تاریخ میں جب بھی شہیدِ کربلا کا تذکرہ آتا ہے تو ان کی بہن زینب بنت علی ؓ کے حالات و واقعات بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ زینب بنتِ علیؓ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی‘ شیرخدا علی المرتضیٰ ؓ اور خاتونِ جنت فاطمۃ الزہراؓ کی نورِ نظر اور شہیدِ کربلا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی بہادر اور جرأت مند بہن ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ عون اور محمد رضی اللہ عنہماکی والدہ بھی ہیں جو اپنے عظیم ماموں حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ میدانِ کربلا میں خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوئے۔ حضرت زینب کی ولادت 4ھ میں ہوئی۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے وقت ان کی عمر 6 سال سے کچھ زائد تھی۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہاکی ولادت کے وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لیے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تھے۔ جب مدینہ منورہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نومولود نواسی کو گود میں اٹھا لیا۔ لعاب مبارک اس کے منہ میں ڈالا اور کھجور چبا کر کھلائی۔ پھر فرمایا: یہ مجھے بہت پیاری لگ رہی ہے۔ یہ اپنی نانی خدیجہ رضی اللہ عنہاسے بہت مشابہت رکھتی ہے۔ آپؐ نے اپنی بڑی بیٹی کے نام پر اپنی اس نواسی کا نام بھی زینب رکھا۔ 6سال کی عمر میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے والدین کے علاوہ اپنے نانا جانؐ سے اس قدر تربیت حاصل کر لی تھی کہ اپنی بے مثال ذہانت و فطانت کی وجہ سے وہ اسلام کے بنیادی عقائد و ایمانیات پر بہت اچھی گفتگو کر لیتی تھیں اور اپنی گفتگو میں برموقع اشعار بھی پڑھتی تھیں۔ انہیں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پانچ سال کی عمر میں حج کرنے کی سعادت بھی ملی۔ ان کی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہابھی آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے چھ ماہ بعد انتقال فرما گئیں۔ یوں حضرت زینب رضی اللہ عنہابہت چھوٹی تھیں جب ماں کی مامتا سے محروم ہو گئیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کی بہت اچھی تربیت کی۔ ان کی شادی آپ نے اپنے بھتیجے حضرت عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب سے کردی۔ انہی سے ان کے بیٹے عون اور محمد رضی اللہ عنہماپیدا ہوئے۔
حضرت علی ؓ کی شہادت کے موقع پر حضرت زینبؓ بہت غم زدہ ہوئیں اور انہوں نے اپنے محبوب والد کا مرثیہ بھی کہا۔ حضرت زینبؓ کی زندگی اول و آخر عظمتوں کی داستان ہے مگر میدانِ کربلا اور اس کے بعد کی منزلوں میں ان کا جو کردار سامنے آتا ہے اس کی بہت کم مثالیں انسانی تاریخ میں ملتی ہیں۔ ایک بار وہ میدانِ کربلا میں 9؍محرم کو صورتحال دیکھ کر قدرے پریشان ہوئیں اور ان کی زبان پر درد ناک اشعار آئے۔ حضرت زینبؓ کے اشعار کا مفہوم یوں تھا ''اے کاش میں یہ منظر دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہتی، جب میرا بھائی اور پورا خاندان ظالموں کے نرغے میں آ گئے ہیں۔ نانا ابوؐ، والدہ محترمہؓ، بابا جانؓ اور برادرِ بزرگ حسنؓ سب کی جدائی پر دل پھٹ گیا تھا مگر ان سب کے بعد جس سے آنکھیں ٹھنڈی ہوتی تھیں اور جو میرے دل کا قرار تھا، اب وہ بھی مجھ سے چھن جائے گا۔ اے کاش میں اس کے بدلے میں اپنی جان قربان کر دیتی اور اسے گزند نہ پہنچتا‘‘۔ ان جذبات میں کوئی تصنع ہے نہ کسی قسم کی غیر فطری بات۔ یہ فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہیں اور ان میں کوئی مبالغہ بھی نہیں۔
اس موقع پر حضرت امام حسینؓ نے عزیمت کا پہاڑ بن کر اپنی بہن کو نہایت بلیغ انداز اور پُر عزم الفاظ میں صبر کی تلقین فرمائی۔ انہوں نے فرمایا: '' اے میری بہن! صبر کو اپنی ڈھال بنائو۔ اللہ سے لو لگائو۔ اللہ کے ذکر سے تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کو بقا ہے باقی ساری کائنات کا مقدر فنا ہے۔ ساری کائنات سے اعلیٰ و ارفع اور مقدس ہستی ہمارے نانا جانؐ کی تھی (وہ بھی دنیا میںہمیشہ نہیں رہے) ہمیں انہی کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرنا ہے۔ اے میری پیاری بہن! میری بات سنو۔ میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ میں راہِ حق میں شہادت پا جائوں تو گریبان نہ پھاڑنا، نہ بین کرنا، نہ چہرے اور بالوں کو نوچنا‘‘۔ میدانِ کربلا کا معرکہ گرم ہوا تو سب سے پہلے حضرت زینبؓ کے نو عمر بیٹے عون و محمد بن عبداللہؓ یزیدی فوجوں کے مقابلے پر نکلے۔ وہ بڑی بہادری سے لڑے اور جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کے دادا جعفرؓ اور والد عبداللہؓ بھی شیر دل تھے اور وہ خود تو شیر خدا کے نواسے تھے۔ پورے قافلے میں سے صرف نو عمر حضرت امام زین العابدینؓ، جو شدید بیمار تھے، بچ پائے۔ کچھ بدبختوں نے ان پر ہتھیار اٹھانا چاہے مگر حضرت زینبؓ ان کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہو گئیں اور فرمایا: خدا کی قسم جب تک میں زندہ ہوں میرے بیمار بھتیجے کو کوئی قتل نہیں کر سکتا۔ حضرت زینبؓ نے غم و الم کے اس موقع پر اپنے نانا محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو خطاب کیا اور میدانِ جنگ کا درد ناک نقشہ کھینچا، جہاں اہلِ بیت کے لاشے بکھرے پڑے تھے۔ بس پھر کیا تھا دشمن اپنی دشمنی کے باوجود بے ساختہ رونے لگے۔
قافلۂ اہلِ بیت کو یزید کے دربار میں لے جانے کے لیے کربلا سے دمشق کی جانب سفر شروع ہوا تو یزیدی فوجوں کے حصار میں اسیرانِ اہلِ بیت کو پہلے کوفے کے ظالم گورنر عبیداللہ بن زیاد کے دربار میں پیش کیا گیا۔ قافلے کا گزر کوفے کے بازاروں میں سے ہوا تو بے وفا کوفی ہزاروں کی تعداد میں اس منظر کو دیکھنے کے لیے گھروں سے نکل آئے۔ اس موقع پر حضرت زینبؓ سے کوفیوں کی عہد شکنی اور غداری پر خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ا ے دھوکے بازو! بدعہدی کرنے والو! خدا تمہیں کبھی سکون عطا نہ کرے۔ تم نے میرے بھائی کے ساتھ جو غداری کی اس نے ثابت کر دیا کہ تمہارے خمیرمیں خیر نہیں۔ تم خوشامدی اور بزدل ہو۔ نواسۂ رسولؐ کے قتل میں تم بالواسطہ شریک ہو۔ تم نے بیعت کر کے توڑ دی اور حمایت کا اعلان کر کے پیٹھ پھیر گئے۔ یاد رکھو تم خدا کے قہر سے نہ بچ سکو گے۔
دمشق پہنچنے سے پہلے کوفہ کے گورنر عبیداللہ بن زیاد نے کوفہ میں دربار منعقد کیا اور اسیرانِ کربلا اس کے سامنے پیش کیے گئے۔ بدبخت عبیداللہ بن زیاد نے اس مصیبت زدہ اور غم سے چور خانوادۂ رسولؐ کے قافلے کو اذیت پہنچانے کے لیے بہت بے ہودگی اور یاوہ گوئی کا مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر بولے گئے اُس کے الفاظ تاریخ کے صفحات میں خود تاریخ کے لیے اذیت کا باعث ہیں۔ شیر خدا کی بیٹی اس دہشت گردی کے عالم میں بھی بے خوف کلمہ حق بلند کرتے ہوئے بولیں: تعریف اور حمد و شکر ہے اس ہستی کے لیے جس نے اپنے محبوب رسولؐ کے ذریعے ہمیں عزت بخشی۔ ان شاء اللہ فساق رسوا اور ذلیل ہوں گے اور ان کے نظریات لعنت زدہ قرار پائیں گے۔ یہ گفتگو بڑی طویل تھی۔ عبیداللہ بن زیاد جب زچ ہوگیا تو اس نے علی بن حسین (امام زین العابدینؓ) کی طرف اشارہ کر کے کہا: اس لڑکے کو کیوں قتل نہیں کیا گیا؟ اسے میرے سامنے قتل کر دیا جائے۔ حضرت زینبؓ اپنے بھتیجے سے لپٹ گئیں اور فرمایا : پہلے مجھے قتل کرو، پھر اسے قتل کرنا۔
آخر ابنِ زیاد نے اپنا فیصلہ بد ل لیا اور یہ قافلہ کوفہ سے شام کی طرف سرکاری دستوں کے محاصرے میں روانہ کر دیا گیا۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد یہ مظلوم‘ یزید کے دربار میں پیش کیے گئے۔ نواسۂ رسول کا مبارک سر جسے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم پیار سے بوسہ دیا کرتے تھے نیزے کی انی پر پرویا ہوا تھا۔ یزید کے دربار میں ان مظلوموں کو پیش کیا گیا تو اس نے امام کا سر دیکھ کر کہا کہ میں نے اسے نیزے پر پرونے کا حکم نہیں دیا تھا۔ یہاں بھی یزید کے ساتھ جو مکالمہ ہوا، اس میں حضرت زینبؓ نے کمال حکمت و دانش اور جرأت و بہادری کے ساتھ اس کے تمام اعتراضات و خرافات کا بھرپور جواب دیا۔ یزید کے دربار میں حضرت زینبؓ نے ایک موثر اور دردناک خطاب فرمایا۔ اس میں انہوں نے یزید کو باور کرایا کہ اپنے زعم میں وہ سمجھ رہا ہے کہ اسے کامیابی مل گئی اور اہلِ بیت سرنِگوں ہو گئے، مگر حقیقت میں اہلِ بیت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ یزید اور اس کے پورے ٹولے نے اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیا ہے۔ ؎
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد
کچھ دن یزید نے ان لوگوں کو دمشق میں ٹھہرائے رکھا، پھر اس نے حکم دیا کہ ان خواتین کو سواریوں پر سوار کیا جائے اور مدینہ تک بحفاظت پہنچایا جائے۔ یزید نے صحابی رسولؐ حضرت نعمان بن بشیرؓ انصاری کو جو دمشق میں مقیم تھے، ذمہ داری سونپی کہ وہ اپنی نگرانی میں قافلے کو مدینہ تک پہنچائیں۔ اونٹوں پر محمل رکھے گئے تھے۔ حضرت زینبؓ نے فرمایا کہ محملوں پر سیاہ چادریں ڈال دی جائیں۔ اس لیے کہ محملوں میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں سوار تھیں اور سفر لمبا تھا۔ ان کو یہ سفر پردے میں کرنا تھا کہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ یہ خاتونِ جنت کی بیٹیاں تھیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ ان کے جنازے کے وقت چشمِ فلک بھی ان کے کفن کو نہ دیکھ سکے۔ واقعاتِ کربلا کی خبر مدینہ منورہ پہنچ چکی تھی۔ جب یہ قافلہ مدینہ کے قریب پہنچا تو مدینہ میں موجود صحابہؓ و تابعینؒ اور اہلِ مدینہ بڑی تعداد میں ان کے استقبال کے لیے شہر سے باہر نکلے۔ مشہور صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سب سے آگے آگے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ فرما رہے تھے کہ یہ قوم اپنے نبیؐ کو روز قیامت کیا منہ دکھائے گی؟