نجم الدین اربکان(1926-2011ء)…(2)

ایک موقع پر محترم قاضی حسین احمد صاحب کے ساتھ گفتگو میں اربکان صاحب نے ایک بات کہی جو مجھے آج تک یاد ہے۔ قاضی صاحب نے ایک رابطۂ عوام مہم کا تذکرہ کیا تو اربکان صاحب نے اسے بہت سراہا۔ فرمانے لگے: جب تک عوام سے براہِ راست اور انفرادی سطح پر ملاقات اور تبادلۂ خیالات نہ کیا جائے‘ جمود کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔ پھر انہوں نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے بتایا: ''میںوثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ترکی کی حدود میں کوئی دروازہ ایسا نہیں ہوگا جہاں کچھ لوگ پائے جاتے ہوں اور ہمارے کارکنان نے اس پر کم از کم چار مرتبہ دستک نہ دی ہو۔ شراب خانوں‘ قہوہ خانوں اور نائٹ کلبوں میں بھی پہنچے ہیں اور لوگوں کو بتایا ہے کہ ہم کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں‘‘۔
1972ء میں ملی نظام پارٹی پر پابندی لگنے کے بعد آپ نے چوبیس گھنٹوں کے اندر ملی سلامت پارٹی کے نام سے نئی جماعت قائم کر دی۔ اس جماعت نے جب اگلے انتخابات میں حصہ لیا تو پارلیمنٹ میں ان کے پاس ویٹو پاور آگئی۔ وہ دونوں بڑی پارٹیوں میں سے جس کا ساتھ دیتے‘ وہی حکومت بنا سکتی تھی؛ چنانچہ انہوں نے بلند ایجوت کا ساتھ دیا اور مخلوط حکومت میں نائب وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ یہ 1974ء کے آغاز کی بات ہے۔ قبرص میں یونانی اور ترک آبادیوں کے درمیان مسلح تصادم ہوا۔ یونانیوں کی مدد کے لیے یونان نے اپنے مسلح دستے بھیج دیے۔ ادھر بلند ایجوت بیرون ملک دورے پر تھے اور اربکان قائم مقام وزیر اعظم کے فرائض ادا کر رہے تھے۔ انہوںنے نہایت جرأت مندی سے ترک دستے قبرص میں اتار دیے۔ اس جنگ میں ترکوں نے یونانیوں کو سبق سکھا دیا۔ اس کے نتیجے میں قبرص کے ترک مسلمانوں کو‘ جن کی آبادی 40 سے 45فیصد تھی‘ یونانی اکثریت کے تسلط سے آزادی مل گئی اور قبرص کی ترک حکومت وجود میں آگئی ۔یہ تاریخ جدید کا ایک بہت عظیم واقعہ ہے۔ مغربی اور صہیونی طاقتوں نے اب اربکان کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دے دیا‘ مگرآپ علامہ اقبال کے مردِ درویش تھے۔
گرچہ ہوا ہے تندوتیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز ِخسروانہ
قبرص کے اقدام سے آپ کو مقبولیت حاصل ہوئی مگر سیکولر نظام نے اسے اپنے وجود کے لیے خطرہ محسوس کیا اور ملی سلامت پارٹی پر پابندی لگا دی۔ پابندی کے بعد انہوں نے فوراً مشاورت سے ملی رفاہ پارٹی کے نام سے تیسرا تجربہ کیا اور یہ بھی کامیاب رہا۔ اب وہ پہلے سے کہیں بڑی تعداد میں پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ 1980ء کے فوجی انقلاب نے اربکان صاحب کو سیاست سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا مگر وہ 1987ء میں پھر میدانِ سیاست میں داخل ہوگئے۔ بڑی پارٹیوں کے درمیان کشمکش زوروں پر تھی۔ مسعود یلماز اور مسز تانسو شلر کی پارٹیاں ایک دوسرے کے مقابلے پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر خوب نفرت کی جنگ لڑ رہی تھیں۔ 1990ء میں اربکان صاحب پھر ایک بڑی پارٹی کے طور پر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ 1995ء کے اواخر میں ہونے والے انتخابات میں انہیں مزید کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
اس مرتبہ انہوں نے تانسو شلر کی ٹرو پاتھ پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی اور معاہدہ طے پایا کہ پہلی نصف میعاد کے لیے اربکان صاحب جبکہ دوسری میعاد کے لیے تانسو شلر وزیر اعظم ہوں گی۔ یہ سیکولر ترکی میں پہلے اسلام پسند وزیر اعظم تھے۔ ان کی وزارت عظمیٰ عالمِ اسلام کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھا مگر عالم کفر میں صفِ ماتم بچھ گئی اور اسی وقت سے ملکی اور غیر ملکی ہر سطح پر ان کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہوئی کہ اسلامی تحریک سے تعلق رکھنے والے راہ نما ملک کے مختلف بلدیاتی اداروں میں میئر منتخب ہوئے اور ان کی کارکردگی اس قدر شاندار تھی کہ پوری قوم کی توجہ اب اسلامی تحریک کی طر ف مبذول ہوگئی۔
موجودہ وزیر اعظم طیب رجب اردوان استنبول کے میئر تھے ‘ جس سے انہوں نے بڑی شہرت کمائی۔ وہ اربکان صاحب کے نائبِ اول تھے مگر افسوس کہ بعد میں راستے جدا ہوگئے۔ بہرحال اربکان صاحب نے وزیر اعظم بنتے ہی عالمِ اسلام کی طرف رخ کیا۔ اسرائیل کے مقابلے میں پہلی مرتبہ ترکی کے ایوانِ اقتدار سے فلسطین کے حق میں آواز بلند ہوئی۔ عالم اسلام کی سیاسی و معاشی بد حالی کو دور کرنے کے لیے آٹھ مسلم ممالک پر مشتمل ایک گروپ ڈی ایٹ (D8) تشکیل دیا گیا۔ سیکولر حلقوں نے آرمی کی مدد سے 30جون 1997ء کو اربکان صاحب کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ انہیں تقریباً ایک سال حکومت کرنے کا موقع ملا۔ اس مرتبہ بھی ان کی پارٹی اور تمام نمایاں لیڈرز کو سیاست سے بے دخل کر دیا گیا۔ اس مرتبہ اربکان صاحب کو جیل میں ڈالا گیا۔
نئے نام سے جو تجربات کئے گئے ان میں سعادت پارٹی اور فضیلت پارٹی کے نام آتے ہیں۔ اب پارلیمنٹ میں رجائی قوطان پارلیمانی لیڈر تھے جبکہ اربکان صاحب‘ اردوان اور دیگر نمایاں راہ نما منظر سے غائب کر دیے گئے۔ اسی عرصے میں طیب اردوان اوربہت سے نمایاں سیاسی راہ نمائوں نے اربکان صاحب سے الگ راہ اپنا لی۔ انہوں نے اپنی پارٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے نام سے منظم کرلی اور سیاست میں کامیاب تجربات کے ذریعے ملک کی وزارت عظمیٰ اور صدارت دونوں اہم مناصب پر بیک وقت فائز ہوگئے۔ اس وقت اردوان ترکی کے صدر ہیں۔
اربکان صاحب اس نئی صورت حال سے سخت نالاں تھے۔ ان کی نئی پارٹی پارلیمان سے بھی باہر رہ گئی اور ان کے حلقے کے بیشتر لوگ بھی حکمران پارٹی کی طرف چلے گئے۔ عالمی اسلامی تحریکوں کی نمایاں شخصیات نے اس باہمی اختلاف کو دور کرنے کی بڑی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوسکی۔ اربکان صاحب اپنی افتادِ طبع کے مطابق اپنی رائے پر اصرار کچھ زیادہ ہی کیا کرتے تھے۔ ان کے نزدیک اردوان اور ان کے ساتھی اصل راستے سے انحراف کر گئے تھے۔ بسا اوقات ان کے الفاظ میں اتنی حدت آجاتی تھی کہ اپنے سابقہ شاگردوں کو منافق تک کہہ گزرتے تھے۔ ان کے دل میں کبھی یہ خیال بھی نہ گزرا تھا کہ اتنی اعلیٰ قیادت پر فائز یہ لوگ بھی ان سے یوں بے وفائی کرجائیں گے۔فارسی شاعر غنی کے الفاظ میں ؎
غنیؔ روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدۂ اش روشن کند چشم زلیخا را!
موجودہ حکمران جماعت کی پوری قیادت اربکان صاحب ہی کی تربیت یافتہ ہے اور وہ جس احتیاط اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں‘ اس کے اندر بھی بلاشبہ دانشِ مومنانہ کی جھلک نظر آتی ہے۔ اربکان صاحب کے سیٹ کئے ہوئے راستے پر ہی یہ لوگ بحیثیت مجموعی گامزن ہیں۔ اربکان صاحب کی وفات پر وزیر اعظم طیب اردوان نے بہت واضح الفاظ میں اعتراف کیا کہ ان کی سیاسی تعلیم و تربیت اربکان صاحب ہی کی مرہونِ منت ہے۔ وہ اب بھی انہیں اپنا استاد اور مرشد مانتے ہیں۔ اردوان وہی فکر اور منصوبے آگے بڑھا رہے ہیں جو انہوں نے اربکان صاحب سے سیکھے تھے۔ اللہ ان کو ثابت قدمی عطا کرکے سیکولر ترک عناصر و اسلام دشمن مغربی قوتوں کی سازشوں سے محفوظ فرمائے۔
اربکان صاحب ایک بڑی شخصیت تھے اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر کسی قسم کا سمجھوتہ ان کی لغت میں تھا ہی نہیں۔ یہ اپنی جگہ بہت بڑی عظمت ہے مگر دورِ جدید کے اسلامی مفکرین کی ایک بڑی تعداد اس بات کی مؤید ہے کہ پیچیدہ حالات میں حکمت کے ساتھ اپنا راستہ نکالنا‘ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت لائحہ عمل اختیار کرنا جس میں دینا کم پڑے اور لینے کے زیاد ہ مواقع حاصل ہوںمناسب حکمت عملی ہے۔اس موضوع پر یقینا آرا میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ اربکان مرحوم کے لیے ترک عوام کے دلوں میں بے پناہ محبت و احترام کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ ان کے جنازے میں محتاط اندازوں کے مطابق تیس لاکھ لوگ شامل ہوئے تھے۔ مرحوم صاحبِ عزیمت تھے‘ رخصت کا راستہ اپنانا ان کے نزدیک ضعفِ ایمان کی علامت ہے۔ انہوں نے وزارت و حکومت قربان کر دی مگر اپنی ڈگر نہ چھوڑی۔ ان کا بھی موقف اپنی جگہ درست تھا مگر موجودہ ترکِ قیادت کی سوچ میں بھی مومنانہ حکمت کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ ایک اجتہادی نوعیت کا معاملہ ہے۔
حکومت نے اربکان صاحب کی زندگی کے آخری دنوں میں عندیہ دیا تھا کہ ایک قومی ہیرو ہونے کے ناتے ان کی وفات پر انہیں سرکاری پروٹوکول دیا جائے گا۔ اربکان صاحب کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے وصیت کی کہ سرکاری پروٹوکول کے بجائے انہیں سلطان محمد فاتح کی مسجد اور اس سے ملحقہ میدان میں عام مسلمانوں کی طرح جنازہ پڑھنے کے بعد وہیں دفن کر دیا جائے۔ ان کے جنازے میں وزیر اعظم‘ صدر اور دیگر اعلیٰ سرکاری حکام بھی شریک تھے۔ صدر اور وزیر اعظم نے ان کے جنازے کو کندھا بھی دیا اور ان کی بطور استاد و مربی بہت زیادہ تحسین بھی کی۔ تمام عالمی اسلامی تحریکوں کے نمایاں افراد نے جنازے میں شرکت کی‘ بالخصوص پاکستان سے سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب قاضی حسین احمد صاحب اور مصر سے اخوان المسلمون کے سابق مرشد عام جناب محمد مہدی عاکف (مرحوم) جنازے میں شریک تھے۔
عارضۂ قلب کے دوران ڈاکٹروں نے اپنی بھرپور کوشش کی مگر ظاہر ہے کہ معالجین کے پاس بیماری کا علاج ہوتا ہے‘ موت کا علاج کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ آخر پیکِ اجل نے شیرِ ترکی کو 28فروری 2011ء کو واپسی کا بلاوا پہنچادیا اور اربکان صاحب ایک کامیاب زندگی گزار کر دارِ خلد کو سدھار گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں