حقوقِ نسواں کی ضمانت!…(آخری حصہ)

8 مارچ کو قومی اخبارات میں ایک خبر چھپی ہے۔ میانوالی میں ایک باپ نے اپنی نومولود بچی کو پیدائش کے ایک ہفتے بعد گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ اسے بیٹے کی تمنا تھی مگر اس کے گھر بیٹی کیوں پیدا ہوئی! ہائے یہ جاہلیت اور ظلم! اس خبر کو پڑھ کر کون سا انسان ہے کہ وہ آنسو ضبط کر سکے، بشرطیکہ اس کی انسانیت مر نہ گئی ہو۔ عربوں کے ہاں قبل از اسلام ایسا ہی کلچر تھا۔ نبی محترمﷺ دنیا میں تشریف لائے تو حوا کی بیٹی کو عزت و اکرام اور پیار و محبت ملا۔ اس کے جملہ بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی۔
دورِ جاہلیت میں عربوں کے بعض قبائل میں بچیوں کی پیدائش کے خدشے ہی سے خواتین کی زچگی کے دوران گڑھے کھود دیے جاتے تھے۔ اگر کسی طریقے سے وہ بچی بچ جاتی تو باپ موقع کی تلاش میں رہتا کہ کب اسے ٹھکانے لگا دیا جائے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے نبی مہربانﷺ کے سامنے اپنے زمانۂ کفر کا ایک دردناک واقعہ بیان کیا۔ اس نے کہا ''میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی۔ جب میں اس کو پکارتا تو دوڑی دوڑی وہ میرے پاس آتی تھی۔ ایک روز میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا۔ راستے میں ایک کنواں آیا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔ اس کی آخری آواز جو میرے کانوں میں آئی‘ وہ تھی: ہائے ابّا، ہائے ابّا‘‘۔
یہ سن کر رسول رحمتﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ حاضرین میں سے ایک نے کہا: اے شخص! تو نے حضور کریمﷺ کو غمگین کر دیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ''اسے مت روکو، جس چیز کا اسے سخت احساس ہے اس کے بارے میں اسے سوال کرنے دو‘‘۔ پھر آپﷺ نے اس سے فرمایا کہ اپنا قصہ پھر بیان کر۔ اس نے دوبارہ اسے بیان کیا اور آپﷺ سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو کچھ ہوگیا‘ اللہ نے اسے معاف کر دیا، اب نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کر۔ (تفہیم القرآن، ج:6، ص: 265)
جس معاشرے کی جھلک اوپر آپ نے دیکھی، کیا ہمارا معاشرہ بھی اسی‘ قبل ازاسلام کے جاہلی عرب معاشرے کی تصویر پیش نہیں کر رہا؟ اُس معاشرے میں جب اسلام کی روشنی پھیلی تو حقیقی اور مکمل انقلاب آ گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں کو اللہ کی رحمت قرار دیا۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا جَائَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَنَا وَھُوَ ھٰکَذَا وَضَمَّ اَصَابِعَہٗ۔
یعنی جس نے دو لڑکیوں کو پرورش کیا یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو قیامت کے روز میرے ساتھ وہ اس طرح آئے گا، یہ فرما کر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو باہم جوڑ کر دکھایا۔ (صحیح مسلم) ایک اور حدیث میںبیٹیوں کے ساتھ‘ بہنوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
مَنْ عَالَ ثَلٰثَ بَنَاتٍ اَوْ مِثْلَھُنَّ مِنَ الْاَخَوَاتِ فَاَدَّبَھُنَّ وَرَحِمَھُنَّ حَتّٰی یُغْنِیَھُنَّ اللّٰہُ اَوْجَبَ اللّٰہُ لَہٗ الْجَنَّۃَ۔ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَوِ اثْنَتَیْنِ؟ قَالَ اَوِاثْنَتَیْنِ حَتّٰی لَوْ قَالُوا اَوْ وَاحِدَۃً لَقَالَ وَاحِدَۃً۔
یعنی جس شخص نے تین بیٹیوں یا بہنوں کی پرورش کی، ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا، ان کو اچھا ادب سکھایا اور ان سے شفقت کا برتائو کیا‘ یہاں تک کہ وہ اس کی مدد کی محتاج نہ رہیں تو اللہ اس کے لیے جنت واجب کردے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! اگر دو ہوں تو؟ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور دو بھی۔ حدیث کے راوی ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اگر لوگ اس وقت ایک کے متعلق پوچھتے تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے۔ (شرح السنۃ بروایت ابن عباسؓ)
میانوالی کے سنگدل باپ کا ایک منفرد واقعہ نہیں‘عمومی مائنڈ سیٹ یہی ہے کہ بیٹیوں کو بیٹوں کے مقابلے میں آج بھی ہمارے معاشرے میں کمتر جانا جاتا ہے۔ یہ بھی جاہلیت کے اثرات کا نتیجہ ہے۔ اسلام میں اس سوچ کی سخت ممانعت فرمائی گئی ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
مَنْ کَانَتْ لَہٗ اُنْثیٰ فَلَمْ یَئِدْھَا وَلَمْ یُھْنِھَا وَلَمْ یُؤْثِرْ وَلَدَہٗ عَلَیْھَا دَخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ۔
یعنی جس کے ہاں لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، نہ ذلیل کرکے رکھے، نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے، اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ (سنن ابوداؤد)
کسی کی بیٹی یا بہن اگر بیوہ یا مطلقہ ہو کر اس کے پاس آجائے تو اسے بھی ہرگز بوجھ نہیں سمجھنا چاہیے۔ محبوبِ خداﷺ نے اس بارے میں حضرت سراقہؓ بن مالک سے فرمایا:
اَلَا اَدُلُّکَ عَلیٰ اََعْظَمِ الصَّدَقَۃِ اَوْ مِنْ اَعْظَمِ الصَّدَقَۃِ قَالَ بَلیٰ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اِبْنَتُکَ الْمَرْدُوْدَۃُ اِلَیْکَ لَیْسَ لَھَا کَاسِبٌ غَیْرَکَ۔
یعنی میں تمہیں بتائوں کہ سب سے بڑا صدقہ (یا فرمایا: بڑے صدقوں میں سے ایک) کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: ضرور بتائیے یا رسول اللہﷺ! فرمایا: تیری وہ بیٹی جو (طلاق پا کر یا بیوہ ہوکر) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کوئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو‘ (اس پر خرچ کرنا)۔ (بخاری فی الادب المفرد)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی تمام بیٹیوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ آپﷺ کی تین صاحبزادیاں حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ اور حضرت امّ کلثومؓ آپﷺ کے سامنے دنیا سے رحلت فرما گئی تھیں، البتہ حضرت فاطمہؓ آپﷺ کی زندگی کے آخری سانس تک آپﷺ کے ساتھ موجود تھیں، اس لیے ان کے ساتھ آپﷺ کی محبت کی مثالیں بہت سے راویوں کے ذریعے منقول ہوئی ہیں۔
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ مَا رَأَیْتُ اَحَدًا کَانَ اَشْبَہَ سَمْتًا وَھَدْیًا وَدَ لًّا بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ فَاطِمَۃَ کَانَتْ اِذْ دَخَلَتْ عَلَیْہِ قَامَ اِلَیْھَا فَاَخَذَ بِیَدِھَا فَقَبَّلَھَا وَاَجْلَسَھَا فِیْ مَجْلِسِہٖ وَکَانَ اِذَا دَخَلَ عَلَیْھَا قَامَتْ اِلَیْہِ فَاَخَذَتْ بِیَدِہٖ فَقَبَّلَتْہُ وَاَجْلَسَتْہُ فِیْ مَجْلِسِھَا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ میں نے فاطمۃالزہراؓ سے زیادہ کسی کو شکل و صورت، سیرت و عادت اور چال ڈھال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ نہیں دیکھا۔ جب وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپﷺ (جوشِ محبت سے) کھڑے ہو کر استقبال کرتے، ان کا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیتے اور (پیار سے) اس کو چومتے اور اپنی جگہ پر اُن کو بٹھاتے(اور یہی سیدہ فاطمہؓ کا دستور تھا)۔ جب آپﷺ ان کے یہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپﷺ کے لیے کھڑی ہوجاتیں، آپﷺ کا دستِ مبارک اپنے ہاتھ میں لے لیتیں، اُس کو چومتیں اور اپنی جگہ پر آپﷺ کو بٹھاتیں۔ (سنن ابو داؤد، معارف الحدیث، ج:6، ص: 165)۔
مغرب نے بے خدا تہذیب کے زیرِ اثر ترقی و روشن خیالی کے نام پر ایسے ایسے گھنائونے جرائم کیے ہیں کہ شرافت سرپیٹ کے رہ جاتی ہے۔ کیا عافیہ صدیقی عورت نہیں ہے؟ چلیں وہ تو دخترِ اسلام ہے۔ خود مغرب کی عورت کو نام نہاد آزادی کے جھوٹے خواب دکھا کر شمعِ محفل بنا دیا گیا۔ بے چاری سادہ لوح عورت سمجھی کہ اسے اعزاز بخشا جارہا ہے مگر ظالم شیطانی تہذیب نے اس سے اس کی حیا چھینی‘ پھر اس سے مطالبہ کیا کہ وہ معاشی دوڑ میں بھی مرد کے ساتھ برابر کی شریک ہو۔ معاش کمانے کے لیے اس کے گلے میں بھی جوا ڈال کر اسے بھی مرد کے ساتھ جوت دیا گیا۔ اسلام نے عورت کو وراثت میں حصہ دیا مگر معاشی بوجھ سے اسے بری قرار دیا۔ وہ اپنی دولت و ثروت میں سے رضا کارانہ خرچ کرسکتی ہے مگر بطورِ ماں، بیوی، بہن اور بیٹی ‘اس کی معاشی کفالت بیٹے، خاوند، بھائی اور باپ کے ذمے ہے۔
آج بھی مغرب میں خواتین کے اسلام قبول کرنے کی شرح مردوں سے زیادہ ہے تو اس کا سب سے بڑا عامل اسلام میں خواتین کو دی گئی عزت اور تحفظ کی ضمانت ہی ہے۔ خواتین کے حقوق کے سب سے بڑے ضامن رسولِ رحمتﷺ اور محفوظ ترین قلعہ دینِ اسلام ہی ہے۔ یہ نعرہ کہ ''میرا جسم میری مرضی‘‘ جدت پسند خواتین و حضرات کا مقبول نعرہ ہے اور وہ اس کے برعکس کوئی بات سننے کے روادار نہیں۔ اللہ کے بندو! عورت کو کوئی غلام نہیں بنا سکتا‘ اس حد تک تو یہ بات درست ہے، مگر جس خالق نے اسے پیدا کیا ہے، اس کے حقوق کاتحفظ فرمایا ہے، کیا اب اس کی مرضی ختم اور اپنی من مانی کے ترانے گا دیے جائیں؟ جو مالک و خالق ہے‘ اس کا انکار کرنے والے جو چاہیں کریں، مگر اللہ تعالیٰ اور دینِ اسلام کے ماننے والوں کایہ دعویٰ ہرگز کوئی معقول رویہ نہیں ہے۔
جتنے مرضی سروے کرا لیں، آپ کے سامنے یہی نتیجہ آئے گا کہ باپردہ و باحیا خواتین کے مقابلے میںدوسری خواتین کی ہراسگی اور بے حرمتی کے واقعات زیادہ رونما ہوتے ہیں۔ پردہ اور حجاب عورت کو ایک طرح سے حفاظت فراہم کرتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے مسلم خواتین کو پردے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ پردہ کریں تو ان کی پہچان باعصمت خواتین کی ہو گی اور انہیں ہراساں نہ کیا جائے گا۔(سورہ الاحزاب:59)
رسولِ رحمتﷺ کی شان میں ماہرالقادری نے کیا خوب کہا:
مظلوموں کی فریاد سنی، مجبوروں کی غم خواری کی
زخموں پہ خنک مرہم رکھے، بے چین دلوں کے کام آئے
عورت کو حیا کی چادر دی، غیرت کا غازہ بھی بخشا
شیشوں میں نزاکت پیدا کی، کردار کے جوہر چمکائے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں