میری ہمشیرہ مرحومہ!

کچھ عزیز واقارب سے ایسا تعلقِ خاطر اور قلبی محبت ہوتی ہے کہ ان کی جدائی کا غم ہمیشہ تڑپاتا رہتا ہے، مگر مومن کی ڈھال صبر ہے اور یہی باعثِ اجر ہے۔ تقریباً دو سال قبل ہماری نہایت شفیق اور محبت کے زمزمے بہانے والی ہمشیرہ محترمہ ہم سے رخصت ہو کر اپنے دائمی ٹھکانے پر پہنچ گئیں۔ ان کے لیے ہر روز دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اگلی منزلیں آسان فرمائے اور اپنی رحمتوں کی بارش سے ان کو ڈھانپ لے۔ وہ ہمیشہ آخرت کی فکر سے سرشار رہتی تھیں اور ہر ایک کو یاددہانی کراتی رہتی تھیں کہ یہ دنیا امتحان گاہ ہے اور اصل ٹھکانہ عقبیٰ ہے۔
ہمیشہ ہم نے دیکھا کہ ہمشیرہ محترمہ کو سب سے زیادہ جس بات کا شوق تھا، وہ عبادتِ الٰہی اور خدمتِ خلق تھی۔ ہم آٹھ بہن بھائیوں میں ہمشیرہ سب سے بڑی تھیں۔ ان سے چھوٹے ایک بھائی اور ایک بہن بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ ان کی وفات کے بعد میری پیدائش ہوئی۔ مجھ سے ہمشیرہ محترمہ نو سال بڑی تھیں۔ باقی تین بہنیں اور ایک بھائی ہم سے چھوٹے تھے۔ سب سے چھوٹی بہن بھی ایک سال قبل داغِ مفارقت دے گئیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور باقی سب کو ایمان کے ساتھ سلامت رکھے۔ ہمشیرہ محترمہ کو اللہ نے بے پناہ ذہانت عطا فرمائی تھی۔
آپا جان نے بچپن میں مکتب میں قرآنِ مجید محض ناظرہ پڑھا تھا۔ بعد میں کچھ سورتیں اور قرآنِ پاک کے بعض حصے اپنے شوق سے یاد کرلیے، جن کو نمازوں میں دہراتی رہتی تھیں۔ اس کے ساتھ باقاعدگی سے اپنی یہ منزل گھر میں کسی نہ کسی کو سناتی بھی تھیں کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں۔ اس زمانے میں بچیوں کو سکول بھیجنے کا ہمارے ہاں کوئی رواج نہیں تھا۔ ہمشیرہ محترمہ نے اپنی ذہانت سے اردو زبان میں مہارت حاصل کی اور چھوٹی چھوٹی کتابوں سے لے کر تفہیم القرآن تک‘ سب کا مطالعہ کیا۔ تفہیم القرآن سے ان کو اتنا لگاؤ تھا کہ کئی بار اسے مکمل طور پر پڑھا۔ جہاں کہیں کوئی مشکل پیش آتی تو سوال پوچھتیں۔
ہمشیرہ محترمہ کی زندگی اس لحاظ سے دردناک تھی کہ ان کا عائلی سلسلہ نہ چل سکا۔ اس کے بعد وہ عائلی معاملات سے تقریباً لاتعلق بلکہ متنفر ہوچکی تھیں۔ اپنے بہن بھائیوں اور ان کی اولاد کے ساتھ مرحومہ کو ایسی محبت تھی جو یادگار ہے۔ آپ ان میں سے جس کے اندر زیادہ خوبیاں دیکھتیں، اسے اپنے سے زیادہ قریب سمجھتیں۔ مجھ سمیت جس کے اندر بھی کوئی خامی دیکھتیں فوراً اس کا محاسبہ کرتیں۔ ان کا یہ محاسبہ بلاشبہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا سہارا اور ذریعۂ تربیت تھا۔ مجھے عموماً احترام سے مخاطب کرتیں، مگر کبھی کبھار بے تکلفی میں اور کبھی غصے میں مجھے 'تُو‘ کہہ کر پکارتیں تو میرا دل بہت خوش ہوجاتا۔ ان کی وفات پر میری آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آگئے اور میں نے ان کی چارپائی کے پاس کھڑے ہو کر ان کے پُرسکون چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا: آپا جان آپ چلی گئیں، اب مجھے تُو کہہ کر کون پکارے گا؟ اور اس تُو کا لطف جو میرے دل ودماغ کو تروتازہ کردیتا تھا، اب کہاں سے ملے گا؟والدہ مرحومہ کی وفات کے بعد ہم ان کو والدہ کے مقام پر سمجھتے تھے۔ ان کی دعائیں ہمارے سروں پر دن رات سایہ فگن رہتی تھیں۔
والدہ محترمہ کی وفات(اکتوبر1978ء) سے قبل میں کینیا سے واپس پہنچا۔ والدہ محترمہ فاطمہ میموریل ہسپتال لاہور میں داخل تھیں، مگر کینسر اتنا پھیل چکا تھا کہ ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا تھا۔ آخر اللہ تعالیٰ کا بلاوا آگیا اور ہم پر قیامت گزر گئی۔ اس موقع پر ہم سب بہن بھائی اور پورا خاندان ازحد غم زدہ تھا، مگر سب سے زیادہ صدمہ بڑی ہمشیرہ کو ہوا۔ والدہ محترمہ سب سے یکساں پیار کرتی تھیں، مگر جب ان کی یہ بیٹی واپس والدین کے گھر آگئیں تو ہماری امی جان اپنی اس بیٹی سے خدمت لینے کے بجائے اس کی خدمت اور دل جوئی میں لگی رہتی تھیں۔ ہمشیرہ محترمہ والدہ مرحومہ کی زندگی میں ہم سب سے عمر میں بڑی ہونے کے باوجود ان کی توجہ کا مرکز بن گئی تھیں، جس طرح چھوٹے اور معصوم بچے والدین کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ پھر ظاہر ہے مہربان والدہ کی وفات کا سب سے زیادہ صدمہ انہی کو ہونا تھا۔
1978ء میں عید قربان کے روز نمازِ عید کے دوران میری امی جان کی وفات ہوئی تھی۔ میں اس روز مسجد سے عید کی نماز پڑھ کر جلدی سے گھرآیا تو میری ہمشیرہ مجھ سے گلے مل کر زاروقطار روئیں۔ مجھ پر خود غم کی گہری کیفیت طاری تھی۔ میں نے ہمت کرکے اپنی پیاری اور محترمہ بہن کو صبر کی تلقین کے ساتھ والدہ مرحومہ کے صبروضبط کا حوالہ دیا۔ وہ مشکل سے خاموش ہوئیں، مگر آنسو تھے کہ رکتے ہی نہ تھے۔ اس لمحے کے بعد اللہ نے ہمشیرہ کو ایسا صبر اور ہمت عطا فرمائی کہ وہ سب بہن بھائیوں کو تسلی دیتی رہیں۔
والدہ مرحومہ کو ہمارے نانا جی مرحوم کی جائیداد میں سے جو زرعی زمین وراثت میں ملی تھی، اس کے بارے میں ہمشیرہ محترمہ نے ہم سب بہن بھائیوں اور والد صاحب کو ایک تجویز دی کہ ہم سب والدہ محترمہ کی زمین وقف کردیں۔ اس زمین کی آمدنی خود استعمال کرنے کے بجائے ضرورت مندوں پر خرچ کی جائے۔ سب نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ الحمدللہ ان کی اس تجویز پر اب تک عمل ہورہا ہے۔ وفات سے قبل آپا جان وصیت کرکے خود اپنی آبائی زرعی زمین میں سے بھی تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کرگئیں۔ اللہ ان کی حسنات کو شرفِ قبولیت بخشے۔ نیکی کرنا بھی بڑی سعادت ہے اور نیکی کی طرف دوسروں کو مائل کرنا اور رہنمائی دینا بھی اتنا ہی باعث اجر ہے، جتنا خود عمل کرنا۔ حدیث رسول مقبول میں فرمایا گیا ہے: نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والا (ثواب میں) نیکی کرنے والے ہی کی طرح ہے۔ (جامع ترمذی، عن حضرت انسؓؓ)
والد صاحب 2006ء میں شدید بیمار پڑ گئے۔ ان کو ہم لاہور لے آئے تھے اور یہاں ان کا علاج ہورہا تھا۔ ہمشیرہ بھی یہیں تھیں۔ اسی دوران آپ نومبر2007ء میں منصورہ میں رحلت فرما گئے۔ والد صاحب نے اپنی زندگی میں اپنی بیٹی کے لیے اپنے گاؤں میں ان کا بہت اچھا گھر تعمیر کرا دیا تھا، جس میں سب سہولتوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ وہ ہم سب بہن بھائیوں کے بارے میں بے فکر تھے کیونکہ سب اپنے اہل وعیال میں خوش وخرم تھے، مگر ہمشیرہ محترمہ کے بارے میں فکرمند رہتے تھے۔ انہوں نے اس بات کا اہتمام کیا کہ ہمشیرہ اپنی ضروریات کے لیے خود کفیل ہوجائیں اور ان کو کبھی معاشی تنگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ الحمدللہ ہمشیرہ محترمہ اپنے وسائل سے اپنی تمام ضروریات بھی پوری کرتیں، صدقہ وخیرات بھی کرتیں اور مقبوضہ کشمیرکے مظلومین کے لیے دل کھول کر عطیات بھی دیتیں۔ ہر سال بلاناغہ کشمیر میں قربانی دینے کے لیے جماعت اسلامی کے شعبہ مالیات میں اپنا حصہ جمع کراتیں۔ آبائی زمین میں سے جو آمدنی آتی اس میں سے بھی مستحقین کا حصہ نکالتی رہتی تھیں۔ جب بھی ان کے علم میں آتا کہ کوئی خاندان کسی مصیبت میں مبتلا ہے‘ خواہ وہ اجنبی ہو یا قریبی‘ تو اس کی مدد کے لیے نہ صرف خود بلکہ اپنے بہن بھائیوں سے بھی امداد فراہم کرنے کا اہتمام کرتیں۔
ہمشیرہ محترمہ کو ہم نے دیکھا کہ مظلومینِ مقبوضہ کشمیروفلسطین اور پھر گزشتہ سالوں میں اراکان (میانمار) وہند کے مظلوم اہلِ ایمان کی حالتِ زار پر بہت زیادہ غم زدہ ہوجاتیں۔ رات کے وقت جب بھی آنکھ کھلتی ان مظلومین کے لیے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگتیں۔ اکثر ان کی زبان سے ہم یہ سنتے: اے اللہ! مظلومین کشمیروفلسطین کا دنیا میں کوئی پرسانِ حال نہیں۔ امت مسلمہ بے حس ہوچکی ہے اور مسلمان حکمران حمیت سے عاری ہیں۔ اللہ! تو ہی ان مظلوم اہلِ ایمان کی مدد فرما۔ تیرے سوا کس سے فریاد کریں اور کس سے مدد مانگیں؟ تو سب اختیارات کا مالک ہے۔ ان کی قسمت کو تیرے سوا کون ہے جو بدل دے۔ اخبارات ورسائل میں مظلومین کے بارے میں کوئی خبر دیکھتیں یا کوئی تصویر نظر سے گزرتی تو ازحد غم زدہ ہوجاتیں۔ ایسے مواقع پر ان کو تسلی دینا بھی مشکل ہوجاتا۔
اللہ تعالیٰ ہماری ہمشیرہ مرحومہ کی مظلوم مسلمانوں کے حق میں اس فکرمندی اور ان کے ان جذباتِ اخوت ومحبت کو ان کی حسنات میں شامل فرما کر شرف قبولیت بخشے۔ مظلوموں سے ہمدردی ایمان کی علامت ہے۔ ہر انسان خطا کار ہے، مگر ایک چیز جو میں مرحومہ میں ہمیشہ دیکھتا، اس سے مجھے آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کی یاد تازہ ہوجاتی۔ آپﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کی خاطر محبت کی اور اللہ کی خاطر دشمنی کی، اللہ کی خاطر کسی کو دیا اور اللہ ہی کی خاطر روک لیا، یقینا اس نے اپنے ایمان کو مکمل کرلیا۔ (سنن ابی داؤد، عن حضرت امامہ باہلیؓ) الحمدللہ مرحومہ کے اندر یہ جملہ صفات بدرجۂ اتم موجود تھیں۔ اے اللہ اپنی اس بندی کی ان صفات کو شرفِ قبولیت عطا فرما۔
اے پیاری بہنا! آپ جب مجھے تو کہہ کر پکارتی تھیں تو اتنا لطف آتا تھا کہ بیان نہیں کرسکتا۔ احساس ہوتا تھا کہ کوئی سرپرست موجود ہے۔ اب تُو کہہ کر پکارنے والا کوئی موجود نہیں رہا۔ اللہ آپ کو جنت مکین فرمائے۔ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں