سیّد مودودیؒ اور افسانوی ادب!

قارئین محترم! گزشتہ کالم میں افسانے اور اس کی مقصدیت وافادیت کے بارے میں چند باتیں آپ نے مطالعہ فرمائیں۔ ہم نے ایک ماہرِ ادب پروفیسر صاحب کا تذکرہ کیا تھا جو لکھنے والوں کی کلاس بلکہ خبر بھی لیتے ہیں۔ ان کا مطالعہ اور ان کی ادبی معلومات قابلِ رشک ہیں۔ پچھلے کالم میں آپ سے عرض کیا تھا کہ ان کے تعارف کے لیے انتظار فرمائیے۔ ایک دوست نے کالم پڑھ کر فوراً سوال کیا: ''پروفیسرصاحب نے آپ سے انٹرویو (Viva) لے کر آپ کو پاس کیا یا فیل؟‘‘ نتیجے کا اعلان تو ابھی تک نہیں ہوا۔ بہرحال آئیے آج سب سے پہلے آپ کو ان سے متعارف کراتے ہیں۔
ان کو آپ یقینا جانتے ہوں گے۔ ان کا نام پروفیسر محمدصدیق المعروف ظفرحجازی ہے جو تقریباً سولہ‘ سترہ سال قبل ایجوکیشن یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئے اور کئی سالوں سے ادارہ معارف اسلامی میں سکالر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تنظیم اساتذہ پاکستان کے رکن اور تنظیم کے ماہانہ ادبی وعلمی رسالہ ''افکارِ معلم‘‘ کے کرتا دھرتا اور روحِ رواں بھی ہیں۔ مطالعہ بے مثال ہے۔ اے کاش اپنے اس علمی ذخیرے کو ذہن کی دبیز تہوں سے نکال کر تحریری صورت میں آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کردیتے۔ جاتے ہوئے محترم نے فرمایا: ''میں آپ کو سیدمودودیؒ کا ایک خط دکھاؤں گا، جس میں اس موضوع پر مولانا مرحوم نے تفصیلاً روشنی ڈالی ہے‘‘۔
میں نے مولانا مودودی سے 1971ء میں افسانے کے بارے میں سوال کیا تھا۔ مولانا کے جواب کا مفہوم میں نے اپنے الفاظ میں محفوظ کیا تھا جسے گزشتہ کالم میں آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ محترم پروفیسر حجازی صاحب نے چونکہ فرمایا تھا کہ مولانا کی ایک تحریر بھی اس موضوع پر ریکارڈ میں موجود ہے؛ چنانچہ ہم اس تحریر کے شدت سے منتظر تھے۔ یہ تحریر مولانا مرحوم ومغفور نے جناب چودھری غلام جیلانی المعروف جیلانی بی اے کو ان کے خط کے جواب میں 1943ء میں لکھی تھی۔ وہ تحریر ملاحظہ ہو:
[ادارہ ٔدارالاسلام پٹھانکوٹ]
20 جنوری 1943ء
عزیزم السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ نے شاہ صاحب کا جو واقعہ لکھا ہے، پیر عزیز الدین صاحب نے مجھے اس کی کوئی اطلاع نہ دی تھی۔ اگر آپ اسے اپنا چشم دید واقعہ نہ کہتے تو میں اسے ہرگز باور نہ کرتا۔ مجھے سخت افسوس ہے کہ شاہ صاحب اتنی مدت میرے ساتھ رہے اور مجھے اندازہ نہ ہو سکا کہ وہ اپنے اندر اس قدر اخلاقی پستی چھپائے ہوئے ہیں۔دیکھئے، یہ مسلمانوں کی کیسی کم بختی ہے کہ جو لوگ اس قوم میں اتنے پست اخلاق ہیں، وہ قرآن کے مترجم اور ''پیغام حق‘‘ کے ناشر بنتے ہیں۔
آپ کی طبیعت کا رجحان اگر مختصر فسانے لکھنے کی طرف ہے تو اس کو نشوونما دیجیے اور بڑے بڑے افسانہ نگاروں کے افسانے بکثرت دیکھ کر یہ سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ کسی خاص نقطۂ نظر کو ناظرین کے ذہن میں غیر محسوس طور پر فسانہ کے ذریعہ سے اتار دینے کا کیا طریقہ ہے۔ فسانے کے عیوب میں سے یہ ایک بڑا عیب ہے کہ پڑھنے والے کو یہ محسوس ہو جائے کہ فسانہ نگار ان کے اندر کیا نقش بٹھانا چاہتا ہے اور فسانے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جو نقش آپ بٹھانا چاہتے ہیں وہ آپ سے آپ بیٹھ جائے بغیر اس کے کہ ناظر کا ذہن قبل از وقت چوکنا ہو کر اس اثر کو Resist کرنے پر آمادہ ہو۔ اس فن کو خصوصیت کے ساتھ روسی افسانہ نگاروں سے سیکھئے جنہوں نے اشتراکیت کی تبلیغ میں اس سے بہت کام لیا ہے۔ آپ اپنی ایک نہیں بلکہ دو چار کہانیاں مجھے نمونے کے طور پر بھیجیں۔ میں انہیں دیکھ کر پھر آپ کو رائے دوں گا۔
ایک اور طریقہ کھلم کھلا فسانے کے ذریعہ سے کسی چیز کی تبلیغ کرنے کا بھی ہے مگر اس صورت میں لکھنے والے کو بہت زیادہ قادر الکلام اور قوی الاستدلال ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے طرزِ بیان سے ناظرین کو اپنے ساتھ بہا لے جائے۔ میں آپ کے افسانے دیکھ کر یہ سمجھنے کی کوشش کروں گا کہ آپ ان دونوں طریقوں میں سے کس طریقہ میں کامیاب ہو سکیں گے۔
دعوت کا کام جاری رکھیے اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہیے۔ اللہ مدد کرنے والا ہے۔
(قلمی مکتوب)
خاکسار
ابوالاعلیٰ
(حوالہ: ماہنامہ ''سیارہ‘‘ لاہور، اشاعتِ خاص، بابت ستمبر، اکتوبر،1987ء اشاعت خاص نمبر 25 )
ہم نے خط کا پورا متن دے دیا ہے۔ اس خط افسانے سے متعلقہ حصہ ہمارے لیے اہم ہے۔ آپ نے مولانا کی اس تحریر میں ملاحظہ فرمایا لیا ہوگا کہ افسانوی ادب کے بارے میں ان کی رائے کس قدر واضح اور مثبت تھی۔ مولانا نے جیلانی بی اے کو افسانوی ادب میں طبع آزمائی اور کمال حاصل کرنے کی نہ صرف ترغیب دی بلکہ رہنمائی فرمانے کے لیے ان سے اپنی کہانیاں ارسال کرنے کی فرمائش بھی کی۔ مجھے مولانا مرحوم کی طرف سے جو رہنمائی ملی تھی اور جو گزشتہ کالم میں آپ نے پڑھ لی، کم وبیش اسی مفہوم پر مشتمل ہے جو اس خط میں واضح ہے۔ برسبیل تذکرہ جیلانی بی اے جماعت اسلامی کی قیادت میں بہت اہم شخصیت تھے۔ لاہور کے امیر اور مرکزی شوریٰ کے سالہاسال رکن رہے۔ کچھ عرصے کے لیے امیر جماعت اسلامی پنجاب کی ذمہ داری بھی ادا کی۔
چودھری غلام جیلانی مرحوم المعروف جیلانی بی اے بہت اچھے افسانہ نگار تھے۔ آپ کے افسانے ''اذان‘‘، ''بعلم بن بعور‘‘ اور ''احوبہ‘‘ وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔ بعد میں جیلانی صاحب افسانوں کے بجائے صحافت کی طرف زیادہ راغب ہوگئے اور ایک صحافی کے طور پر بہت قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ جیلانی صاحب کے حالات اتنے دل چسپ ہیں کہ آدمی انہیں پڑھنے لگے تو طبیعت کھل اٹھتی ہے۔ میں نے مرحوم کے حالات اپنی کتاب ''مسافرا ن راہِ وفا‘‘ صفحہ 66تا 79 میں قلم بند کیے ہیں۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کثیرالمطالعہ شخصیت تھے۔ ان کے حالات میں اس حوالے سے بہت سے دل چسپ اور معلومات افزا واقعات ان کے مختلف سیرت نگاروں نے لکھے ہیں۔ افسانے اور ادب کے بارے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ لندن میں زمانۂ طالب علمی میں انہوں نے انگریزی ادب عالیہ، مشہور ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات کا گہرا مطالعہ کیا۔ انہوں نے ملٹن، شیکسپیئر، شیلے اور کیٹس کو پڑھا۔ ایک دفعہ اپنے سیکرٹری خورشیدحسن خورشید سے کہا کہ شیکسپیئر کو بار بار اور سنجیدگی سے پڑھنا چاہیے کیونکہ انگریزی ادبیات کے الفاظ اور محاوروں کا بہترین اور وسیع تر خزانہ اسی کی کتابوں میں ملتا ہے۔ جب وہ 1945ء میں 'ماتھران‘ میں آرام کررہے تھے تو شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی سوانح عمری انگریزی میں ان کے زیر مطالعہ رہی۔ (Quaid's Memories P: 95، بحوالہ قائداعظم محمدعلی جناح، بچوں اور نوجوانوں کے لیے، ص: 182)
ادب اور اس کی مختلف اصناف اتنی ہی قدیم ہیں جتنی انسانی تہذیب ومعاشرت۔ حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زندگی بھر جہاد کیا۔ صحابہ کرامؓ نے بھی اپنی زندگیوں کا ہر لمحہ اور اپنی ذہنی وجسمانی صلاحیتوں کا ہر قطرہ میدانِ جہاد کے لیے وقف کیا۔ جہاد کے میدان میں تیر وتفنگ اور شمشیر وسناں بھی استعمال کیے گئے اور قلمی ولسانی، ادبی وشعری جہاد کا بھی حق ادا کیا گیا۔ حضور نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: مومن تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور زبان سے بھی۔
سیدمودودیؒ نے وقت کے تمام فتنوں کا بروقت ادراک اور پھر ان کے سدباب کے لیے زبان اور قلم کا بہترین استعمال کیا۔ سورۃ الشعراء میں اللہ تعالیٰ نے گمراہ شاعروں کے ساتھ اہلِ ایمان شعراء کا بھی تذکرہ فرمایا ہے۔ اس کی تفسیر میں مفسرِقرآن تحریر فرماتے ہیں: ''جب ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے ضرورت پیش آئے تو پھر زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیروشمشیر سے لیتا ہے۔ ہر وقت گھِگھیاتے ہی رہنا اور ظلم کے مقابلے میں نیاز مندانہ معروضات ہی پیش کرتے رہنا مومنوں کا شیوہ نہیں ہے۔ اسی کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ کفار ومشرکین کے شاعر اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف الزامات کا جو طوفان اٹھاتے اور نفرت وعداوت کا جو زہر پھیلاتے تھے‘ اس کا جواب دینے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود شعرائے اسلام کی ہمت افزائی فرمایا کرتے تھے۔ کئی مواقع پر حضرت کعب بن مالکؓسے آپﷺ نے فرمایا: ''ان کی ہجو کہو، کیونکہ اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تمہارا شعر ان کے حق میں نیزے سے زیادہ تیز ہے‘‘۔ حضرت حسان بن ثابتؓ سے فرمایا: ''ان کی خبر لو‘ جبریل تمہارے ساتھ ہے۔ کہو اور روح القدس تمہارے ساتھ ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج:3، ص: 549-550)
ان مختلف واقعات کا تذکرہ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ادب کی ہر صنف کو مثبت اور تعمیری انداز میں استعمال کرکے کسی نظریے اور فکر کی آبیاری کی جاسکتی ہے۔ بلامقصد تحریروں کی حیثیت اس تیرِ نیم کش کی سی ہوتی ہے جس کا کوئی ہدف ہی نہ ہو۔
میر سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف
آہ! وہ تیرِ نیم کش‘ جس کا نہ ہو کوئی ہدف

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں