بھولی ہوئی منزل اور تھکا ہوا راہی!

براعظم افریقہ کے سبھی ممالک قدرتی مناظر سے مالا مال ہیں۔ کینیا مشرقی افریقہ کا اہم ترین اور خوب صورت ترین ملک ہے۔ میں نے اپنی جوانی کے بہترین بارہ سال اسی ملک میں گزارے۔ 1985ء میں بارہ سال کا '' بن باس‘‘ گزار کر وطن واپسی ہوئی۔ اس کے بعد کچھ عرصے تک ہر سال‘ ایک دو ماہ کے لیے یہاں جانا ہوتا رہا۔ پھر یہ وقفے طویل ہوتے چلے گئے۔ اس سرسبز دھرتی پر گزرے ہوئے لمحات یاد آتے ہیں تو دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے۔ حلقۂ یارانِ وفا کے بیشتر ستارے ڈوب چکے ہیں۔ کچھ باقی ہیں، ان سے رابطہ کبھی کبھار ہو جاتا ہے۔ کئی سالوں کے بعد ایک بار وہاں جانا ہوا تو ڈائری کے اوراق پر کچھ واقعات منتقل ہو گئے۔ ربع صدی قبل کے یہی چند اوراق آج آپ کے ساتھ شیئر کرنے ہیں۔
میں دارالحکومت نیروبی میں مقیم ہوں۔ آج کے پروگرام میں کئی مصروفیات ہیں۔ سب سے پہلے ایک خوب صورت ضلعی ہیڈکوارٹر مچاکوس جانا ہے۔ مچاکوس نیروبی سے جنوب مشرق کی جانب پچاس میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں اسلامک فائونڈیشن کے کئی ادارے قائم ہیں۔ ہمارے دوست شیخ محمد امین زاہد اور قاری حبیب الرحمن یہاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ سب سے پہلے ہم مچاکوس مسلم انسٹیٹیوٹ گئے۔ طلبہ اور اساتذہ سے ملاقات کی۔ اس کے بعد مسجد چلے گئے۔ یہ خوبصورت مسجد شیخ محمد امین زاہد صاحب نے اپنی نگرانی میں تعمیر کرائی ہے۔ مسجد کے ساتھ ملحق لائبریری اور دفاتر ہیں۔ مسجد میں خواتین کے نماز ادا کرنے کے لیے الگ گیلری بنی ہوئی ہے۔ کئی پرانے نمازی ملے۔ خاص طور شیخ محمد بادی امام و خطیب مسجد ہذا بہت تپاک سے ملے۔
شیخ امین صاحب نے ظہرانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ان کی اہلیہ آج کل پاکستان گئی ہوئی ہیں۔ شیخ صاحب کے فرزند رشید اور قاری حبیب الرحمن نے اس قدر لذیذ کھانا تیار کیا تھا کہ ثابت ہوگیا مرد خواتین سے اچھے باورچی ہوتے ہیں۔ شیخ امین خاصے باذوق اور خوش خوراک ہیں مگر کئی ایک امراض نے ان کو ''پرہیز گار‘‘ بنا دیا ہے۔ شیخ صاحب جماعت اسلامی کے مخلص کارکن ہیں۔ قاری حبیب الرحمن بھی جماعت کے سرگرم کارکن اور رکن جماعت حافظ عبد الغنی صاحب (جنڈ ضلع اٹک) کے بیٹے ہیں۔ شیخ امین صاحب نے افریقی دوستوں علی رجب، مسعود جمعہ اور شیخ بادی وغیرہ کو بھی دعوت دی ہوئی تھی۔ شیخ صاحب کا گھر ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں سامنے بلند و بالا، سر سبز و شاداب، خوب صورت پہاڑ نظر آتے ہیں۔ مچا کوس شہر کے چاروں جانب سبز پہاڑوں کا سلسلہ ہے اور بیچ میں یہ چھوٹا سا میدانی علاقہ ہے۔ حسن فطرت یہاں بہت نمایاں ہے۔ اس گھر میں بیٹھ کر ایسا ادبی ماحول میسر آتا ہے کہ طبیعت لکھنے پڑھنے پر مائل ہوتی ہے مگر فرصت کہاں؟ کھانا کھاتے ہی ہمیں اگلے پروگراموں کے لیے نکلنا ہے۔
کھانے سے فارغ ہوئے تو شیخ محمد امین زاہد صاحب نے فرمایا کہ پندرہ بیس منٹ قیلولے کا وقت ہے؛ چنانچہ بیس منٹ آرام کرکے اٹھے اور نمازِ عصر اول وقت میں ادا کرکے آتھی ریور(Athi River)کی جانب چل پڑے۔ آتھی ریور کینیا کا معروف دریا ہے۔ اس کے کنارے آباد قصبے کا نام بھی اس دریا کی نسبت سے آتھی ریور ہے۔ ایشیائی لوگ اسے ''ہاتھی ریور‘‘ ہی کہتے ہیں۔ یہ قصبہ نیروبی ممباسا ہائی وے پر نیروبی سے تقریباً بیس پچیس کلو میٹر پر ہوا کرتا تھا مگر اب ہائی وے پر نیروبی شہر ایئرپورٹ تک آپہنچا ہے اس لیے ''ہاتھی ریور‘‘ نیروبی کا مضافاتی علاقہ ہی بن گیا ہے۔ یہاں ہمارے دوست ڈاکٹر ذوالفقار علی جعفری رہتے ہیں جو مشہور معالج ہیں۔ پچھلے دنوں ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ موت کا ہر واقعہ ہی افسوسناک ہوتا ہے مگر یہ موت زیادہ افسوسناک یوں ہوگئی کہ مرحومہ کے بھائی برطانیہ میں فوت ہوئے تو ڈاکٹر جعفری اپنی اہلیہ اور ہمشیرہ کے ہمراہ تعزیت کے لیے لندن گئے۔ ڈاکٹر صاحب کی بیوی کی طبیعت اچانک راستے میں شدید خراب ہوگئی اور وہ گھر پہنچنے سے قبل ہی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ یوں تعزیت کے لیے آنے والی بہن بھی اپنے بھائی کے پیچھے پیچھے دنیائے فانی سے عالم جاودانی کو سدھار گئیں۔
ڈاکٹر صاحب کا بہت بڑا مکان ہے، ساتھ باغ ہے اور سامنے دور تک پھیلے ہوئے خوب صورت مناظر۔ یہیں ان کا کلینک ہے۔ جب ہم پہنچے تو بہت سے مریض آئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو ہماری اطلاع ملی تو مریضوں سے رخصت لے کر ہمارے پاس آئے۔ ہم نے تعزیت کی، دعائے مغفرت کی اور صبر کی تلقین بھی۔ ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے صبر کی دولت دے رکھی ہے اور یہی اہلِ ایمان کی ڈھال ہے۔ آتھی ریور سے ہمیں سیدھے نیروبی کی جامع مسجد ریلوے لانڈھیز پہنچنا تھا جہاں ہر بدھ کو بعد نمازِ مغرب درسِ قرآن ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ فقیر نے مارچ 1974ء میں شروع کیا تھا اور یہ ہفتہ وار درس قرآن مسلسل جاری رہا۔ میرے پاکستان آجانے کے بعد امین زاہد صاحب نے اسے جاری رکھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ یہ درس برصغیر سے تعلق رکھنے والی مسلم آبادی کے لیے ہوتا ہے‘ اس لیے اردو زبان ہی میں پیش کیا جاتا ہے۔
آج کا درس مجھے دینا تھا۔ اس کا پہلے سے اعلان کیا جاچکا تھا۔ نیروبی میں مغرب سے قبل شدید ٹریفک جام ہوتا ہے۔ بہرحال ہم لوگ بروقت پہنچ گئے۔ ہم مسجد میں داخل ہو رہے تھے کہ اذانِ مغرب شروع ہوگئی۔ بہت سے شناسا چہرے نظر آئے۔ اس درس کے پرانے شرکا کی ایک بڑی تعداد یا تو دوسری دنیا کو سدھار چکی تھی یا یہاں سے نقل مکانی کرکے مختلف مغربی ملکوں کو کوچ کر گئی تھی۔ مجھ پر عجیب کیفیت طاری تھی۔ ایک فلم تیزی سے چل رہی تھی، مناظر دوڑتے چلے جارہے تھے، افراد کی یادیں دل کو تڑپا رہی تھیں اور تصاویر افقِ ذہن پر ابھرتی ڈوبتی جھلملا رہی تھیں۔ بچھڑ جانے والے احباب کے بارے میں پتا بھی ہوتا ہے کہ وہ جاچکے ہیں مگر کبھی کبھار ان کی یاد سے دل میں پھر نئی ویرانی پیدا ہوجاتی ہے۔
اس مسجد کے بانی اور سابق چیئرمین انکل محمد یعقوب خالد (مرحوم) یہاں کے روح رواں تھے۔ اب ان کے بیٹے محمد ایوب خالد ہر پروگرام میں پیش پیش ہوتے ہیں جبکہ چیئرمین برادر گرامی قدر محمد اختر بھٹی صاحب ہیں۔ جناب محمد یعقوب خالد مرحوم غیر حاضر لوگوں کا بڑا حساب رکھتے تھے۔ جناب عبد الحمید بٹ (مرحوم) نیروبی کے سنجیدہ صاحب علم اور خاموش طبع بزرگ تھے۔ ہمارے درس میں باقاعدگی سے آیا کرتے تھے اور اپنا جیبی قرآنِ مجید کھول کر میرے قریب بیٹھ جایا کرتے تھے۔ جب کبھی میں سفر پر چلا جاتا اور کوئی دوسرے صاحب درس کا سلسلہ جاری رکھتے تو میری آمد تک عبد الحمید بٹ صاحب درس سے غائب رہتے۔ یعقوب خالد مرحوم ان کے ہم عمر بھی تھے اور ان سے بے تکلف بھی اس لیے ان کی جانب انگلی اٹھا کر اپنے مخصوص جلالی لہجے میں فرماتے ''یہ ادریسی ہے‘‘۔ عبد الحمید صاحب اپنے مزاج اور طبیعت کے مطابق کوئی جواب دینے کے بجائے مسکرا کر بات ٹال جاتے۔ عبد الحمید بٹ مرحوم ہمارے دوست طارق بٹ کے والد محترم تھے۔ حق تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرمائے۔
برادرم ایوب خالد نے بتایا کہ بہت سے احباب مدت بعد آج نظر آرہے ہیں۔ اس مسجد میں خواتین کے لیے الگ گیلری موجود ہے۔ خواتین پروگراموں میں شریک ہوا کرتی تھیں مگر آج خواتین موجود نہیں تھیں۔ شاید خراب امن و امان کی صورت حال کی وجہ سے شام کو اس علاقے میں خواتین کا آنا محال ہے۔ کئی لوگوں نے درس ٹیپ کرنے کے لیے ٹیپ ریکارڈر لگا رکھے تھے۔ سورۃ البروج کا درس دیا گیا۔ دیگر کثیر احباب کے علاوہ اہلِ علم میں سے شیخ سراج الرحمن ندوی، شیخ مطیع الرسول، شیخ نور الہدیٰ، شیخ حبیب الرحمن موجود تھے۔ شیخ امین زاہد صاحب کو تو موجود ہونا ہی تھا کہ یہ سلسلہ انہی کے دم قدم سے جاری و ساری ہے۔ وہ کچھ عرصہ نیروبی میں بھی مقیم رہے مگر اپنی کمزور صحت کے باوجود بیشتر عرصہ مچاکوس سے ہر ہفتے باقاعدگی سے آکر درس دیتے رہے ہیں۔ عشائیے کا اہتمام مستری محمد اکرم کے ہاں تھا جن کا گھر مسجد سے قریبی محلے میں واقع ہے۔ انہوں نے بہت سے دوستوں کو مدعو کیا ہوا تھا۔ یہ پر تکلف ضیافت کئی ''پرہیز گاروں‘‘ کے لیے باعثِ حسرت تھی مگر میں نے دیکھا کہ ''پرہیز‘‘ کی پابندیاں ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگیں۔ محمد اکرم سب مہمانوں کو مزید اکسانے میں مصروف رہے۔
محمد اکرم کی خواہش تھی کہ یہ محفل شبانہ دیر تک چلے مگر بعض دوست جلدی میں تھے۔ میں بھی تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا اس لیے میں نے کہا کہ قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے ''اذا طعمتم فانتشروا‘‘ چنانچہ اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ اکرم صاحب نے مہمانوں کو اجازت دے دی۔ عبدالحمید، ڈاکٹر محمد سعید صاحب اور میں فائونڈیشن کی گاڑی پر روانہ ہوئے۔ مجھے میری رہائش گاہ پر چھوڑ کر وہ دونوں حضرات چلے گئے۔ یوں ایک دن اور رخصت ہوا۔ رات آئی‘ بات گئی۔ محاورہ تو رات گئی بات گئی ہے مگر میں نے اسے تبدیل کر دیا ہے۔
اس کالم میں بیان کردہ شخصیات میں سے کئی احباب بھی اب دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ محمد یعقوب خالد مرحوم کے حالات ہماری کتاب ''عزیمت کے راہی‘‘جلد: چہارم، ص: 90، ڈاکٹر محمد سعید مرحوم، جلد: دوم، ص:59، محمد اختر مرحوم‘ جلد: سوم، ص:284 اور شیخ امین زاہد مرحوم کے جلد ہشتم کے صفحہ 245میں محفوظ کیے گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں