سیرت النبی کے ایمان افروز واقعات!

تاریخِ اسلام کا ایک واقعہ بتاتا ہے کہ چھ صحابہ کرام کو دھوکے سے شہید کیا گیا تھا۔ ان کی شہادت کا یہ واقعہ جنگِ اُحد کے بعد ماہِ صفر 4ھ میں پیش آیا۔ عضل اور قارہ قبائل بنو لحیان اور بنو خزیمہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے آنحضورﷺ سے چند صحابہ کرام کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے درخواست کی تھی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یہ افراد ہمارے قبائل میں‘ جو مسلمان ہو چکے ہیں‘ صحیح اسلامی تعلیم کا اہتمام کریں تاکہ عام لوگ اسلام پر عمل پیرا ہوسکیں۔ رجیع کے مقام پر ان میں سے چار صحابہ کرام کو دھوکے سے شہید کیا گیا جبکہ دو صحابی زخمی حالت میں گرفتار کر لیے گئے۔ پھر انہیں مکہ لے جاکر فروخت کر دیا گیا۔ صحابہ کرام کی شہادت سے نبی اکرمﷺ اور مدینہ میں موجود تمام اہلِ ایمان کو شدید صدمہ پہنچا تھا۔
جنگِ خندق کے بعد نبی اکرمﷺ نے یہودیوں سے مدینہ کو پاک کرنے کے لیے بنو قریظہ سے جنگ لڑی۔ اس جنگ سے فارغ ہوتے ہی آپﷺ نے غدر کرنے والوں کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ آپﷺ نے دو سو منتخب جانثاروں کو لے کر اس غزوہ کے لیے مدینہ سے شمال کی طرف پیش قدمی کی حالانکہ ان قبائل کا علاقہ مدینہ سے جنوب کی طرف واقع تھا۔ ان قبائل نے اپنے اس انتہائی قبیح جرم کے بعد ہمیشہ محسوس کیا کہ مدینہ کی اسلامی ریاست ان سے انتقام لے گی۔ اسی لیے انہوں نے اپنے مخبری کے نظام کو بہت منظم کرلیا تھا۔ نبی پاکﷺ بھی ان کی اس احتیاطی تدبیر سے بخوبی واقف تھے۔ اسی لیے آپﷺ نے انہیں لاعلم رکھنے کے لیے جنوب کے بجائے شمال کی جانب کوچ کیا۔ عام لوگوں کا خیال تھا کہ آپﷺ شام کی طرف کسی مہم پر روانہ ہو رہے ہیں۔ غداری کرنے والے قبائل کا علاقہ مدینہ سے جنوب کی طرف قریباًدو سو میل کے فاصلے پر تھا۔ بیس پچیس میل شمال کی طرف جانے کے بعد آپﷺ نے اپنے لشکر کو مغرب کا رخ کرنے اور کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد جنوب کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا۔ اس تدبیر کے باوجود عضل اور لحیان کو اطلاعات ملیں کہ مدینہ سے ایک فوج اسلامی ریاست کے سربراہ کی قیادت میں نکل کھڑی ہوئی ہے تو انہیں خطرہ محسوس ہوا کہ ہو نہ ہو‘ یہ تحرک ہماری گوشمالی ہی کے لیے ہے۔ وادیٔ عُسْفان کے گردونواح کے پہاڑی علاقوں میں یہ لوگ اپنے اہل و عیال اور مال مویشی لے کر روپوش ہوگئے۔
نبی اکرمﷺ اس سفر کے دوران اس مقام پر بھی تشریف لے گئے جہاں آپﷺ کے صحابہ کرام کو دھوکے سے شہید کیا گیا تھا۔ مؤرخ ابن سعد نے (طبقات الکبریٰ‘ جلد دوم، صفحہ 79 میں) اس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نبی پاکﷺ پر رقت طاری ہوگئی اور آپﷺ نے اپنے صحابہ کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی۔ آپﷺ کے وہ سب صحابہ کرام جو اس واقعے میں شہید ہوئے تھے‘ بہت قیمتی ہیرے تھے۔ آپﷺ کو ان سے بہت محبت تھی۔ ایسے وقت میں فطری طور پر یقینا وہ سبھی آنکھوں کے سامنے آئے ہوں گے اور آپﷺ نے ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے جو دعا کی‘ اس سے ان کے درجات کس قدر مزید بلند ہوئے ہوں گے، اس کا تصور ہر بندۂ مومن کر سکتا ہے۔
دشمن قبائل نبی اکرمﷺ کی آمد سے قبل ہی منتشر ہوگئے تھے، اس لیے آپﷺ دو دن ان کے علاقے میں مقیم رہے اور پھر واپسی کا فیصلہ فرمایا۔ اسی مہم کے دوران آپﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی قیادت میں دس شہسواروں کی ایک ٹکڑی 'کراع الغمیم‘ کی طرف روانہ فرمائی۔ یہ مقام مکہ مکرمہ سے قریب ہے۔ آنحضورﷺ کا ان صحابہ کرام کو اس علاقے میں بھیجنا اس مقصد کے لیے تھا کہ قریش اور ان کے حلیفوں کو معلوم ہوجائے کہ مسلمان کمزور اور خوف زدہ نہیں ہیں۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ قریش کو اس نقل و حرکت کی اطلاع ملی تو وہ فکر مند اور خوف زدہ ہوئے۔ جب اس سفر سے نبی اکرمﷺ واپس پلٹے تو اس موقع پر آپﷺ نے مدینہ کے قریب پہنچ کر سفر سے واپسی کی یہ مسنون دعا پڑھی آئِبُوْنَ تَآئِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ(صحیح بخاری:2855) ترجمہ : ''ہم بخیریت واپس پلٹے، اللہ کے سامنے توبہ کرتے ہوئے، اس کی بندگی کرتے ہوئے اور اپنے رب کریم کی حمد وثنا پڑھتے ہوئے ‘‘۔ جس طرح سفر پر جانے کی مسنون دعائیں ہیں، اسی طرح سفر سے واپسی کی بھی یہ مسنون دعا ہے۔ آنحضورﷺ نے اس مشکل سفر کے دوران سفر کی وہ مخصوص دعا بھی پڑھی جس میں سفر کی مشقتوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے۔ آنحضورﷺ نے صحابہ کرام کے سامنے بلند آواز سے پڑھا۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ وَعْثَائِ السَّفَرِ وَکَآبَّۃِ الْمُنْقَلَبِ وَسُوْئِ الْمَنْظَرِ فِی الْمَالِ وَالْاَہْلِ (سنن أبی داؤد‘ کتاب الجہاد: 2231، طبقات الکبریٰ لابن سعد 2؍79) ترجمہ: ''اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوںسفر کی مشکلات سے اور غم کی حالت میں واپس پلٹنے سے اور اپنے اہل و عیال اور مال میں کسی بری خبر اوربرے منظر سے‘‘۔
اس سفر کے دوران نبی اکرمﷺ اس علاقے میں مقیم ہوئے جہاں آپﷺ کی والدہ ماجدہ کی قبر ہے۔ بچپن میں آنحضورﷺ جب اپنی والدہ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی طرف سفر کررہے تھے تو راستے میں آپﷺ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا۔ اس وقت آپﷺ کی عمر مبارک چھ سال تھی اور اس سفر میں ام ایمنؓ بھی آپﷺ کے ہمراہ تھیں۔ اب جب آپﷺ اپنی والدہ کی قبر پر پہنچے تو فطری اور بشری تقاضے سے آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ آپﷺ نے نہایت غم زدہ لہجے میں فرمایا کہ میں نے اللہ سے اپنی والدہ کے لیے مغفرت کی دعا کی لیکن اللہ نے اجازت نہیں دی‘ پھر میں نے اللہ سے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت چاہی تو اللہ نے اجازت دے دی؛ پس تم لوگ قبروں کی زیارت کیا کرو‘ زیارتِ قبور سے تمہیں موت کی یاد دہانی ہوگی۔ حدیث شریف میں یہ گفتگو صحیح مسلم میں نقل کی گئی ہے۔(صحیح مسلم:2259) جہاں تک مذکورہ روایت میں ان الفاظ کا ذکر ہے کہ ''میں نے اللہ سے اپنی والدہ کے لیے مغفرت کی دعا کی لیکن اللہ نے اجازت نہیں دی‘‘ تو نبی اکرمﷺ کے اس ارشادپر کوئی تبصرہ کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں؛ البتہ ہم ایک تاریخی پس منظر یہاں ضرور بیان کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ کم و بیش تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ ابرہہ کے خانہ کعبہ پر حملے کے وقت قریش کے تمام لوگوں نے خالص توحید کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ سے دعامانگی تھی کہ وہ ذات باری تعالیٰ اپنے گھر کی حفاظت کرے۔ اس وقت وہ بتوں کو بالکل بھول گئے تھے۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ اس واقعے کے دس سال بعد تک قریش بتوں کو چھوڑ کر یکتا و واحد‘ ایک اللہ کی عبادت کرتے رہے۔ آنحضورﷺ کی والدہ ماجدہ اور دادا محترم کا انتقال اسی عرصے میں ہوا تھا۔ دس سال کے بعد پھر قریش اپنی پرانی ڈگر پر چلے گئے۔ اس حوالے سے مرشدی سیدابو الاعلیٰ مودودی تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں کہ ''اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت نہ دینا کسی حکمت کے تحت ہوگا‘ ورنہ یہ لوگ دینِ ابراہیم کے پیروکار ہی شمار ہوتے ہیں۔ یہ حکمت غالباً یہی تھی کہ اس کو بنیاد بنا کر دوسرے لوگ ان رشتہ داروں یا اپنے والدین کے لیے مغفرت کی دعا شروع نہ کردیں جو حالتِ کفر میں فوت ہوگئے تھے اور جن کے لیے مغفرت کی دعا سے منع کر دیا گیا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج: 6، ص: 468، تعارف سورۃ الفیل)
قرآن مجید میں کئی ایک مقامات پر اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر ارشادِ ربانی ہے: نبی کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں‘ زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعاکریں، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ ان پر بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں۔ (التوبہ: :113) دوسری جگہ ارشاد فرمایا: تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اُن کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ''ہم تم سے اور تمہارے اُن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں‘ ہم نے تم سے انکار کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لائو‘‘۔ مگر ابراہیم کا اپنے باپ سے یہ کہنا (اس سے مستثنیٰ ہے) کہ ''میں آپ کے لیے مغفرت کی درخواست ضرور کروں گا، اور اللہ سے آپ کے لیے کچھ حاصل کرلینا میرے بس میں نہیں‘‘۔ (اور ابراہیم و اصحابِ ابراہیم کی دعا تھی کہ) ''اے ہمارے رب، تیرے ہی اوپر ہم نے بھروسا کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کرلیا اور تیرے ہی حضور ہمیں پلٹنا ہے‘‘۔ (الممتحنہ: 4)
تیسرے مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ سے مکالمہ نقل کیا گیا ہے جس کے آخر میں انہوں نے کہا: ''سلام ہے آپ کو! میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کردے، میرا رب مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے‘‘۔ (سورۂ مریم :47)
پہلی آیت نزول کے لحاظ سے آخری شمار ہوتی ہے اور اس میں کفار کے حق میں استغفار سے منع کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں