماعت' ملی نظام پارٹی‘ کی بنیاد رکھی۔ اس کے تحت وہ انتخابی سیاست میں داخل ہوئے تو قونیا سے پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوگئے۔ ان کے علاوہ دو درجن کے قریب دیگر ارکان بھی مختلف علاقوں سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آگئے۔ اس دوران سیکولر قوتیں بالخصوص سیاست دان اور فوجی جرنیل حرکت میں آئے۔ ملی نظام پارٹی پر نو مہینے بعد ہی پابندی لگا دی گئی۔اس پابندی کی دھمکی ترکی کے جرنیل محسن باتور نے دی تھی اور پابندی کا اعلان بھی اسی نے کیا ۔ستم بالائے ستم یہ کہ دستوری عدالتِ عالیہ نے بھی اس ظالمانہ و آمرانہ فیصلے کو بحال رکھا۔
اربکان صاحب سے پاکستان اور بعض دیگر ممالک میں مختلف کانفرنسوں کے دوران مختصر ملاقات ہوتی رہی، وہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کی بڑی عزت اور قدر کرتے تھے۔ میاں طفیل محمد اور جناب قاضی حسین احمد صاحب سے بھی اربکان صاحب کو ایک خصوصی محبت اور لگائو تھا۔ جماعت کی قیادت سے وہ اپنے معاملات اور امور میں مشاورت کرتے رہتے تھے۔ یوم سلطان محمد فاتح کے جلسوں میں قاضی حسین احمد مہمانِ خصوصی کے طور پر شریک ہوتے تھے۔ لاکھوں کا مجمع ''مجاہد اربکان ‘‘اور ''مجاہد قاضی ‘‘کے نعروں سے گونج اٹھتا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان سے خصوصی محبت کا اظہار کرتے ہوئے پُرجوش ترک نوجوان دونوں ہاتھوں کو آپس میں جوڑ کر ''ترک پاکستان کوردوش‘‘ یعنی 'ترک پاکستانی بھائی بھائی‘ کے والہانہ نعرے بھی لگایا کرتے تھے۔
دو مرتبہ اربکان مرحوم و مغفور سے قدرے تفصیلی ملاقاتوں میں ان کے خیالات براہِ راست سننے کا اتفاق ہوا۔ یہ دونوں مواقع اربکان صاحب کی پاکستان آمد کے موقع پر نصیب ہوئے۔ ایک بار وہ جماعت اسلامی کے کل پاکستان اجتماع عام میں بطورِ مہمان تشریف لائے تو ایئر پورٹ پر میاں طفیل محمد صاحب نے ان کا استقبال کیا۔ ایئر پورٹ سے منصورہ آتے ہوئے اربکان صاحب‘ محترم میاں صاحب اور راقم الحروف ایک ہی گاڑی میں سوار تھے۔ اربکان صاحب اس زمانے میں بھی سیکولر طبقات کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے ہوئے تھے مگر مردانہ وار مقابلہ کر رہے تھے۔
انہوں نے فرمایا: میاں صاحب! پاکستان کی تحریک اسلامی بڑی خوش نصیب ہے۔ جب آپ کے ملک کا دستور بن رہا تھا تو مولانا مودودیؒ کی بیدار مغز قیادت نے بروقت تحریک چلا کر دستور کو اسلامی رنگ دینے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس ملک میں جیسی بھی نااہل اور بد عنوان حکومتیں مسلط رہی ہوں‘ ایک بات مسلّم ہے کہ حکومت آپ پر جب بھی پابندی لگائے اور آپ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور دستور کا حوالہ دے کر داد رسی چاہیں تو دستور آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ پاکستانی حکمران اپنے لائو لشکر اور اقتدار کے باوجود کٹہرے میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا معاملہ بد قسمتی سے اس کے بالکل برعکس ہے۔ جب بھی ایسی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے تو ہم اسلام کا نام لینے والے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں اور دستور سیکولر طبقات کی پشت پر ہوتا ہے۔ ہماری دستور سازی کے وقت میں بدیع الزمان سعید نورسی نے صدائے احتجاج تو بلند کی تھی مگر وہ صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ ہم جو کانٹے پلکوں سے چن رہے ہیں آپ کے راستے میں ان کانٹوں کا وجود ہی نہیں ہے۔ ہم بجا طور پر آپ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں کہ آپ کی تحریک جلد منزل سے ہمکنار ہوجائے گی‘‘۔
اربکان صاحب کے جواب میں میاں صاحب نے ان کی جدوجہد کی تعریف کی اور انہیں پاکستان کے بعض مشکل اور سلگتے ہوئے مسائل کا حوالہ دیا جو تحریک کے راستے کی عملاً رکاوٹیں ثابت ہوتے ہیں۔ بلا شبہ دیگر مقامات پر اپنی اپنی نوعیت کے مسائل اسلامی تحریکوں کو درپیش ہیں مگر پاکستان کا طبقۂ مترفین ہو یا تفرقہ بازی و برادری ازم کا عفریت‘ بڑی بڑی جاگیر داریوں کی لعنت ہو یا افسر شاہی کی منہ زور خرمستیاں‘ سبھی بڑی بڑی رکاوٹوں کی حیثیت سے تحریک کے راستے میں حائل ہو جاتی ہیں ۔(جاری)