پاکستان عظیم عطیہ!

قیامِ پاکستان کسی معجزے سے کم نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم عطیہ ہے۔ اگر ہم اس کی قدر نہ کریں تو یہ انتہائی ناشکری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی قدرتِ خاص سے انعام کے طور پر یہ وطن عطا کیا تھا۔ انگریز بھی ہمارے مخالف تھے اور متعصب ہندو تو ہمارے ازلی اور ابدی دشمن ہیں۔ سکھ اقلیت کو بھی پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف اس قدر مشتعل کردیا گیا تھا کہ ہجرت کے وقت مسلمانوں کا سب سے زیادہ خون سکھوں ہی نے بہایا تھا۔ اس سارے تناظر میں پاک وطن کا قیام اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ تھا۔ اے کاش! ہم ایک شکرگزار قوم بن سکتے۔ آج پاکستان کے قیام کو 75سال پورے ہوگئے ہیں ۔ 75 سالوں میں قومیں کہیں سے کہیں پہنچ گئیں، مگر ہم آج بھی مشکلات کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آزاد و زندہ قومیں اپنے نظریات اور اپنے ورثے کی حفاظت کرتی ہیں اور ان پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم اپنے نظریات کی خود ہی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔
ہمارے حکمران اقتدار میں آنے سے قبل بڑے بلند آہنگ دعوے کرتے ہیں۔ سو دنوں میں قوم کی تقدیر بدل دینے کا خوش کن نعرہ لگاتے اور پاکستان کو مدینہ کی اسلامی ریاست کا نمونہ بنانے کا پاکیزہ ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔ جب دعووں کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آئے تو نتیجہ صفر بلکہ منفی ڈگری کا ترجمان! کتنا بڑا المیہ ہے کہ پاکستان کے سبھی حکمران اپنی قومی زبان سے آنے والی نسلوں کو محروم کردینے کی پالیسی پر گامزن رہے اور بدقسمتی سے اب بھی اسی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک میں اسلامی نظام کو آج تک نہیں آنے دیاگیا۔ 1973ء کے آئین میں قومی زبان کی ترویج، سود کے مکمل خاتمے اور ملک کے قانونی ڈھانچے کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی واضح دفعات موجود ہیں۔ ان کے عملی نفاذ کے لیے حتمی تاریخیں بھی مقرر کی گئیں، جو عرصہ ہوا ماضی کا حصہ بن چکیں۔ بدقسمتی سے قوم آج تک ان نعمتوں سے محروم ہے جن کی ضمانت متفقہ دستور میں دی گئی ہے۔ دشمن کو کیا کوسنا، ہم خود اپنے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔ اللہ اس پاک ریاست پر رحم فرمائے۔
پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کا مرہونِ منت ہے۔ مسلمانوں نے الگ خطہ کیوں حاصل کیا تھا، قائداعظمؒ کی تحریروں اور تقریروں میں غیرمبہم انداز میں اس کا جواب ملتا ہے۔ انہوں نے بارہا یہ کہا کہ ہمارا دستور ساڑھے تیرہ سو سال پہلے قرآن و سنت کی صورت میں بن چکا ہے۔ ہم ایک ایسا خطہ چاہتے ہیں جو آج کے دور میں اسلامی نظام کی مثال پیش کرے۔ ریاست پاکستان کا حصول قائد کے نزدیک اسلامی نظام زندگی کے لیے ایک قومی فرض اور دینی تقاضا تھا۔ اگر قائداعظمؒ کو اللہ تعالیٰ کچھ مہلت دیتا تو اس ملک کا حال یہ نہ ہوتا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔نام نہاد سیکولر، دانش ور قائداعظمؒ جیسی شفاف شخصیت کو سیکولر اور لادین سیاست دان ثابت کرنے کے لیے اس عظیم شخصیت پر بدترین ظلم ڈھا رہے ہیں۔ اللہ ان کو ہدایت دے۔ قائداعظم نے تو کبھی مرعوبیت کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ وہ ڈنکے کی چوٹ اپنے عقائد و نظریات کا اظہار فرماتے تھے۔ ملاحظہ فرمائیے
1...''ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں۔ زبان و ادب، فنون لطیفہ، فن تعمیر، نام و نسب، شعور، اقدار و تناسب، قانون و اخلاق، رسم و رواج، تاریخ و روایات اور رجحان و مقاصد، ہر ایک لحاظ سے ہمارا اپنا انفرادی زاویۂ نگاہ اور فلسفۂ حیات ہے۔ بین الاقوامی قانون کی ہر تعریف ہماری قومیت کو سلامی دینے کے لیے تیار ہے‘‘۔ (ایسوسی ایٹڈ پریس، امریکہ کو بیان: یکم جولائی 1942ء)
2 ... ''وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے۔ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس اُمت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے۔ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر، خدا کی کتاب قرآنِ کریم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک کتاب، ایک اُمت‘‘۔ (اجلاس مسلم لیگ، کراچی، 1943ء)
3... ''آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانو ں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کی وجہ جواز کیا تھی؟ تقسیمِ ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کی وجہ ہندوئوں کی تنگ نظری ہے، نہ انگریزوں کی چال۔ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا ‘‘۔ (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، مارچ 1944ء)
4... پاکستان کی سرزمین میں زبردست خزانے چھپے ہوئے ہیں مگر اس کو ایک ایسا ملک بنانے کے لیے جو ایک مسلمان قوم کے رہنے سہنے کے قابل ہو، ہمیں اپنی قوت اور محنت کے زبردست ذخیرے کا ایک ایک ذرہ صرف کرنا پڑے گا اور مجھے اُمید ہے کہ تمام لوگ اس کی تعمیر میں دل و جان سے حصہ لیں گے ‘‘۔ (جمعۃ الوداع ،15؍اگست1947ء)
5... ''جس پاکستان کے قیام کے لیے ہم نے گزشتہ دس برس جدوجہد کی ہے، آج بفضل تعالیٰ ایک مسلمہ حقیقت بن چکا ہے۔ مگر کسی قومی ریاست کو وجود میں لانا مقصد بالذات نہیں ہو سکتا بلکہ کسی مقصد کے حصول کے ذریعے کا درجہ رکھتا ہے ۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں۔ جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی تصور کو پوری طرح پنپنے کا موقع ملے‘‘۔ (حکومت پاکستان کے افسران سے خطاب۔11؍ اکتوبر1947ء)
6... ''میں چاہتا ہوں کہ آپ سب مکمل اتحاد اور باہمی تعاون سے کام کریں تمام خطروں کا مل جل کر مقابلہ کریں جو آج ہمیں درپیش ہیں مجھے یقین ہے کہ ہم ان مشکلات اور خطروں سے کامیابی سے گزر جائیں گے۔ پاکستان کی عزت اور وقار کو اور بھی بلند کرتے ہوئے، اسلام کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اور اپنے قومی پرچم کو لہراتے ہوئے ... ‘‘۔ (افواجِ پاکستان سے خطاب ... 8؍ نومبر1947ء)
یہاں ہم نے قائداعظم کے ملفوظات و فرمودات میں سے صرف چند کے حوالے دیے ہیں ورنہ قائد نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور فرمایا تھا جو سب محفوظ ہے۔ قائداعظم نے غیر مبہم انداز میں دو قومی نظریے کی تشریح کر دی ہے۔ جو لوگ پاک سرحدوں کو محض ایک لکیر قرار دیتے اور یہ راگ الاپتے ہیں کہ ادھر بھی وہی رسوم و رواج اور اُدھر بھی ویسا ہی طرزِ زندگی ہے، ان کے اس فتنے سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ (ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم نے اس موضوع پر قابل تحسین کام کیا ہے)
قیامِ پاکستان کے وقت دو قومی نظریے کے حق میں جس شخص نے سب سے زیادہ علمی و فکری کام کیا وہ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے۔ اس زمانے میں ان کے مضامین ''مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن میں چھپتے تھے اور مسلم لیگ کا شعبہ نشر و اشاعت انہیں کتابچوں کی صورت میں پورے ملک میں تقسیم کرتا تھا۔ ان مضامین میں سید مودودیؒ نے تاریخی وعمرانی، دینی و مذہبی، معاشرتی و سماجی، تمدنی و ثقافتی، سیاسی و معاشی غرض ہر میدان میں مسلمانوں کا غیرمسلموں سے فرق واضح کیا۔ ان کے دلائل میں منطق بھی تھی اور تاریخ انسانی سے بھرپور استدلال بھی تھا۔ انہوں نے دنیا بھر کی اقوام و ممالک اور مذاہب و نظریات سے مثالیں دے کر ثابت کیا کہ مطالبۂ پاکستان مبنی برحق ہے اور اس کی مخالفت امت مسلمہ کے مستقبل کو گروی رکھ دینے کے مترادف ہے۔
انہی مضامین میں آگے چل کر سید مودودیؒ نے اس بات کو بیان کیا تھا کہ ایک اسلامی ریاست کو چلانے کے لیے جس ٹیم کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے مسلم لیگ کو وہ میسر نہیں۔ بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ کو خود بھی اس بات کا احساس تھا اور خود انہوں نے کئی بار اس کا اظہار کیا۔ سید مودودیؒ کی اس رائے کو نہایت بے انصافی اور سینہ زوری سے پاکستان کی مخالفت قرار دے دیا گیا۔ حالانکہ یہ مستقبل میں پیش آنے والے مسائل و مشکلات کی نشان دہی تھی جو سچ ثابت ہوئی۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں فکری لحاظ سے مولانا مودودی کی تحریروں میں دوقومی نظریے کا اثبات اور اکھنڈ بھارت کے تصور کا بطلان بہت بڑی فکری و نظری خدمت ہے۔
قیام پاکستان سے قبل ملک کے بعض حصوں میں ریفرنڈم کا مرحلہ بھی آیا جس میں وہاں کے باشندوں سے پوچھا گیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ جن علاقوں میں ریفرنڈم ہوا تھا، ان میں جماعت اسلامی کے ارکان و وابستگان نے پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کے لیے بھرپور مہم چلائی۔ صوبہ سرحد اس کی بہترین مثال ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی قائداعظم ؒ نے مولانا مودودیؒ کی پیش کردہ اسلامی فکر کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ قائداعظمؒ جوہرِ قابل کو پہچانتے بھی تھے اور اس کے قدردان بھی تھے۔ مولانا مودودیؒ کی نشری تقریریں جو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئیں، باقاعدہ چھپی ہوئی موجود ہیں۔ یہ سب قائداعظم کی زندگی میں نشر کی گئی تھیں۔ جونہی قائداعظم اس دنیا سے (ستمبر1948ء) رخصت ہوئے سید مودودیؒ کو پسِ دیوارِ زنداں (اکتوبر1948ء) دھکیل دیا گیا۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصور و نظریے کے مطابق اس خطۂ پاک کی تعمیر ہمارا ملی فرض ہے۔ آئیے پاکستان کے قیام کی ڈائمنڈ جوبلی پر اللہ تعالیٰ سے تجدیدِ عہد کریں کہ ہم اس فرض کی ادائیگی کے لیے کمربستہ رہیں گے۔ ''پاکستان کا مطلب کیا... لا الہ الا اللہ‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں