سیدمودودیؒ کو پہلی بار 1959ء میں دیکھا تھا۔ میں اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ دوسری مرتبہ 1963ء میں آپ کو بھاٹی گیٹ کے کل پاکستان اجتماعِ عام میں دیکھنے کاشرف حاصل ہوا۔ اس اجتماع سے قبل حالات بہت خطرناک اور ایوبی حکومت کے انتقامی حربے واضح طور پر نظر آرہے تھے۔ اجتماع کا آغاز ہوتے ہی حکومتی سرپرستی میں غنڈوں نے اجتماع گاہ پر حملہ کردیا۔ گولیاں چلیں اور ایک کارکن اللہ بخش شہید ہو گئے۔ مولانا مودودی سے کہا گیا کہ آپ بیٹھ جائیں۔ مولانا نے فرمایا: میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا۔ میرے کانوں نے یہ الفاظ سنے جو آج تک کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔ اس موقع پر معروف شاعر جناب شورش کاشمیری نے وہ مشہور غزل کہی جس کے گیارہ اشعار میں سے چند پیش خدمت ہیں۔
اے مرے ملک کے اسلامی جماعت کے امیر
کیا لکھوں کون سی خوبی تری تصویر میں ہے
جذبۂ شوق ترے دیدہ و دل کی دولت
رُوحِ اسلام یقینا تری تحریر میں ہے
مجھ کو محسوس یہ ہوتا ہے یہی سوچتا ہوں
ایک دن جامِ شہادت تری تقدیر میں ہے
سید احمدؐ کی روایاتِ مقدس کو سلام
دولتِ کون و مکاں سنتِ شبیرؓ میں ہے
اس موقع کی منظرکشی ماہرالقادریؒ نے دس اشعار میں کی۔ چند ایمان افروز اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
حق سے جو وعدہ کیا تھا وہ وفا ہوتا رہا
گولیاں چلتی رہیں اور فرض ادا ہوتا رہا
اہلِ دولت کی سیاست کا بھلا ہوتا رہا
ہاتھ سے غنڈوں کے اور بیحرمتی قرآن کی
اے خدائے منتقم! فریاد! کیا ہوتا رہا
اس طرف آتش زنی غارت گری ہوتی رہی
اس طرف اعلانِ حق ذکرِ خدا ہوتا رہا
فرض ہے جن کی حفاظت امن اور قانون کی
ان کے سائے میں یہ سب کچھ برملا ہوتا رہا
اللہ نے اس امت کو گزشتہ صدی میں حسن البناؒ، سید مودودیؒ اور سید قطبؒ جیسی عظیم ہستیوں کے وجود سے نوازا۔ ایسے نابغۂ روزگار مدتوں بعد کسی قوم کو نصیب ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ہوتا ہے کہ قومیں اپنے محسنین کو ان کی زندگی میں نہیں پہچان سکتیں۔ سید مودودیؒ ملت اسلامیہ کا عظیم ترین سرمایہ تھے۔ ان کی پوری زندگی سراپا جہاد تھی۔ باطل کے ایوانوں میں ان کی فکر نے ہمیشہ زلزلے برپا کیے۔ قادیانی فتنہ ہو یا عیسائی مشنری یلغار، فتنۂ انکارِ حدیث ہو یا سیکولر نظریات کا طوفان، ہر ایک کے سامنے انہوں نے بند باندھ دیے۔ وہ 1979ء میں ہمیں داغِ مفارقت دے گئے مگر ان کی حسین یادیں اب بھی دنیا بھر میں ان کے مداحین کے دلوں میں رچی بسی ہیں۔
سید مرحوم کے کارنامے ہمہ پہلو، ہمہ جہت اور جامع ہیں۔ آپ کا اصل کام فکری رہنمائی اور قلم و قرطاس کا صحیح استعمال ہے۔ جہاد قلم، زبان اور سیف سبھی سے کیا جاتا ہے۔ دیرپا اثرات قلمی جہاد ہی کے ہوتے ہیں، جو سید مودودیؒ کی اصل پہچان ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تمام تصانیف، مؤثر، دل و دماغ کو اپیل کرنے والی اور ایک مخلص داعیٔ حق کا دردِ دل لیے ہوئے ہیں۔ ان کتابوں نے بلاشبہ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو تبدیل کیا ہے۔ ہر علاقے اور ہر زبان سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم ان کی تحریریں پڑھ کر اسلام سے روشناس ہوئے۔ اسی طرح مولانا مودودیؒ کی کتب کے مطالعے کی بدولت خود بے شمار مسلمانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا۔ مولانا مودودیؒ کا کمال تھا کہ جن علاقوں کا کبھی سفر نہ کیا تھا، وہاں کے حالات سے بھی باخبر تھے۔
1974ء تک کینیا میں قادیانیوں کا مشن خاصا فعال تھا۔ لیکن پاکستانی دستور میں چوتھی آئینی ترمیم کے بعد جب پاکستان پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تو پوری دنیا میں ان کے اثرات سمٹنے لگے۔ نیروبی میں ان کے مبلغ شیخ مبارک اخبارات کے ذریعے سے اپنے نظریات کا پرچار کرتے تھے، لیکن ان کے ہر آرٹیکل کا جواب ہم بھیجتے جو اخبارات میں چھپ جاتا۔ اس عرصے میں قادیانیوں کے ایک مشنری نے قرآن ہائوس میں آکر میرے ساتھ مناظرہ کیا۔ اس کا طریقۂ واردات یہ تھا کہ ایک موضوع کو چھوڑ کر دوسرے موضوع پر بحث چھیڑ دیتا۔ اس مباحثے کے دوران مولانا مودودیؒ کا کتابچہ ختمِ نبوت زیرِ بحث آیا جو ہم نے کینیا میں انگریزی اور سواحلی زبانوں میں چھپوا کر تقسیم کیا تھا۔ اس قادیانی کی زبان سے دورانِ گفتگو یہ بات نکلی کہ علما نے ہمارے خلاف بڑی بڑی کانفرنسیں کیں، بڑے جلوس نکالے، لیکن اس ''ظالم‘‘ نے جتنا نقصان ہمیں پہنچایا ہے، کوئی نہیں پہنچا سکا۔ اس کا اشارہ مولانا مودودیؒ اور ان کے مقالے ختمِ نبوت کی طرف تھا۔
میں نے اس قادیانی کو جواب دیا کہ ظالم وہ نہیں جس نے ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عزم کیا تھا، ظالم تمہارا جھوٹا مدعیٔ نبوت اور تم سب ہو‘ جو قصرِختمِ نبوت میں نقب لگاتے ہو، مگر رسوائی اور ذلت کے سوا تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ پھر میں نے کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بت توڑے تھے تو قرآنِ مجید کے الفاظ میں بت پرستوں نے انہیں بھی ظالم قرار دیا تھا، مگر ساری دنیا جانتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ مبین میں اس پر مہر لگائی ہے کہ نمرود اور اس کی ذرّیت سب ظالم تھے اور ابراہیم حنیف، عادل ومومن تھے۔
کینیا پہنچنے پر مجھے معلوم ہوا کہ وہاں وائس آف کینیا پر اسلامی پروگرام قادیانی پیش کرتے ہیں، بہت افسوس اور تعجب ہوا۔ کینیا کے چیف قاضی شیخ عبداللہ صالح فارسی (مرحوم و مغفور) اسلامک فاؤنڈیشن نیروبی کی مجلسِ عاملہ کے رکن اور راقم الحروف کے انتہائی مشفق مہربان دوست تھے۔ میں نے ان سے اس موضوع پر بات کی تو انہوں نے وزارتِ اطلاعات کو متوجہ کیا؛ چنانچہ قادیانیوں کے بجائے یہ پروگرام اسلامک فائونڈیشن کے سپرد ہوا۔ الحمد للہ اسلامک فائونڈیشن کے تحت سال ہا سال تک ہم اردو، انگریزی اور سواحلی میں اسلامی پروگرام پیش کرتے رہے۔ میری معلومات کے مطابق اب بھی یہ پروگرام سپریم کونسل آف کینیا مسلمز کی نگرانی میں جاری ہے۔
جن دنوں پاکستانی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا، میں ان دنوں براعظم افریقہ میں سید مودودیؒ کے قائم کردہ ادارے اسلامک فائونڈیشن نیروبی میں خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ اسی ادارے کی ایک اور شاخ مغربی افریقہ کے ملک نائیجیریا میں قائم تھی۔ ہمارے دوستوں نے وہاں بھی قادیانی فتنے کا خوب مقابلہ کیا۔ قادیانی اس قدر شاطر اور چالاک تھے کہ اسلام کے لبادے میں نائیجیریا کے سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلاتے اور اپنا ہم نوا بنا لیتے۔ نائیجیریا میں قبائلی سرداروں کا اپنے قبیلوں میں بڑا اثرورسوخ ہے۔ نائیجیریا کا ایک بہت بڑا قبائلی چیف بھی ان کے نرغے میں آگیا۔ اس کے قادیانی ہونے سے پورے قبیلے اور علاقے میں قادیانیوں نے پنجے گاڑ لیے۔
اسلامک فائونڈیشن کانو‘ نائیجیریا نے مولانا مودودیؒ کے کتابچے مسئلہ ختمِ نبوت کا انگریزی ترجمہ (Finality of Prophethood) انگریزی اور مقامی زبانوں ہاؤسا اور فولانی وغیرہ میں پھیلایا۔ اس قبائلی چیف تک بھی کسی نہ کسی طرح یہ کتابچہ پہنچ گیا۔ قادیانیوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے چیف کے خوب کان بھرے کہ یہ شخص تو گمراہ ہے اور اسلام کا دشمن ہے۔ مگر اس نے کہا کہ نہیں مجھے دیکھنا تو چاہیے کہ یہ کہتا کیا ہے۔ اس نے کتابچہ پوری توجہ سے ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھا۔ کتابچہ پڑھنے کے بعد اس چیف کے ذہن میں ہل چل مچ گئی۔
اللہ کی قدرت کہ انہی دنوں رات کو خواب میں اس نے دیکھا کہ وہ اپنے محل کے وسیع و عریض لان میں اکیلا بیٹھا ہے اور اس کے چاروں جانب ایک باڑ ہے جس میں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اچانک اس باڑ کو آگ لگ گئی، اس نے جان بچانے کے لیے چیخ و پکار کی لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔ خوف کے عالم میں اس نے دیکھا کہ باڑ کے ایک جانب کتابچہ ختمِ نبوت کا عنوان لکھا تھا اور اس جانب سے باڑ جل چکی تھی اور راستہ بن گیا تھا۔ اس نے بھاگ کر اپنی جان بچائی اور یوں اللہ نے اسے راہ نمائی دی اور مسئلہ ختمِ نبوت اس کی سمجھ میں آگیا۔ اسی دوران یہ خبریں بھی نائیجیریا پہنچیں کہ پاکستان‘ جو قادیانیوں کا گڑھ ہے‘ کی پارلیمنٹ نے انہیں غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا ہے تو چیف بالکل یک سو ہوگیا اور اس نے قادیانیت چھوڑ کر پھر اسلام کو سینے سے لگا لیا۔
ظاہر ہے ایسے کتابچے کو قادیانی اپنے لیے پیغامِ موت ہی سمجھ سکتے ہیں۔ بعد میں اس چیف کو بتایا گیا کہ مولانا مودودیؒ کو اسی مسئلے پر فکری راہ نمائی دینے کے نتیجے میں ایک مارشل لا عدالت نے سزائے موت سنائی تھی مگر انہوں نے ناموسِ رسالت پر جان قربان کر دینے کا عزم ظاہر کیا اور حکمرانوں سے معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ اللہ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ان کی جان بچا لی اور ان کے مخالفین دم بخود رہ گئے۔ اس سے اُس کے یقین و ایمان میں اور مضبوطی آئی۔ یوں قادیانیوں کو جگہ جگہ شکست ہوئی۔
ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان!
قہّاری و غفّاری و قدّوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان