حقوقِ نسواں کی ضمانت!

عورت کے حقوق پر آج ہر جانب بحث جاری ہے۔ دینی و مذہبی طبقات کا ایک نقطۂ نظر ہے اور سیکولر، لبرل اور مغربی سوچ کے حامل عناصر کا اس سے مختلف نقطۂ نظر ہے۔ ''خاتون مظلوم ہے‘‘ اور اس کے ''حقوق‘‘ کا حوالہ دے کر اسے گھر سے نکالنے کے منصوبوں کا تجزیہ کافی گہرے مطالعہ کا متقاضی ہے۔ مغرب میں خواتین کو ان کے حقوق کے نام پر جس طرح خوار اور رسوا کیا گیا ہے اور معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ان پر ڈالا گیا ہے وہ ایک دردناک تاریخ ہے۔ اسی طرح رجعت پسند حلقوں میں جو جہالت پائی جاتی ہے اس نے بھی خواتین کے حقیقی اور فطری حقوق کو بری طرح پامال کیا ہے۔ خاتون کو وراثت میں حصہ نہ دینا، شادی اور نکاح میں اس کی مرضی کا احترام نہ کرنا، اسے مردوں سے کم تر جاننا بہت بڑا ظلم ہے۔ اسلام نے ان دونوں انتہائوں کے برعکس خاتون کو عزت و احترام بھی دیا ہے اور اس کے تمام بنیادی حقوق کا تحفظ بھی کیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس معاشرے میں مبعوث ہوئے، وہ مکمل طور پر 'جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘کا نمونہ پیش کرتا تھا۔ طاقت ور قبائل اپنے سے کمزور قبائل کو دبا لیتے اور ان کے حقوق سے انہیں محروم کر دیتے۔ اسی طرح شخصیات کا معاملہ تھا۔ جو شخص جتنی قوت اپنے پاس رکھتا تھا، اتنا ہی معتبر، معزز اور قابلِ احترام شمار ہوتا تھا۔ انسان اپنی انسانیت کھو بیٹھا تھا اور احترامِ انسانیت کی بات کرنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ معاشرے میں زیادہ مظلوم وہ لوگ تھے، جنہیں غلام اور لونڈیاں کہا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ‘ بحیثیت مجموعی عورت بھی حقیر اور کمتر شمار ہوتی تھی۔
اس جاہلانہ معاشرے میں بیٹیوں کو عار سمجھا جاتا اور انہیں زندہ درگور کر دیا جاتا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے: ''یہ خدا کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں، سبحان اللہ! اور اُن کے لیے وہ جو یہ خود چاہیں؟ جب اِن میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اُس کے چہرے پر کَلَونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذِلّت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟‘‘ (النحل:57 تا 59)
دوسری جگہ پر اس مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے: ''کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں انتخاب کیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا؟ اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کو یہ لوگ اُس خدائے رحمن کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کی ولادت کا مژدہ جب خود ان میں سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اُس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔ کیا اللہ کے حصے میں وہ اولاد آئی جو زیوروں میں پالی جاتی ہے اور بحث و حجت میں اپنا مدعا پوری طرح واضح بھی نہیں کرسکتی؟‘‘(الزخرف:16 تا 18)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت ذات کو بے انتہا عزت و احترام دیا۔ آپﷺ جب بھی کوئی لشکر کفار کے مقابلے پر بھیجتے، صحابہ کرام کو تلقین فرماتے کہ وہ کسی کمزور بوڑھے، بچے اور خاتون پر ہر گز ہاتھ نہ اٹھائیں۔ غزوۂ احد میں حضرت ابو دجانہؓ کو اپنی تلوار مبارک دی تو تاکید کی کہ کسی خاتون پر اسے نہ چلائیں۔ ایک جنگ میں کفار کی لاشوں کے درمیان آپﷺ نے ایک کافر عورت کی لاش دیکھی تو سخت ناراضی کے عالم میں فرمایا: ''لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ عورت بھی ان کے ہاتھ سے نہ بچی؟‘‘ اسلام میں عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی چاروں حیثیتوں میں اتنا اعزاز و اکرام بخشا گیا ہے کہ دنیا کی کسی تہذیب، مذہب اور معاشرے میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ماں کے متعلق آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ جَاھِمَۃَ اَنَّ جَاھِمَۃَ جَائَ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَرَدْتُ اَنْ اَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ اَسْتَشِیْرُکَ فَقَالَ ھَلْ لَکَ مِنْ اُمٍّ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَالْزَمْھَا فَاِنَّ الْجَنَّۃَ عِنْدَ رِجْلِھَا۔
یعنی معاویہ بن جاہمہ سے روایت ہے کہ میرے والد جاہمہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے اور میں آپ سے اس بارے میں مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپﷺ نے اُن سے پوچھا: کیا تمہاری ماں (زندہ) ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں ! (زندہ) ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: تو پھر انہی کے پاس اور انہی کی خدمت میں رہو، اُن کے قدموں میں تمہاری جنت ہے۔ (مسند احمد، سنن نسائی، بحوالہ معارف الحدیث ج:6، ص:51)
اللہ و رسول کے نزدیک ماں کا مقام و درجہ اتنا عظیم ہے کہ بڑے گناہوں کی معافی ماں کی خدمت سے مل جاتی ہے اور پھر اگر ماں نہ ہو تو خالہ، پھوپھی وغیرہ کی خدمت کا بھی وہی درجہ ہے۔ یہاں تک کہ ایک حدیث میں تو یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ماں باپ موجود نہ ہوں تو ان سے دوستی رکھنے والے دوست اور سہیلیاں بھی اسی طرح عزت و احترام کے مستحق ہیں، جس طرح والدین کا معاملہ ہے۔
عنْ اِبْنِ عُمَرَؓ اَنَّ رَجُلًا اَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اَصَبْتُ ذَنْبًا عَظِیْمًا فَھَلْ لِیْ مِنْ تَوْبَۃٍ؟ قَالَ ھَلْ لَکَ مِنْ اُمٍّ؟ قَالَ لَا قَالَ وَھَلْ لَکَ مِنْ خَالَۃٍ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَبِرَّھَا۔
یعنی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے تو کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے (اور مجھے معافی مل سکتی ہے) آپﷺ نے پوچھا: تمہاری ماں زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا کہ : ماں تو نہیں ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: تو کیا تمہاری کوئی خالہ ہے؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں! خالہ موجود ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: تو اس کی خدمت اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو (اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے تمہاری توبہ قبول فرمالے گا اور تمہیں معاف فرما دے گا۔ (جامع ترمذی بحوالہ معارف الحدیث ج: 6، ص:52)
بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کی بھی آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے حتیٰ کہ اپنے آخری ایام میں بھی آپﷺ بیویوں اور غلاموں کے حقوق پر زور دیتے رہے۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ خَیْرًا فَاِنَّھُنَ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ وَاِنَّ اَعْوَجَ شَیْئٍ فِی الضِّلَعِ اَعْلَاہُ فَاِنْ ذَھَبْتَ تُقِیْمُہُ کَسَرْتَہٗ وَاِنْ تَرَکْتَہٗ لَمْ یَزَلْ اَعْوَجَ فَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگو! بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کے بارے میں میری وصیت مانو (یعنی میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کی ان بندیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نرمی اور مدارات کا برتائو رکھو) ان کی تخلیق پسلی سے ہوئی ہے (جو قدرتی طور پر ٹیڑھی ہوتی ہے) اور زیادہ کجی پسلی کے اوپر کے حصے میں ہوتی ہے، اگر تم اس ٹیڑھی پسلی کو (زبردستی) بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی، اور اگر اُسے یونہی اپنے حال پر چھوڑ دو گے (اور درست کرنے کی کوئی کوشش نہ کرو گے) تو پھر وہ ہمیشہ ویسی ہی ٹیڑھی رہے گی، اس لیے بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو۔ (بخاری ومسلم ،بحوالہ معارف الحدیث ج:6، ص:79)
آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر معاملے میں امت کے لیے اسوۂ حسنہ ہیں۔ اس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مثال دے کر ارشاد فرمایا:
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ آدمی تم میں زیادہ اچھا اور بھلا ہے جو اپنی بیوی کے حق میں اچھا ہو۔ (اسی کے ساتھ فرمایا) اور میں اپنی بیویوں کے لیے بہت اچھا ہوں۔ (جامع ترمذی۔ نیز مسند دارمی اور سنن ابن ماجہ میں یہی حدیث حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت کی گئی ہے۔ بحوالہ معارف الحدیث، ج:6، ص: 82 تا 83)
جہاں تک بیٹیوں اور بہنوں کا تعلق ہے، ان کے ساتھ حسنِ سلوک اور محبت کو جنت کا پروانہ قرار دیا گیا ہے۔ عرب کے معاشرے میں بیٹیوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا تھا، اس کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام نے انہیں اتنی عزت اور احترام دیا، جس کا تصور بھی قدیم و جدید دور کے کسی اور معاشرے میں محال ہے۔ زندہ درگور کی جانے والی بچیوں کے بارے میں اللہ نے ارشاد فرمایا: ''اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘‘ (التکویر:8تا 9)
قرآن و سنت میں خاتون کو جو عزت و وقار دیا گیا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ خاتون کا ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے وراثت میں حصہ قرآنِ مجید کی سورہ النساء میں واضح طور پر مقرر کیا گیا ہے۔ ان کو اس حصے سے محروم کرنا اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اسی طرح اسلام میں مردوں کو پابند کیا گیا ہے کہ نکاح اور شادی کے معاملے میں وہ خواتین سے ان کی رائے معلوم کریں۔ نکاح کا فیصلہ ہو جانے پر حق مہر مقرر کرنا اور اس کی ادائیگی نکاح کی لازمی شرائط میں سے ہے۔ خاتون پر معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ بالکل نہیں ڈالا گیا۔ اسلام کے اس متوازن اورحسین نظام کے مقابلے میں افراط و تفریط پر مشتمل ہر تہذیب غیر فطری اور ظالمانہ ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں