ختم نبوت جزوِایمان ہے!

افسوس کہ آج مسلمان اپنے دینی فرائض سے غفلت کا شکار ہو چکے ہیں، مگر اسلام دشمن قوتیں ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنی خباثتوں اور سازشوںمیں مصروف ہیں۔ ختم نبوت کا انکار کرنے والوں کو ہمارے دستور نے 1974ء میں غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا۔ آج تک اس ترمیم کے خلاف اسلام دشمن قوتیں ہمیشہ زہر اگلتی رہی ہیں۔ آج کل پاکستان میں سیاسی دنگل اور باہمی گالم گلوچ کا جو ماحول پیدا ہو گیا ہے اسے منکرین ختم نبوت اپنے لیے سنہری موقع گردانتے ہیں۔ ایسے ہی مواقع پر وہ اپنی سازشوں کو عالمی قوتوں کی پشت پناہی سے اپنے گھنائونے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں۔ آج بھی ایسی کیفیت پروان چڑھتی نظر آ رہی ہے۔ ہر چند کے علما ختم نبوت کے بارے میں اپنے ایمان افروز بیانات سے قوموں کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ایک بے حسی کی کیفیت نظر آتی ہے۔ ہمیں واضح طور پر ہر کلمہ گو کو اس حقیقت سے روشناس کرا دینا چاہیے کہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا لازمی جز ہے اور اس کے خلاف کوئی بھی سازش ہمارے دین و ایمان کی بنیادیں گرا دینے کے مترادف ہے۔
اس حقیقت سے کون ناواقف ہے کہ دورِ نبوی سے لے کرتا امروز امت کے درمیان اس موضوع پر کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپﷺ کی امت‘ آخری امت ہے۔علامہ اقبالؒ نے آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادِ عالیہ ہی کو اپنے فارسی کلام میں یوں منظوم کیا ہے:
پس خدا برما شریعت ختم کرد
بر رسول ما رسالت ختم کرد
رونق از ما محفلِ ایام را
اُو رُسل را ختم و ما اقوام را
حضور پاکﷺ کی بیسیوں احادیث اسی موضوع پر ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ یہ سب احادیث سورۂ احزاب کی آیت نمبر40 کی تشریح کرتی ہیں۔ ہم چند احادیث یہاں نقل کرتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کرام کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاجاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفا ہوں گے۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب باب ماذکرہ عن بنی اسرائیل)
حضرت ابیّ بن کعبؓ کی روایت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے چھ باتوں میں تمام انبیا پر فضیلت دی گئی ہے۔ (1)مجھے جامع اور مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی ہے، (2) مجھے رعب کے ذریعے سے نصرت بخشی گئی ہے، (3) میرے لیے اموالِ غنیمت حلال کیے گئے ہیں، (4) میرے لیے زمین کو مسجد بھی بنا دیا گیا ہے اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی (یعنی میری شریعت میں نماز صرف مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین پر ہرجگہ پڑھی جاسکتی ہے اور پانی نہ ملے تو میری شریعت میں تیمم کرکے وضو کی حاجت بھی پوری کی جاسکتی ہے اور غسل کی حاجت بھی)، (5)مجھے تمام دنیا کیلئے رسول بنایا گیا ہے اور (6) مجھ پر انبیا کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)
رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔(جامع ترمذی، کتاب الرؤیا، باب ذہاب النبوۃ۔ مسند احمد، مرویات، انس بن مالک)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے کفر محو (نیست و نابود) کیا جائے گا۔ میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کیے جائیں گے (یعنی میرے بعد اب بس قیامت ہی آنی ہے) اور میں عاقب ہوں، اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب اسماء النبی۔ جامع ترمذی، کتاب الآداب، باب اسماء النبی۔ مؤطا، کتاب اسماء النبی، المستدرک للحاکم، کتاب التاریخ، باب اسماء النبی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو دجال کے خروج سے نہ ڈرایا ہو (مگر ان کے زمانے میں وہ نہ آیا) اب میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ لامحالہ اب اس کو تمہارے اندر ہی نکلنا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الدجال)
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطابؓ ہوتے۔ (جامع ترمذی، کتاب المناقب)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا: میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہے جو موسیٰ کے ساتھ ہارون کی تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ)
ان احادیث میں اللہ کے فضل ورحمت سے ہر دور میں ائمہ کرام اور مجتہدین امت نے یکساں موقف اپنایا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر نقب لگانے والے تمام مجرمین بالاتفاق کفار ہیں۔ وہ دنیا میں بھی عبرت کا نشان بنے اور آخرت میں بھی ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اس موضوع پر اختصار کے ساتھ اہلِ علم کی آرا ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:
امام ابوحنیفہؒ (80-150ھ) کے زمانے میں ایک آدمی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا: ''مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں‘‘۔ اس پر امام اعظمؒ نے فرمایا کہ ''جوشخص اس سے نبوت کی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیوںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما چکے ہیں کہ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ۔‘‘ (مناقب الامام الاعظم، ابی حنیفہ لابن حنبل المکی، ج:1،ص: 161)۔
علامہ ابن جریر لکھتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی اورا س پر مہر لگا دی گئی۔ اب قیامت تک کے لیے یہ دروازہ بند ہے۔ (تفسیرابن جریر، ج:22،ص:12)
امام طحاوی اپنی کتاب عقیدہ سلفیہ میں اور علامہ ابن حزم اپنی تفسیر المعلّٰی میں فرماتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیا ہیں‘ آپﷺ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں۔
علامہ زمخشریؒ (468-537ھ) لکھتے ہیں: ''جو لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کو دلیل بناتے ہیں انہیں جان لینا چاہیے کہ عیسیٰ علیہ السلام آپﷺ سے پہلے نبی بنائے جاچکے تھے، جب وہ نازل ہوں گے تو شریعت محمدیہ کے پیرو اور آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے ایک فرد کے طور پر آئیں گے۔ (تفسیرکشاف، ج:2، ص: 215)۔ یہی بات امام بیضاویؒ (متوفی 685ھ) نے لکھی ہے۔ (بحوالہ انوار لتنزیل،ج:4، ص:164)
علامہ سیوطیؒ (متوفی911ھ) لکھتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو آپﷺ کی شریعت کے مطابق ہی عمل کریں گے۔ (جلالین، ص:768)
علامہ آلوسیؒ (متوفی 1270ھ) نے اس موضوع پر تفصیلاً لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا مدعی بالاتفاق کافر اور واجب القتل ہے۔ (روح المعانی، ج:22، ص:36، 38تا 39)
گزشتہ صدی کے عظیم مجدد، مفسر قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو 1953ء میںختم نبوت کے موضوع پر معرکہ آرا کتاب لکھنے پر مارشل لا عدالت سے سزائے موت دلوائی گئی۔ سید مودودیؒ نے موت کی سزا سننے کے بعد رحم کی اپیل کی پیش کش ٹھکراتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگوں سے میرے جوتے کی نوک بھی رحم کی بھیک نہیں مانگے گی۔ ناموسِ رسالت پر جان قربان کرنے سے بڑا اعزاز اور کیا ہو سکتا ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے تمہارے ہاتھوں میں نہیں، ربِّ کائنات کے اختیار میں ہیں۔ اگر اس نے مجھے زندہ رکھنا ہے، تو تم الٹے بھی لٹک جائو تو موت سے ہمکنار نہیں کر سکتے۔ اللہ نے اپنے بندے کی زندگی محفوظ فرمائی اور ان کے مخالفین خائب و خاسر ہوگئے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا خود اس امت کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ جس طرح آپﷺ انبیاء کے خاتم ہیں، اسی طرح یہ امت جملہ اممِ عالم کی خاتم ہے۔
رونق از ما محفل ایام را
او رسل را ختم وما اقوام را
لا نبیّ بعد ز احسانِ خدا ست
پردۂ ناموسِ دینِ مصطفی است
ختم نبوت کے پروانے آج بھی اپنی جانیں ناموس رسالت پر قربان کرنے کے لیے اسی جذبے سے سرشارہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے غازی علم الدین شہید، غازی عبدالحمید شہید اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو مالا مال کیا تھا۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں