7 جولائی2021 ء بروز بدھ میرے باغیچے کا سب سے قیمتی پھول دینے والے نے واپس لے لیا۔ اس کی امانت تھی اسی نے دی تھی۔ اس کے واپس لینے پر کوئی شکوہ ہے نہ نوحہ۔ دل ٹوٹ گیا ہے، آنکھیں اشک بار ہیں مگر نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہم وہی بات کہیں گے جو ہمارے رب کو پسند ہے۔ ''انا للہ وانا الیہ راجعون۔‘‘ میں بہت ہی کمزور انسان ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہی دعا مانگی ہے کہ وہ اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ہارون کی بیماری کے دوران امید اور خوف کی کیفیت مسلسل طاری رہی۔ میں کبھی سوچتا کہ اگر اس کے سفر کا فیصلہ ہو گیا، تو میں کیسے کھڑا ہو سکوں گا؟ مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری مدد فرمائی۔ دل کی دنیا ویران ہے، مگر اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اسی رحمت کا دنیا میں بھی سہارا اور اسی پر آخرت میں بھی تکیہ ہے۔
اس سانحۂ دل فگار کو ایک سال بیت گیا ہے۔ ایک ایک لمحہ بہت بھاری تھا۔ اللہ تعالیٰ نے صبرکی توفیق دی جس کی وجہ سے اس مشکل امتحان اور بھاری سانحہ کو برداشت کرنے کا حوصلہ ملا۔ جب چھوٹے بچوں اور جوان بہو کو دیکھتا ہوں تو دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ رب کریم ان کے سامنے مجھے صبر کی توفیق عطا فرما تاکہ ان کے دل کو بھی حوصلہ ملے۔ ان کی محرومی بہت بڑی ہے، مگر تیرا احسان ہے کہ وہ بھی تیرے فیصلے پر راضی برضا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے شمار اور بے انتہا ہیں۔ اس کی طرف سے بندے کا امتحان بھی اس ذات باری کی اپنی حکمت و مصلحت کے تحت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہر لمحے عافیت طلب کرنی چاہیے؛ تاہم اگر وہ آزمائش و ابتلا میں ڈالے، تو اس سے صبر کی توفیق مانگنی چاہیے، وہی صبر دے سکتا ہے۔ میں اللہ کی نعمتوں کو یاد کرتا ہوں، تو انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا۔
اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت ایک بڑا اعزاز تھا۔ میں بی اے کے امتحان کی تیاری کے لیے چھٹیوں میں اپنے گائوں گیا ہوا تھا۔ یہ مئی 1967ء تھا۔ میری شادی میٹرک کے بعد ہو چکی تھی۔ میں ایک گھنے درخت کی چھائوں میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ ہمارے گائوں کی ایک بزرگ خاتون وہاں تشریف لائیں اور مجھے میرے پہلے بیٹے کی پیدائش کی خوش خبری سنائی۔ اس کا نام محمد دائود ادریس رکھا گیا۔ پورے خاندان میں اس پہلے بچے کی پیدائش پر بے انتہا خوشیاں منائی گئیں۔ ساتویں دن سنت کے مطابق عقیقہ کا معمول ہمارے خاندان میں شروع سے چلا آ رہا تھا۔ نومولود کا عقیقہ بھی بڑے اہتمام سے کیا گیا۔ والدِ گرامی قدر نے دو بہت اچھے بکرے اس موقع پر ذبح کیے اور گوشت تقسیم کیا۔
زندگی کا سفر جاری رہا۔ میں اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کا ناظم اور پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا صدر منتخب ہوا۔ 1969ء میں پہلا ایم اے کر چکا تھا۔ 1970ء میں ایم اے اسلامیات میں داخلہ لیا اور یونیورسٹی یونین کا الیکشن جہانگیر بدر مرحوم کے مقابلے پر جیتا، مگر یہ پورا سال مجھے جیل میں گزارنا پڑا۔ جیل سے رہائی کے بعد 1971ء میں ایم اے اسلامیات کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ قیام ہاسٹل نمبر 1جامعہ پنجاب نیو کیمپس میں تھا۔ دوستوں کی خوشگوار مجلس لگی تھی۔ ستمبر کی آخری تاریخیں تھیں کہ والدِ گرامی قدر کا خط ملا جس میں خوشخبری دی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے دائود کو ایک تندرست و توانا اور خوب صورت بھائی سے نوازا ہے۔ واقعی یہ بچہ پورے خاندان کے سر کا تاج ثابت ہوا۔
ہماری خوشگوار محفل میں اس خوش خبری سے اور زیادہ خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ شیرینی کا اہتمام ہوا اور اس کے ساتھ نومولود کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔ اس ہونہار بچے کا نام ہارون ادریس رکھا گیا۔ اللہ نے اسے بہت منفرد خوبیوں سے نوازا تھا۔ بہت بہادر، مہم جو اور ذہین بچہ تھا۔ میں اس کے بچپن ہی میں کینیا چلا گیا۔ وہاں سے واپسی پر ہر سال ملاقات ہوتی، تو اس کی خوبیوں کا پتا چلتا گیا۔ اپنے ہم جولیوں کے درمیان وہ نوابوں کی طرح رہتا تھا۔ زندگی بھر وہ جہاں بھی رہا، قائدانہ کردار ادا کیا۔ اس نے ساری زندگی نیکی پر خود بھی عمل کیا اور نیکی کی تلقین کر کے بے شمار لوگوں کی زندگیوں میں بھی انقلاب برپا کیا۔ آج بھی ایسے کئی لوگ ملتے ہیں یا فون پر بتاتے ہیں کہ مرحوم نے کس طرح اپنی مخلصانہ کوششوں سے ان کی کایا پلٹ دی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عزیزِ گرامی کی یہ ساری کاوشیں قبول فرمائے اور ان نیک گواہیوں کی روشنی میں اس کے درجات بلند فرما دے، آمین!
تعلیم کے مراحل گائوں سے شروع ہوئے، پھر لاہور میں پائلٹ ہائی سکول میں زیر تعلیم رہا۔ میٹرک کے بعد ایک سال کے اندر مدرسہ تحفیظ القرآن منصورہ سے قرآن پاک حفظ کیا اور اس سال سے لے کر زندگی کے آخری سال تک بلاناغہ رمضان المبارک میں تراویح کی نماز میں قرآن سناتا رہا۔ شروع میں اپنے گائوں میں دو مرتبہ قرآن پاک سنایا۔ اس وقت ہم لاہور میں مقیم تھے، مگر وہ اپنے دادا ابو، تین پھوپھیوں اور شفیق چچا کی سرپرستی میں دو سال رمضان المبارک گائوں میں گزارتا رہا۔ گائوں کے علاوہ کئی ملحقہ بستیوں کے نمازی بھی اس کے پیچھے نماز پڑھتے اور اس کے لیے دعائیں کرنے کے ساتھ بزرگوں کو مبارک باد دیتے۔ قرآن پاک کی منزل اسے اچھی طرح ازبر تھی۔
کالج کے زمانے میں ہارون اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن بنا۔ اس کا ایک وسیع حلقۂ احباب تھا۔ اپنے دوستوں کو گھر میں بلاتا اور جو کچھ پکا ہوتا، اس سے ضیافت کرتا۔ ہمیں خوشی ہوتی کہ ہارون کے دوست ہمارے گھر کو رونق بخشتے رہتے ہیں۔ اسی عرصے میں جمعیت کے ماہنامہ ''ہم قدم‘‘ کا مدیر بنا۔ میں نے کہا ''تمہیں لکھنے کا سلیقہ ہے جو یہ ذمہ داری قبول کر لی ہے؟‘‘ مسکرا کر کہنے لگا ''یہ سلیقہ سیکھنے کے لیے ہی تو ذمہ داری کا بوجھ اٹھایا ہے۔‘‘ پھر واقعتاً اس نے ''ہم قدم‘‘ کا معیار پہلے سے بہتر کیا اور خود بھی اچھا قلم کار بن گیا۔ حسنِ اتفاق ہے کہ 2015ء سے 2018ء تک میرے پوتے، ہارون کے بھتیجے عزیزم حافظ طلحہ ادریس نے بھی یہ ذمہ داری بہت احسن طریقے سے نبھائی۔ طلحہ تو ''پیغام ڈائجسٹ‘‘ کا بھی کئی سالوں تک مدیر رہا۔ ہارون مرحوم کے علمی مقالہ جات عالمی معیار پر پورے اترتے ہیں اور اپنے موضوع پر منفرد تحقیقی لوازمے سے مالا مال ہیں۔
تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد، جامعہ پنجاب اور پھر جرمنی میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اس کا فیلڈ لائبریری سائنس تھا۔ یورپ میں قیام کے دوران جرمنی، ڈنمارک، ناروے، انگلینڈ، اٹلی، سپین اور کم و بیش ہر یورپی ملک میں سفر کرتا رہا اور مسلمان طلبہ اور نوجوانوں کو منظم کرنے میں مصروف رہا۔ ہر جگہ اپنی خوشگوار یادیں چھوڑ یں اور لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا۔ ان سالوں میں قرآن پاک بھی جرمنی اور ڈنمارک میں سنایا۔ مجھے کئی بار یورپ کے مختلف ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوتا رہا۔ اس کے قیام کے دوران وہ بھی میرے ساتھ کئی ملکوں کا سفر کرتا رہا۔ وہ اتنا فرمانبردار، خدمت گزار اور پیاری شخصیت کا مالک تھا کہ میں تفصیل بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ جب کبھی دعا کراتا تو سوزوگداز اور پھر قرآنی اور مسنون دعائوں کی کثرت سے ہر شخص کی آنکھیں اشکبار ہو جاتیں۔
پی ایچ ڈی مکمل ہوئی تو یورپ کے کئی ملکوں کی یونیورسٹیوں میں ملازمت کے مواقع موجود تھے۔ کئی دوستوں نے اسے ترغیب بھی دی، مگر اس کا مختصر جواب یہی ہوتا تھا ''پاکستان میرا وطن ہے اور میں اگر کوئی خدمت کر سکوں تو اپنے وطن ہی میں کروں گا‘‘۔ پی ایچ ڈی کر کے واپس پاکستان آیا تو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں رپورٹ کیا۔ یہیں سے ملازمت کے دوران اسے ایچ ای سی کی سکالرشپ ملی تھی۔ یہاں مسئلہ یہ تھا کہ لائبریری تو بہت بڑی موجود تھی، مگر اس مضمون میں ٹیچنگ کا انتظام نہیں تھا۔ چنانچہ اسے سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر چودھری محمد اکرم صاحب نے دعوت دی کہ وہ سرگودھا یونیورسٹی میں ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
چودھری محمد اکرم جامعہ پنجاب میں میرے کلاس فیلو اور دوست بھی تھے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ میرا بھتیجا میرے پاس آ جائے۔ میں نے کہا: چچا بھتیجا کا آپس کا معاملہ ہے‘ جو فیصلہ کریں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ چنانچہ اسلامک یونیورسٹی انتظامیہ سے اجازت کے بعد ہارون نے سرگودھا یونیورسٹی میں اس شعبے کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ جامعہ پنجاب سے ایم اے کرنے کے بعد ہارون کی شادی ہو گئی تھی۔ اللہ نے یکے بعد دیگرے چار بیٹیوں کی رحمت سے نوازا۔ بیٹے کی تمنا ہم سب کے دل میں اور دعائیں سبھی زبانوں پر رہتیں۔ آخر اللہ نے ایک خوب صورت بیٹے محمد عبداللہ ہارون سے بھی نوازا۔ الحمدللہ سبھی بچے ذہین اور محنتی ہیں۔ اللہ ان کی حفاظت فرمائے۔ جامعہ سرگودھا میں ملازمت ملنے پر فیملی کو بھی سرگودھا میں منتقل کر لیا اور وہاں یونیورسٹی میں مناسب رہائش نہ ہونے کی وجہ سے ایک پرائیویٹ سوسائٹی میں کرائے پر مکان لے کر وہاں رہائش اختیار کر لی۔ (جاری)