مربیٔ اعظمﷺ کا اسوۂ حسنہ!

سفر و حضر اور امن وحرب ہر جگہ اسوۂ حسنہ کے ایمان افروز واقعات ملتے ہیں۔ نبی اکرمﷺ نے خیبر کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے حدی خوانی کی تلقین فرمائی۔ عربوں کے پرانے رسم و رواج کے مطابق حدی کے مختلف الفاظ متداول تھے۔ حدی خوانی کا مقصد اونٹوں کو تیز چلانا اور فضا میں ایک پُر کیف ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ نبی اکرمﷺ عام گفتگو میں بھی خلافِ واقعہ اور لغو کلام کو پسند نہیں کرتے تھے۔ حدی کے انتخاب میں بھی آپﷺ کا ذوق بہت بلند تھا۔ آنحضورﷺ تو اس حد تک تربیت فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص کے نام میں کوئی شائبہ کفر و شرک کا ہوتا یا اس سے ظلم و تعدی کا احساس ابھرتا تو آپﷺ وہ نام تبدیل فرما دیتے۔ اس سفر میں حدی خوانی کا فریضہ حضرت عامر بن اَکْوَعؓ ادا کر رہے تھے۔ اس موقع پر نبی اکرمﷺ کی ہدایت کے تحت انہوں نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے اشعار پڑھے۔
وَاللّٰہِ لَوْ لَا اللّٰہُ مَا اھْتَدَیْنَا
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا
فَاَنْزِلِ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْنَا
وَثَبِّتِ الْاَقْدَامَ اِنْ لَّا قَیْنَا
ترجمہ: خدا کی قسم اگر اللہ (کا فضل) نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاسکتے اور نہ ہی صدقہ کرتے اور نہ نماز پڑھتے۔ پس (اے ہمارے رب) ہم پر ضرور سکینت نازل فرمانا اور جب دشمن سے مقابلہ ہو تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرمانا۔
اس سفر کے دوران بعض پُرجوش نوجوانوں نے دعا کے الفاظ بلند آواز میں ادا کیے اور زیادہ پُرجوش نوجوانوں نے تو تکبیر کے نعروں سے فضا میں گونج پیدا کردی۔ آنحضورﷺ کی تربیت کا کمال ہے کہ سفرو حضر ہو یا امن و جنگ‘ کوئی موقع ایسا نہیں جب آپﷺ نے مربیّ کا فریضہ ادا نہ کیا ہو۔ اس موقع پر بھی آپﷺ نے ارشاد فرمایا ''آہستگی اختیار کرو‘ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں سنا رہے‘‘۔ بلند آواز سے تکبیریں کہنا کسی موقع پر پسندیدہ ہوتا ہے اور کسی وقت اس سے سکون و محویت میں خلل واقع ہوتا ہے۔ دعا کاتو قرآنی اصول ہی یہ ہے: اپنے رب کو پکارو گڑ گڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے۔ یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ الاعراف:55)
سورۃ الاعراف ہی کے آخر میں ارشاد فرمایا: اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو‘ دل ہی دل میں۔ زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی یاد کرو تو ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہو جائو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ (آیت :205)
نبی اکرمﷺ کی سیرت کا مطالعہ جو طالب علم بھی تربیت کے نقطۂ نظر سے کرے گا‘ اسے قدم قدم پر تربیت و تزکیہ کے موتی بکھرے ہوئے نظر آئیں گے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی رخصتی کے موقع پر انصار کی خواتین گھر کے اندر پاکیزہ گیت گارہی تھیں اور نعتیہ اشعار بھی پڑھ رہی تھیں۔ اشعار میں بالخصوص ان اشعار کا اعادہ تھا، جو آپﷺ کی ہجرت کے وقت میں پڑھے گئے تھے۔
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا ما دعا للہ داع
ایھا المبعوث فینا
جئت بالامر المطاع
انہی اشعار کے ساتھ صحابیات میں سے بعض نے ایک مصرع اور پڑھا :
و فینا نبیٌ یعلم ما فی غدِ
ترجمہ: اور ہمارے درمیان نبی پاک موجود ہیں جو مستقبل (غیب) کا علم رکھتے ہیں۔
یہ مصرع سنتے ہی آنحضورﷺ نے اس سے منع فرما دیا اور کہا کہ جو اشعار تم پہلے پڑھ رہی تھیں‘ وہی پڑھو۔ کس قدر احتیاط اور سلامت روی ہے۔
نبی اکرمﷺ نے ہر موقع کے لیے دعائیں سکھائیں۔ جب صبح ہوتی تو آنحضورﷺ اللہ سے دعا مانگتے: اَصْبَحْنَا وَاَصْبَحَ الْمُلْکُ لِلّٰہِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیْرٌ۔ ''ہمارے اوپر اور اللہ کے ملک پر صبح طلوع ہوگئی ہے۔ اللہ ہی حمدو تعریف کا مستحق ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ حکمرانی بھی اسی کی ہے اور حمد بھی اسی کے لیے وقف ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ اسی طرح ایک دعا ہے: ''اے اللہ میں تجھ سے آج کے دن کا ہر خیر طلب کرتا ہوں اور اس دن کے بعدکا خیر بھی۔ اے اللہ میں آج کے دن کے ہر شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس کے بعد کے شر سے بھی‘‘۔ اسی طرح شام کو بھی آنحضورﷺ صبح کی جگہ شام اور دن کی جگہ رات کے الفاظ استعمال کرکے انہی الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے حصولِ خیر اور دفعِ شر کے لیے دعائیں کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، عن حضرت عبداللہ بن مسعودؓ) خیبر کے قریب پہنچنے کے موقع پر بھی آنحضورﷺ نے جو دعا فرمائی وہ حدیث کی کتابوں میں منقول ہے:
''اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمٰوَاتِ وَمَا أَظْلَلْنَ وَ رَبَّ الْأَرْضَیْنَ وَمَا أَقْلَلْنَ، وَ رَبَّ الشَّیَاطِیْنَ وَمَا أَضْلَلْنَ، وَرَبَّ الرِّیَاحِ وَ مَا أَذْرَیْنَ نَسْأَلُکَ خَیْرَ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ وَ خَیْرَ أَھْلِہَا وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّ مَا فِیْہَا‘‘۔ (اے اللہ جو آسمانوں کا اور ہر اس چیز کا‘ جس پر آسمان سایہ کیے ہوئے ہیں‘رب ہے اور زمینوں کا اور جو کچھ بھی بوجھ انہوں نے اٹھا رکھا ہے اور شیاطین کا اور جن حربوں سے وہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور ہوائوں کا اور اپنی تیزی سے وہ جن چیزوں کو اڑاتی پھرتی ہیں (سب کا رب تو ہے)، ہم تجھ سے اس بستی اور اس کے باشندوں کی طرف سے خیر کی دعا کرتے ہیں اور اس بستی اور جو کچھ بھی اس میں ہے، خود کو تیری پناہ میں دیتے ہیں)۔ پھر آپﷺ نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا: ''أَقْدِمُوْ بِاسْمِ اللّٰہ‘‘۔ اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو۔ (نسائی، مستدرک حاکم، عن حضرت صہیب بن سنانؓ) نبی اکرمﷺ نے ہمیشہ اپنے صحابہ کرامؓ کویہ بات سمجھائی کہ فتح خالصتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں بھی جگہ جگہ اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 160 میں ارشاد ربانی ہے: اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کر سکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
غزوۂ خیبر کے آغاز سے قبل ہی اللہ تعالیٰ کی نصرت کے واضح اشارات صحابہ کرامؓ نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ بنو غطفان کے مشرکین نے یہود کی مدد کے لیے لشکر تیار کرلیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسا خوف اور رعب طاری کردیا کہ وہ جنگ سے پہلے ہی اپنے گھروں کو بھاگ گئے۔ مؤرخین نے بیان کیا ہے: یہود کی ساری جاسوسی اور احتیاطی تدابیر کے باوجود انہیں اللہ تعالیٰ نے یوں اندھا کیا کہ انہیں مسلمانوں کے وہاں آدھمکنے کی رات خوابِ غفلت نے اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ اس سے قبل ہر رات کو وہ چوکنا رہتے اور جگانے والے علی الصباح سونے والوں کو جگا دیا کرتے تھے۔ اتفاق سے اس روز طلوعِ آفتاب تک کسی مرغ نے بھی اذان نہ دی (اگر دی تو یہود کی غفلت و نیند کی وجہ سے انہیں سنائی ہی نہ دی)۔
روشنی پھیلنے پر جب وہ ہڑبڑا کر اٹھے اور قلعوں کے باہر اسلامی فوج کو پایا تو حواس باختہ ہوگئے۔ اب چونکہ دشمن قلعہ بند تھے اور انہیں دفاعی حصار کی وجہ سے کافی تحفظ حاصل تھا‘ اس لیے حملہ آور فوج کو‘ جو کھلے میدان میں تھی‘ بظاہر خطرات کا سامنا تھا لیکن آنحضورﷺ بہت بلند حوصلہ تھے اور صحابہ کرامؓ کی بھی یہی شان تھی۔ اس کے باوجود آنحضورﷺ اپنی فطرتِ سلیمہ کے عین مطابق صحابہ کرامؓ سے خطاب کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ دشمن سے لڑائی اور قتال کی تمنا نہ کیا کرو، اللہ رب العالمین سے ہمیشہ عافیت کی دعا مانگا کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ جنگ میں کس قسم کی آزمائشوں کا سامنا ہوگا لیکن جب دشمن سے مقابلہ ہو ہی جائے تو پھر ثابت قدمی اختیار کرو اور اپنی زبان سے کہو: ''اے اللہ ہمارا رب بھی تو ہے اور مدمقابل لوگوں کا رب بھی تو۔ ہماری پیشانیاں اور ان کی پیشانیاں تیرے ہاتھ میں ہیں۔ اے اللہ ان میں سے جو قتل ہوتے ہیں انہیں دراصل تو ہی موت کے گھاٹ اتارتا ہے‘‘۔ سبحان اللہ! کس قدر حکیمانہ نصیحت ہے ! پھر آنحضورﷺ نے صحابہ کرامؓ کو ایک اہم ہدایت یہ دی کہ دشمن کے تیروں سے بچنے کے لیے زمین پر لیٹ جانا پڑے تو اس کا اہتمام کرو اور جب بالکل دوبدو جنگ ہو تو پھر اچھل کر کھڑے ہوجائو اور اللہ کی کبریائی کا نعرہ لگا کر حملہ کردو۔ ملاحظہ فرمائیں کہ اسی جنگ میں کچھ وقت پہلے آنحضورﷺ نے بلند نعروں سے منع فرمایا تھا اور یہاں نعرے بلند کرنے کی ترغیب دی۔ گویا ہر موقع محل کے مطابق طرزِ عمل اختیار کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ اسی اسوۂ نبوی کی روشنی میں آج کے دور میں سیاسی، معاشرتی، سماجی اور تربیتی و تعلیمی پروگراموں کے دوران کہیں تو نعروں کی گونج مطلوب ہوتی ہے اور کہیں نعروں سے مکمل اجتناب کے ساتھ نہایت پُرسکون ماحول میں بات کرنے اور سننے کی ضرورت ہوتی ہے۔
جنگِ خیبر کے دوران کئی قلعوں کا محاصرہ اور ہر قلعے کی فتح کے لیے شبانہ روز تگ و دو کا تذکرہ بڑا ایمان افروز ہے جو محض ضرب و حرب کے فنون و مہارت تک محدود نہیں بلکہ ایک جامع نظامِ حیاتِ اور تربیت کا مرقع ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں