کچھ کفر نے فتنے پھیلائے، کچھ ظلم نے شعلے بھڑکائے
سینوں میں عداوت جاگ اٹھی، انسان سے انساں ٹکرائے
پامال کیا، برباد کیا، کمزور کو طاقت والوں نے
جب ظلم و ستم حد سے گزرے، تشریف محمدؐ لے آئے
اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں جمادات بھی ہیں اور نباتات بھی۔ انسان اور جن بھی ہیں، جانور اور طیور بھی، کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض بھی، آبی حیات اور جنگلی وحوش بھی۔ ان سب کے حقوق اللہ تعالیٰ نے متعین کیے ہیں۔ ان حقوق کی بہترین ادائیگی کی مثال عملی طور پر پوری انسانی تاریخ میں تلاش کریں تو رحمۃللعالمینﷺ سے بہتر کہیں بھی نظر نہیں آسکتی۔ آپﷺ محض ہدایات نہیں دیتے تھے بلکہ عملاً مخلوقِ خدا کی داد رسی اور شکایات کا ازالہ فرماتے تھے۔
نبی رحمتﷺ نے غلاموں، لونڈیوں اور مساکین ومظلومین سبھی کے حقوق کو یقینی بنایا۔ حضرت ابوذر غفایؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے ان کو تمہارا محکوم بنادیا تو جس کے زیرِ دست اللہ نے اس کے کسی بھائی کو کر دیا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ جو خود کھائے وہی غلام کو کھلائے، جو خود پہنے وہی اس کو پہنائے۔ اس کو ایسے کام کا مکلف نہ کرے جو اس کے بس میں نہ ہو اور اگر ایسے کام پر اس کو لگانا ہو تو پھر اس میں خود اس کی مدد کرے۔ (بخاری ومسلم)
حضرت کعب بن عجرہؓ کی روایت ہے کہ آپﷺ نے ہدایت فرمائی کہ اپنی باندیوں کو کبھی برتن ٹوٹنے پر سزا نہ دیا کرو۔ ان برتنوں کی عمریں بھی تمہاری طرح مقرر ہیں۔ (مسند الفردوس للدیلمی)حضرت ابومسعود انصاریؓ سے روایت ہے کہ میں اپنے ایک غلام کو اس کی غلطیوں پر مار رہا تھاکہ اچانک پیچھے سے میں نے آواز سنی: اے ابومسعود! یاد رکھواللہ کو تجھ پر اس سے کہیں زیادہ قدرت اور قابوحاصل ہے، جتنا تجھے اس بے بس غلام پر ہے۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو یہ رسول اللہﷺ تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں نے اس کو آزاد کردیا ہے اور غلام سے کہا کہ بھائی اب تم آزاد ہو۔ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا: تم نے اپنے آپ کو جہنم کی آگ میں جلنے سے بچا لیا ہے۔ (صحیح مسلم) رسولِ رحمتﷺ کی شان تو یہ ہے کہ وہ ایک چڑیا کی شکایت پر بھی بے چین ہو گئے تھے، جس کے بچے (چوزے) ایک صحابی ایک جنگ کے دوران اس کے گھونسلے سے نکال کر اپنے خیمے میں لے آئے تھے، وہ چڑیا کسی او رخیمے پر نہیں گئی بلکہ آنحضورﷺ کے خیمے پر آکر اس نے اپنی شکایت پیش کی اور آپﷺ نے فوراً حکم دیا کہ اس کے بچے اس کے گھونسلے میں واپس کیے جائیں اور اس حکم پر اسی وقت عمل ہوا۔
امام احمد بن حنبلؒ نے حضرت عبداللہؓ بن جعفر بن ابی طالب سے ایک حدیث روایت کی ہے۔ آپؓ نے بیان کیا ہے کہ ایک دن نبی پاکﷺ نے مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے سوار کرلیا۔ ہم چلے جارہے تھے کہ ایک باغ میں سے ایک اونٹ آپﷺ کے سامنے آیا اور اس نے بلبلانا شروع کردیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ حضور اکرمﷺ نے اس کی حالتِ زار دیکھی تو آپﷺ کا دل بھر آیا اور آپﷺ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ آپﷺ نے اس کی پیٹھ اور گردن پر ہاتھ پھیراتو وہ خاموش ہوگیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے پوچھا: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نوجوان آگے بڑھا اور اس نے کہا: یا رسول اللہﷺ! یہ اونٹ میرا ہے۔آپﷺ نے اس نوجوان صحابی کو مخاطب کرکے فرمایا: کیا تو اس بے زبان چوپائے کے معاملے میں اللہ سے نہیں ڈرتا۔ اللہ نے اسے تیری مِلک میں دے دیا ہے۔ اس حیوان نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اس سے کام تو پورا لیتا ہے مگر اسے خوراک پوری نہیں دیتا۔ (معجزات سرورِ عالمؐ ، ولیدالاعظمیؒ، اردو ترجمہ، ص: 226، بحوالہ سنن البیہقی، البدایۃ والنھایۃ، اسدالغابۃ)
نبی اکرمﷺ کو تو جنگلی جانور بھی پہچانتے تھے اور آپﷺ سے اپنے دکھوں کی شکایت اور ان کے ازالے کی درخواست کیا کرتے تھے۔ اسی سلسلے میں ایک ہرنی کا واقعہ بھی امام ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ابونعیم اصبہانی نے راویوں کا ایک سلسلہ نقل کرکے حضرت ام سلمہؓ کی ایک روایت بیان کی ہے:وہ فرماتی ہیں: اللہ کے رسولﷺ ایک مرتبہ کسی سنگلاخ وادی سے گزر رہے تھے کہ آپﷺ نے آواز سنی: یا رسول اللہ! آپﷺ نے فرمایا: میں نے آواز سن کرارد گرد دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا۔ میں آگے بڑھا، پھر وہی آواز دوبارہ سنائی دی۔ میں آواز کی جانب گیا تو دیکھا کہ ایک ہرنی رسیوں سے بندھی ہوئی تھی اور ایک مسلح بدو دھوپ میں پڑا سورہا تھا۔ ہرنی نے کہا: یارسول اللہﷺ! اس بدو نے مجھے شکار کر لیا ہے اور اس پہاڑ میں میرے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اگر آپﷺ مجھے کھول دیں تو میں انہیں دودھ پلا کے واپس آجاؤں گی۔ نبی پاکﷺ نے فرمایا: کیا واقعی ایسا کرو گی؟ اس نے جواب میں عرض کیا: اگر میں وعدہ پورا نہ کروں تو خدا تعالیٰ مجھے دردِ زہ کے عذاب سے ہلاک کرڈالے۔ حضورﷺ نے اس کی رسیاں کھول دیں۔ وہ دوڑتی ہوئی گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس لوٹ آئی۔ اس کی واپسی پر نبی پاکﷺ اس سے گفتگو کررہے تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپﷺ اسے رسیوں سے باندھ رہے تھے کہ بدو کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے رسول اللہﷺ کو پہچان لیا اور عرض کیا: یارسول اللہﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں نے تھوڑی دیر پہلے یہ ہرنی پکڑی تھی‘ کیا آپﷺ کو اس کی ضرورت ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! مجھے اس کی ضرورت ہے۔ اس نے کہا: آپ بخوشی اسے لے لیں۔ رسول اللہﷺ نے اسے آزاد کردیا۔ اس پروہ اتنی خوش ہوئی کہ صحرا میں چوکڑیاں بھرتی دوڑی۔ پھر خوشی سے زمین پر پاؤں مارنے لگی اور اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہﷺ کی رسالت کی گواہی دیتی ہوئی وہاں سے رخصت ہوگئی۔(معجزاتِ سرورِ عالمؐ، ص: 227تا 228، بحوالہ البدایۃ والنھایۃ)
جانور تو جانور‘ آپﷺ سے تو بے جان مخلوق کو بے مثال عقیدت ومحبت تھی۔ اس معاملے میں حضرت امام بخاریؒ بیان کرتے ہیں کہ قتیبہ بن سعید نے یعقوب بن عبدالرحمان الاسکندرانی سے اور انہوں نے ابوحازم بن دینار سے سنا کہ کچھ لوگ صحابیٔ رسول حضرت سہل بن سعد الساعدیؓ کے پاس آئے۔ انہوں نے آپس میں منبرِ رسول کے بارے میں بحث شروع کر رکھی تھی کہ منبر کیسے بنا اور کس لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ جب انہوں نے حضرت سہلؓ سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا: بخدا میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ کس لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ جس روز یہ بن کر آیا اور آنحضورﷺ پہلی مرتبہ اس پر تشریف فرما ہوئے تو میں خود مسجد میں موجود تھا اور میں نے پورا منظر دیکھا تھا۔
آنحضورﷺ نے ایک انصاری خاتون کے پاس کسی کو بھیجا کہ وہ اپنے ماہر نجار غلام سے منبر بنوادے جس پر خطبے کے دوران آپ بیٹھ جایا کریں۔ اس صحابیہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ وہ جنگل کی بہترین لکڑی کاٹ کر لائے اور اس سے منبر تیار کرے؛ چنانچہ اس نے منبر تیار کیا اور ان صحابیہؓ نے اسے مسجد نبوی میں بھجوا دیا۔ یہ یہاں رکھ دیا گیا، جس جگہ آج بھی موجود ہے۔ پھر میں نے حضور اکرمﷺ کو اس چبوترہ نما منبر پر نماز پڑھتے دیکھا۔ نماز سے فارغ ہوئے تو آپﷺ نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا:لوگو! یہ بلند منبر اس لیے بنوایا گیا ہے تاکہ تم میری امامت میں نماز پڑھو اور مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر نماز کی تعلیم حاصل کرو۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہی نے حضرت جابر بن عبداللہؓکی روایت کے حوالے سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ایک انصاری صحابیہؓ نے حضور اکرمﷺ سے خود عرض کیا کہ ان کے پاس ایک کاریگر غلام ہے جو لکڑی کا نہایت نفیس کام کرسکتا ہے۔لہٰذا اگر آپ اجازت دیں تو اس سے وہ ایک منبربنوادے، جس پر آپﷺ تقاریر کے دوران بیٹھ جایا کریں۔ آپﷺ نے فرمایا: جیسے تم چاہو۔
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر اس خاتون نے بہت نفیس منبر بنوا کر بھجوا دیا۔ جب جمعہ کا دن ہوا تو آنحضورﷺ اس منبر پر بیٹھ گئے۔ اس موقع پر کھجور کا وہ تنا جس کے پاس کھڑے ہو کر آپﷺ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے‘ رونے لگا۔ اس کی چیخ وپکار اتنی دردناک تھی کہ یوں لگتا تھا وہ فرطِ غم سے پھٹ جائے گا۔ سب صحابہ نے اس کی آواز سنی۔ آنحضورﷺ منبر سے اتر آئے اور اس تنے کو پکڑ لیا۔ پھر اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ وہ چپ ہوگیا مگر اس طرح اس کی ہچکی بندھی ہوئی تھی جس طرح روتا ہوا بچہ چپ کرنے سے پہلے ماں کی گود میں ہچکیاں لیتا ہے۔ (معجزاتِ سرورِ عالمؐ،ص: 120تا 121، بحوالہ صحیح بخاری، المسند، سنن البیہقی)
مظلوموں کی فریاد سنی، مجبوروں کی غم خواری کی
زخموں پہ خنک مرہم رکھے، بے چین دلوں کے کام آئے
قارئین محترم! ہم سب کے لیے آج قابل توجہ ہے کہ
میں تیرے مزار کی جالیوں کی مدحت ہی میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا