اللہ سے دعا، مومن کا سہارا!

اللہ اور بندے کا تعلق مالک اور غلام کی طرح ہے۔ یہ مالک اپنے غلام کی تمام حاجات وضروریات کا اہتمام فرماتا ہے۔ بندہ اپنی ہر حاجت اپنے مالک ہی سے مانگتا ہے اور مالک کبھی اسے مایوس نہیں کرتا۔ دعا مومن کا اسلحہ بھی ہے اور سہارا بھی۔ قرآن وحدیث میں اﷲ اور اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی اہمیت واضح کی ہے اسی طرح کتاب اﷲ اور سنت رسول میں دعا کے لیے کچھ لازمی شرائط بھی انسانوں کی رہنمائی کے لیے ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ یوں تو ان شرائط کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن یہاں چند شرائط بیان کی جاتی ہیں۔
(1) خلوص دین:خلوص دین سے مراد یہ ہے کہ انسان زندگی کے ہر معاملے میں اﷲ تعالیٰ کی ہدایت ورہنمائی کے مطابق قدم اٹھائے۔ دعا جس کے سامنے پیش کی جا رہی ہے اس کے احکام کی پیروی لازمی امر ہے ورنہ دعا کے اندر روح نہیں پیدا ہو سکتی۔ قرآنِ مجید میں یہ مضمون کئی مقامات پر واضح کیا گیا ہے۔ سورۂ اعراف‘ آیت 29 میں فرمایا: ''اُدْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ‘‘ (اسی ''اﷲ‘‘ کو پکارو اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے)
(2) عجز واخفاء: دعا کے لیے دل کی کیفیت وحالت کا بدل جانا بھی نہایت اہم چیز ہے۔ جس طرح غافل و بے فکر دل کے ساتھ کی گئی عبادت کوئی قبولیت حاصل نہیں کر سکتی اسی طرح عاجزی کے بغیر دعا میںاثر پیدا نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ بھی کہ اﷲ سے دعا کرتے وقت اخفا پسندیدہ امر ہے۔ قرآنِ مجید سورۂ اعراف‘ آیت 55 میں حکم دیا گیا: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً ''اپنے ربّ کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے...‘‘ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کا ذکر سورۂ مریم‘ آیت 3 میں کرتے ہوئے فرمایا: ''اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّا‘‘ (جب زکریا نے) اپنے ربّ کو چپکے چپکے پکارا۔ اسی طرح قرآنِ مجید میں حضور اکرمﷺ کوحکم دیا گیا ''وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ‘‘ (اعراف: 205) ''اور اپنے ربّ کا ذکر کر‘ اپنے دل میں عاجزی اور خوف سے بغیر آواز کی بلندی کے‘‘۔ یہاں ذکر کا لفظ ذکرِ الٰہی اور دعا دونوں کو محیط ہے۔
عاجزی وگڑگڑاہٹ اور قلبی حضوری تو دعا کے لیے ایک لازمی جزو ہے جس کے بغیر دعا کا تصور مکمل نہیں ہو سکتا؛ تاہم اخفا کے معاملے میں کچھ آزادی ضرور ہے۔ بعض مواقع پر خصوصاً اجتماعی دعاؤں میں اخفا کی جگہ اظہار بھی درست ہے۔ ایک آیت قرآنی سے بھی اس بات کی گنجائش نکلتی ہے کہ دعا بآواز متوسط کی جاسکتی ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل‘ آیت 110 میں کہا گیا ''وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِھَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْـلًاo‘‘ اس آیت میں صلاۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی نماز کے ہیں مگر اس میں دعا کے معانی بھی پائے جاتے ہیں خصوصاً اس آیت میں اس سے پہلے کے الفاظ ان معانی کی تائید کرتے ہیں: ''قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَط اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰیج‘‘۔
اس کے باوجود انفرادی دعاؤں میں اخفاء ہی بہتر ہے۔ بعض بزرگوں کے نزدیک تو خفیہ دعا جہری دعا پر ستر گنا فضیلت رکھتی ہے۔البتہ میرے نزدیک جہری (اجتماعی) دعائوں کا فائدہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ سن کر دعائیں یاد کرلیتے ہیں۔
(3) خوف ورجا: دعا کے اجزائے ترکیبی میں خوف ورجا بھی نہایت درجہ اہم عناصر ہیں۔ دعا کے وقت اﷲ تعالیٰ کا خوف ا ور اس کے جلال کی ہیبت جسم ودماغ پر طاری ہو اور اس کی رحمت والفت کی امید سے دل وروح معمور ہو۔ سورۃ الاعراف میں فرمایا: ''اُدْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا‘‘ (آیت 56) اس کو پکارو خوف اور طمع کے ساتھ۔ سورۂ انبیاء میں اپنے نبیوں کا نام بنام ذکر کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ نے ان کی جو مشترک صفات گنوائی ہیں‘ ان میں کہا ہے ''یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَھَبًا وَّکَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْنَ‘‘ (آیت 90) یعنی (ہمارے یہ تمام پیغمبر) ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے اور ہمارے سامنے جھکے ہوئے تھے۔
اﷲ تعالیٰ کے خوف سے کانپنا اور اس کی رحمت سے دل کو تسلی دینا مومنین کی امتیازی صفت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ السجدہ آیت 16 میں اپنے بندگان خاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ''تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًاز‘ یعنی ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں‘ اپنے ربّ کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔
(4) راحت وآرام میں دعا مانگنا: عام طور پر انسانوں کا وتیرہ یہ ہے کہ جب کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو خدا کو مدد کے لیے پکارتے ہیں اور جب اﷲ تعالیٰ انہیں نجات دے دیتا ہے تو اس کو یکسر بھول جاتے ہیں ا ور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔ انسان کی اس فتادِ طبع کا ذکر قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ سورۃ العنکبوت‘ آیت 65 میں فرمایا: ''فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِینَ لَہُ الْدِّیْنَط فَلَمَّا نَجّٰھُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ھُمْ یُشْرِکُوْنَo‘‘ (جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اﷲ کے لیے خاص کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں‘ پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں)
قرآنِ مجید میں انسان کی اس ذہنیت کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو: سورۃ الانعام:11 تا 12 اور 22تا 23۔ النحل:53 تا 55 اور 112۔ بنی اسرائیل:66 تا 69۔ الکہف: 35 تا 36 اور 42۔ النمل: 62تا 63۔ الروم:33 تا 36۔ لقمان: 32۔ الزمر: 8 اور 49۔ المومن:83 تا 85۔ حم السجدہ:51 اور 52۔ القلم: 17 تا 32۔ الفجر:15 تا 16۔ اﷲ تعالیٰ سے مصیبت میں بھی دعا مانگنی ضروری ہے مگر آرام وراحت میں اس کو فراموش کر دینا سخت نمک حرامی اور پرلے درجے کی خودغرضی۔ سنن ترمذی میں حضور اکرمﷺ کی ایک حدیث یوں منقول ہے: جو شخص مصائب ومحن میں قبولیتِ دعا کا خواہاں ہو‘ اسے چاہیے کہ آرام وخوشحالی میں خدا کو یاد رکھے او راس سے کثرت سے دعائیں مانگے۔
(5) کسبِ حلال: دعا کی قبولیت کے لیے یہ بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ دعا کرنے والا حرام خوری سے مجتنب ہو اور رزقِ حلال سے گزر اوقات کرے۔ اس مضمون کی وضاحت حضور اکرمﷺ کی یہ حدیث خوب کرتی ہے۔ فرمایا: ''ایک شخص لمبا سفر طے کر کے غبار آلود وپراگندہ بال آتا ہے۔ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اللہ کو پکارتا ہے۔ اے میرے رب! اے میرے ربّ! اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام‘ پینا حرام‘ کپڑے حرام اور جسم اس کا پلا ہوا ہی حرام غذا سے ہے‘ پھر اس حال میں اس کی دعا قبول ہو تو کیوں کر۔‘‘ (مسلم‘ ترمذی‘ احمد)
پس معلوم ہوا کہ رزقِ حرام کے ساتھ کسی بھی حالت میں اور کتنی بھی عاجزی کے ساتھ دعا کی جائے‘ اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی وقعت نہیں۔
(6) ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا: یوں تو جس حال میں بھی دعا مانگی جائے (چلتے پھرتے‘ بیٹھے‘ لیٹے) دیگر شرائط اگر موجود ہوں تو دعا قبول ہے مگر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ہم عموماً ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں مگر ذہن میں اس کی اہمیت مستحضر رہنی چاہیے۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ شرم وحیا والا اور ذوالفضل والکریم ہے۔ جب کوئی دونوں ہاتھ اٹھا کر اس کی بارگاہ میں دعا مانگتا ہے تو اسے اس کو خالی ہاتھ ناکام واپس کرنے میں شرم آتی ہے۔ (ترمذی‘ ابوداؤد‘ ابن ماجہ)
(7) کلماتِ طیبہ: اﷲ تعالیٰ خود طیب وپاکیزہ ہے اور طیب وپاکیزہ چیزوں ہی کو پسند کرتا ہے۔ دعا کے لیے کلمات طیب اس کی بارگاہ میں پیش کیے جائیں تو اسے بہت پسندیدہ معلوم ہوتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں کہا گیا ہے: ''اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ‘‘ پاکیزہ کلمات اﷲ کی طرف اوپر جاتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں جن دعائیہ کلمات کی تلقین کی گئی ہے یا حدیث شریف میں جو دعائیں نبی کریمﷺ سے منقول ہیں ان سے پاکیزہ کلمات کوئی نہیں ہو سکتے۔ پس انہی دعاؤں کا سہارا لینا چاہیے۔ ویسے کسی بھی زبان میں بلکہ دل ہی دل میں بھی دعا کی جاسکتی ہے مگر کلمات وجذبات پاکیزہ ہونے چاہئیں۔
(8) حمد وثناء اور درود وسلام سے آغاز واختتامِ دعا: دعا کے لیے مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حمد باری تعالیٰ بیان کی جائے‘ پھر حضور اکرمﷺ پر درود وسلام بھیجا جائے۔ اس کے بعد دعائیں کی جائیں اور دعاؤں کے آخر میں پھر حمد باری ودرود وسلام برپیغمبر خدا کا اہتمام ہو۔ امام ترمذی نے اپنی جامع میں اور امام حاکم نے اپنی مستدرک میں تو ایک حدیث نقل کی ہے جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر دعا سے پہلے دو رکعت نفل نماز بھی مسنون ہے۔
ان اصولوں کو مدنظر رکھ کر جب بھی کوئی بندۂ مومن دعا مانگے گا تو کبھی محرومی وناکامی سے دوچار نہ ہو گا۔
رمضان کی ان بابرکت گھڑیوں میں اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازے۔ ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور ہمیں قیامت کے روز اپنے انعام یافتہ لوگوں کی صف میں شامل کرے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں